تازہ تر ین

سودخور 20ہزار دیکر 36ہزار وصول کر چکا ،پھر بھی 12سالہ لڑکی اغواءکر لی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ کی سابق ایم پی اے اور” دی پوسٹ“ کی سابق ایڈیٹر حمیرا اویس شاہد نے کہا ہے کہ 2002ءمیں وہ ایم پی اے بنیں 2003ءمیں نجی سود خوری کے خلاف انہوں نے پنجاب اسمبلی میں ایک بل جمع کرایا تھا جس کی راہ میںہت سی رکاوٹیں بھی آئیں۔یہ بل 1960ءکے ایک آرڈیننس کوٹارگٹ کر رہاتھا جس کے تحت نجی سود خوری کی لائسنس کے طور پر اجازت تھی۔میں نے جو بل جمع کرایا اس کے مطابق اس قسم کی سود خوری پر دس سال قید، دس لاکھ جرمانہ ہونا چاہئے اور اس جرم کی ضمانت نہیں ہونی چاہئے یہ بہت سخت بل تھا جس کے باعث بڑی مخالفت بھی کی گئی۔ سود خوروں نے کوئی ایک گھر نہیں بلکہ پورے پورے محلے گاﺅں اور ٹاﺅنز کو سود کی جکڑ میں لیا ہوا تھا۔اس وقت سود کے خلاف خبریں نے بھی مہم چلائی اور جب ایک اشتہار چلایا تو خبریں میں ایک ہفتے میں سات سو فیملیز آئی تھیںجس میں ہر قسم کے کیسز تھے کسی کی بچی کو اغواءکیا گیا تھا،کسی کی جائیداد پر قبضہ کیا گیا تھا کسی کے بیٹے کو قتل کیا گیاتھا ۔سود خوروں کا پنجاب کے جرائم سے بھی بڑا تعلق تھا یہی لوگ جوئے ڈرگز، سودی کاروبار میں ملوث تھے جس کے خلاف ہم نے ایک وسیع مہم چلائی اور لوگوں میں شعور بیدار کیا اس مہم کے نتیجے میں عوام کی ہمیں بہت سپورٹ ملی۔سود تو ویسے بھی اسلام میں حرام ہے اللہ پاک سود کو اپنے اور اپنے نبی کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے وزیراعظم پاکستان کو مدینہ طرز کی ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن سود تو معاشرے کو معاشی طور پرختم کر دیتا ہے۔سود کے خلاف پنجاب اسمبلی کے ممبران نے میرا ساتھ دیا اور2007ءمیں میں بل پاس ہوا۔اس کے بعد بلوچستان اسمبلی اور کے پی اسمبلی میں اس بل کی نقل تیار کی گئی اس وقت یہ بل تین صوبوں میں نافذ ہے۔البتہ جس طرح یہ بل عملی طور پر نافذ ہونا چاہئے وہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا تحصیل جتوئی میں سود خور نے پیسوں کی عدم ادائیگی پر بارہ سالہ لڑکی اغوا کر لی یہ بڑی خوفناک بات ہے۔ملزمان کے پولیس کے ساتھ روابط کے باعث پولیس کارروائی کرنے سے گریزاں ہے ملزمان کی پشت پناہی ہو رہی ہے۔پولیس ہی جب لوگوں کی حفاظت کے بجائے ملزموں سے مل جائے تو جرائم دھڑلے سے ہوں گے۔اگر حکومت دعویٰ کرتی ہے ہم مدینہ طرز کی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو پھر سود تو حرام ہے وزیراعظم عمران خان کو سوچنا چاہئے جرائم اور اس طرح کی قانون کی خلاف ورزیاں معاشرے کے لئے اچھی نہیںاس قسم کے جرائم پر قومی سطح کی پالیسی وضع کرنی چاہئے چھوٹے چھوٹے کمیشن بنائے جائیں ہم اور باقی میڈیا سود خوروں اور ایسے جرائم کی نشاندہی کریں گے لیکن ظاہر ہے فیصلہ تو حکومت نے ہی کرنا ہے ریاست کی رٹ نافذ کرنا تو حکومت کی ذمہ داری ہے ۔جو بل ہم نے پیش کیا تھا یہ صرف کسی فرد نہیں بلکہ تمام این جی اوز جو مارک اپ کے نام پر سود لیتی ہیں اور سود کو دس لفظوں میں چھپا کر سود لیتی ہیں ایسے تمام مالی ادارے جو سٹیٹ بینک کی ریگولیشن میں نہیں آتے جس طریقے سے بھی یہ سود لیتے ہیں سب اس بل کے قانون کے تحت قابل گرفت ہیں البتہ بینکس کو اس بل میں ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو گا آدھی نجی چیزوں پر سود حرام جبکہ باقی ریاست کی سطح پر سود حلال ہے جبکہ ہمارا آئین 38ایف کے تحت کہتا ہے کہ ریاست کو جتنی جلد ممکن ہو سود ختم کرنا چاہئے۔حمیرا اویس شاہد نے بتایا ان کی کتاب ڈیووشن اینڈ ڈیفنس کتاب امریکہ سے پیلش ہوئی تھی جس میں میں نے بتایا جب آپ پارلیمنٹ کے رکن ہوتے ہیں اور کوئی قانون بنانا چاہتے ہیں تو سسٹم کس طرح رکاوٹ ڈالتا ہے میں نے پانچ میں سے چار سال اس بل پر لگائے پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں یہ پہلا بل ہے کہ کسی پرائیویٹ ممبر نے نیا قانون بنایا ہو۔پھر کتاب میں ذکر ہے جب تک آپ کا اثرورسوخ نہ ہو پولیس آپ کی ایف آئی نہیں کاٹتی۔اس پر بڑی مہم شروع ہوانی چاہئے حکومت ساتھ شامل ہو ہم حکومت کے ساتھ ہیں تمام میڈیا یکجا ہو کر مہم چلائے تاکہ سود خورے خدا خوفی کریں۔راجہ بشارت کو چاہئے اس پر کارروائی کریں۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ 20 ہزار روپے سود پر دینے کے بعد36 ہزار وصول بھی کر لئے اور اس کے بعد 12 سالہ لڑکی بھی اغوا کر لی۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اس سلسلے میں میں نے پنجاب کے وزیر قانون بشارت راجہ سے بات کی۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اِس وقت آرڈر کردوں گا۔ مجھے کاغذات بھجوا دیں میں ڈی پی او سے بھی ریکارڈ طلب کروں گا۔ کس طریقے سے اس نے بچی کے کیس کو معمولی لین دین کا مسئلہ قرار دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ لین دین کے مسئلے پرکیا گھر والوں کو ڈنڈے مارے جاتتے ہیں ہم اس کو ایک ٹیسٹ کیس بنائیں گے اور ہم سود خور بندے کو پکڑوائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سود خور اتنے بااثر ہیں کہ لوگ ان کے خلاف قانون کی مدد حاصل کرنے کے لئے سامنے نہیں آتے لوگ ڈرتے ہیں۔لاہور کے دو علاقے جن میں لٹن روڈ جو رکشہ مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے رکشے قسطوں پر دیے جاتے ہیں جن پر بے تحاشا سود لیا جاتا ہے۔سو روپے پر اسی روپے سود وصول کیا جاتا ہے۔کرشن نگر میں سود خوروں کے باقاعدہ منظم گروہ ہیںجن کے پاس ڈنڈے، سوٹے اور اسلحہ بھی ہوتا ہے جن کو یہ گروہ سود دیتے ہیں اس کی پراپرٹی یعنی گھر وغیرہ رہن رکھوا لیتے ہیں۔اتنا پیسہ چارج کیا جاتا ہے لوگ بیچارے سود دیتے رہتے ہیں اور اس چنگل سے نکل نہیں پاتے۔مجبور لوگوں سے انگوٹھے و دستخط کروا لیے جاتے ہیں پیسے ادا نہ کرنے کی صورت میں گھر پر قبضہ کر لیا جاتا ہے بےچارہ اچھا بھلا شخص گھر سے محروم ہو جاتا ہے۔آج کے کیس میں جتوئی تحصیل میں ایک شخص نے بیس ہزار سود پر قرض لیا۔سود خور نے مجبور شخص سے چھتیس ہزار وصول کر لئے لیکن اس کے باوجود وہ کہتا ہے ابھی تمہارے پاس پیسے رہتے ہیں اور اس پاداش میں قرض لینے والے کی بارہ سال کی لڑکی سود خور نے اغوا کر لی باپ اور لڑکی کو ڈنڈوں سے مارا ایک ہفتے لڑکی سے گھر پر برتن صاف کرائے بڑی مشکل سے منت ترلے کر کے لڑکی کے باپ نے بچی واپس لی۔ایک امام مسجد نے نے بتایا کہ سود پر پیسے لئے گئے جبکہ ڈی پی او کہتا ہے معمولی لین دین کا جھگڑا ہے میں پوچھتا ہو ں اگر لین دین کا معمولی جھگڑا تھا تو بارہ سال کی لڑکی کیوں اغوا کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے لیکن سب سے زیادہ سود خوری کراچی میں ہے۔اندرون سندھ کا ہاری یا مزارعہ تو سود کے باعث وڈیرے کے پاس نسلوں سے گروی پڑا ہے اس کی پوری زندگی سود چکاتے گزر جاتی ہے۔بلاول کے نام سے نیا خون سیاست میں آیا میں ان کی عزت کرتا ہوں لیکن سندھ میں پرائیویٹ سود خوری کے خلاف قانون کیوں نہیں۔ہاری کا تو پورا وجود ہی سود کی جکڑ میں ہے میری بلاول سے درخواست ہے سندھ میں پرائیویٹ منی لینڈنگ کے خلاف کارروائی کریں اور سندھ اسمبلی میں سود خوری کے خلاف قانو ن بنوانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ سودی کاروبار کا جرائم سے گہرا تعلق ہے جو سود پر پیسے دیتا ہے وہ عورتوں کا بھی کاروبار کرتا ہے غیر اخلاقی حرکتوں کا مرتکب ہوتا ہے سود خور کو پولیس تحفظ دیتی ہے سود، خور کو لوگوں کا پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کے لئے پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے سود خور کا تھانے کچہری کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھانے سود کو ختم کرنے کے بجائے اسے پروان چڑھاتے ہیں۔کوئٹہ سے گوادر تک چار گھنٹے میں تیز رفتار ٹرین سے وہاں کی قسمت بدل جائے گی۔خوش قسمتی سے حمیرا اویس شاہد نے پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی کے وزارت اعلی کے دور میں انہوں نے پرائیویٹ ممبر ڈے کی بنیاد پرانہوں نے نجی سودخوری کے خلاف قانون بنوایا تھا جس کے بعد کے پی، بلوچستان میں بھی یہ قانون بناصرف سندھ میں یہ قانون نہیں۔ سود خوروں کا باقاعدہ نیٹ ورک ہے جو زورآور بندے رکھ کر وصولی کرتے ہیں یہ نیٹ ورک ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv