تازہ تر ین

بھارتی پائلٹ کو چھوڑنا عمران خان کا دانشمند نہ فیصلہ ، کسی بیرونی دباﺅ کا نتیجہ نہیں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ ایک اچھا حربہ تھا کہ پاکستان کی طرف سے ایک وقت میں جبکہ پاکستان پر الزام لگایا جاتا تھا کہ یہ ہر وقت لڑائی اور دہشت گردی اور مارکٹائی کی باتیں کرتے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کی طرف سے اوپر نیچے چاروں پیغامات ایسے گئے پہلے مرحلے پر باوجود صلاحیت رکھنے کے ہم نے کوئی جانی نقصان نہیں پہنچایا انڈین آبادی کو نہ شہریوں کو یہ تو جنگ ہے جنگ میں دشمن کے سپاہی کام آتے ہی ہیں لیکن دشمن کے شہریوں کو بھی ٹارگٹ نہیں بنایا۔ دوسرا یہ ایک بہت بڑا ایشو آیا کہ اگر ایک پائلٹ زخمی ہوا بھی تھا اور گرفتار ہوا بھی تھا تو اس کی جس طریقے سے رکھا گیا اور اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر خود اس نے اپنی قوم کے نام پیغام دیا کہ یہ آپ غلط سمجھتے ہیں اور پاکستانی فوج نے جتنا اتھا سلوک میرے ساتھ کیا میری خواہش ہے کہ اگر کوئی اس قسم کا پاکستانی قیدی گرفتار ہو تو، پاکستانی فوجی گرفتار ہو تو اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے۔ تیسرے مرحلے پر پھر اگلے روز میں باوجود موقع ہاتھ آنے کے پاکستان نے پھر ایسا اقدام کیا کہ 6 ٹارگٹ جو تھے اس کو وہ نشانہ بنا سکتا تھا لیکن اس نے 6 کے 6 ٹارگٹس کو نشانہ نہیں بنایا کہ اس سے کوئی جانی نقصان پہنچ سکتا تھا بلکہ صرف دو طیاروں کو گرانے کے سوا اس نے کچھ نہیں کیا۔ سب سے آخر میں پھر اس نے پائلٹ کو بھی یک طرفہ طور پر رہائی کا اعلان کیا گیا آج وہ پائلٹ رہا ہو رہا ہے دنیا بھر میں اس جذبے کو سراہا گیا کہ پاکستان بڑے پیمانے پر لڑائی نہیں لڑنا چاہتا مسلسل بار بار پھر پیش کش کر رہا ہے مذاکرات کی۔پھر جس طریقے سے اپنی انا کو نشانہ بنائے بغیر عمران خان نے کل کوشش کی کہ وہ نریندر مودی سے بات کریں اور نریندر مودی کا بات نہ کرنا یہ اس کا چھوٹا پن تھا یہ کوئی بڑا پن نہیں تھا۔ آج بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کی گفتگو جو ہے اس وقت ساری دنیا بھر میں زیر بحث ہے کہ ہم تو ایک مدت سے جیش محمد کی سرگرمیوں سے آگاہ کر رہے ہیں مسلمان ممالک کو اور عرب ممالک کو لیکن ہماری بات کی طرف توجہ نہیں دی گئی آج یہ فرمایئے کہ اس مسئلے پر پاکستان میں خود ایک بحث شروع ہو چکی ہے جناب شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں وہاں ہر گز نہیں جانا چاہئے ہمارے وزیرخارجہ نے جناب شاہ محمود قریشی نے بھی کہا ہے کہ ہم او آئی سی کے اجلاس میں شامل نہیں ہوں گے لیکن آصف علی زرداری صاحب نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے اور بلاول بھٹو نے اس کے علاوہ اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں لازماً جانا چاہئے اور وہاں جا کر یہ مسئلہ اٹھانا چاہئے کہ بھارت کو مبصر کا بھی درجہ کیوں دیا گیا، جو سشما سوراج نے کہا اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اور یہ جو بحث شروع ہوئی ہے ہمیں جانا چاہئے یا نہیں جانا چاہئے آپ کی کیا رائے ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان نے مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد دوبارہ مائیک پر آ کر کہا تھا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم کل ان کو رہا کر دیں گے اس وقت تک دور دراز تک نہ تو کوئی پریشر تھا۔ اسی تقریر میں عمران خان صاحب یہ کہہ رہے تھے میں نے کوشش کی کہ میں ان سے بات چیت کر سکوں لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نمبر1 کہ کسی قسم کا کوئی دباﺅ نہیں تھا اور نمبر2 یہ کہ یہ فیصلہ اچانک عمران خان نے خود کیا اور نمبر3 یہ کہ یہ پوری دنیا میں اس فیصلہ پر واہ واہ کی جا رہی ہے اور داد و تحسین کے نعرے بلند ہو رہے ہیں بلکہ امریکہ جسے ملک میں تعداد بھی آ گئی ہے کہ 35 ہزار افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امن کا نوبل پرائز ملنا چاہئے جو اقدام کیا ہے عمران خان نے یکطرفہ طور پر پائلٹ کو چھوڑ کر۔ امریکہ تو ایک ایسا ملک ہے جو سب سے زیادہ باخبر ہونا چاہئے سپر پاور ہے اگر اس کے علم میں ہوتا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ابھی نندن کا آخری انٹرویو جو لاہور میں بھارت جانے سے پہلے ریکارڈ کیا گیا ہے اس پر ضیا شاہد نے کہا ہے انڈین آرمی، خاص طور پر انڈیا کے سیاسی حلقے جو وزیراعظم کی سوچ سے متاثر ہیں ان کے منہ پر طمانچہ ہے کہ ان کا ایک ونگ کمانڈر کے عہدے کا آدمی وہ کوئی معمولی سپاہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک بڑا افسر ہے اور وہ ایک انڈیا کے سابق ایئرمارشل کا بیٹا ہے گویا خاندانی طور پر بھی وہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس نے بجا طور پر یہ کہا کہ تعریف کی کہ پاک فوج کے پروفیشنل ازم کی۔ خالصتاً اس کی پیشہ وارانہ سوچ کی اور اس کی گفتگو کے جملے میں کہیں تاثر موجود نہیں ہے کہ ان کی رہائی کے لئے انڈیا میں کوئی بڑے پیمانے پر تحریک چل رہی تھی۔ کوئی بڑے مطالبے ہو رہے تھے۔ یہ کہا جا رہا تھا پاکستان اسے چھوڑ دے۔ کسی مطالبے کے بغیر عمران خان نے یکطرفہ طور پر اپنی تقریر کا خاتمہ کے بعد واپس آ کر یہ جملہ کہا تھا اور یہ ایک جملہ کسی سیاق و سباق کے بغیر ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی پریشر کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مسلسل یہ ان کی اپنی ذاتی سوچ ہے اور اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج پورے پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں امریکہ سمیت اس بات کو بہت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا کی فوج کے افسر کا یہ کہنا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ بات چیت کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہو۔
مودی سرکار اور بھارتی میڈیا کا پاکستان میں تین سو افراد کو مارنے مولانا فضل الرحمان خلیل کی ہلاکت اور ایف سولہ مار گرانے کا دعویٰ سب یکے بعد دیگرے جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں تاہم بھارت اب بھی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولے جا رہا ہے۔ بھارتی فوجی ترجمان میڈیا کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے اور پریس کانفرنس چھوڑ کر بھاگ گئے جس سے ان کا جھوٹ آشکار ہوتا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv