تازہ تر ین

پانامہ لیکس میں آنیوالوں کی صرف تلاش نہیں لوٹی دولت بھی واپس لینا ہو گی : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس میں جو انکشافات ہوئے تھے اس پر اس کے بعد مزید تحقیق نہیں ہوئی بلکہ معاملہ وہیں ٹھپ ہو گیا۔ کافی دیر خاموشی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اب اس کا دوبارہ نوٹس لیا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پانامہ میں جتنے لوگ تھے وہ کہاں گئے۔ کوئی وجہ نہیں خود عمران خان کے پاس بھی نہیں ہو گی کہ یہ پانچواں چھٹا مہینہ چل رہا ہے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔
عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس جو نام آئے تھے ان کی تحقیقات کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ سب لوگ نوازشریف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے باقی جو نام تھے ان کی طرف کیوں توجہ نہیں دی گئی۔ ضیا شاہد نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ صرف نشاندہی کر دی جائے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ پیسہ واپس خزانے میں آنا چاہئے۔ صرف فہرستیں چھاپ دینے یا رپورٹس سامنے لانے سے کچھ حاصل نہیں اس ملک کا پیسہ لوٹا گیا اور لوٹ کر لوگ باہر لے گئے۔ جو لئے گئے وہ بھی آرام سے بیٹھے ہیں ایک وزیراعظم نااہل ہوئے وہ بھی بڑے ٹھاٹ باٹھ سے اس ملک میں جو حشر ایک شخص جو مجرم ہوتا ہے یا اس سے پہلے جب اس پر الزام لگتا ہے تو کیا واقعی اس کے اتنے ٹھاٹ باٹھ ہوتے ہیں۔ جو نوازشریف صاحب کے ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سب ادارے اس بات سے بہت متاثر ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم ہیں حالانکہ کسی شخص کا سابق وزیراعظم ہونا کوئی کوالیفکیشن نہیں ہے۔ شیخ رشید کی شہباز شریف کو 8 دن کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں بارے ضیا شاہد نے کہا کہ شہبازشریف مستعفی ہوتے ہیں یا نہیں اس کا میں کچھ نہیں کہتا اس کا فیصلہ انہوں نے کرنا ہے پاکستان میں کوئی شخص استعفے کے مطالبے پر استعفیٰ دے دیتا ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ شیخ رشید صاحب کی تو نوٹیفکیشن ہی اب تک نہیں ہوا اور آج وہ چیخ اٹھے ہیں کہ یہ اچھا سپیکر ہے جو ان کا نوٹیفکیشن ہی نہیں کرتا۔ حالانکہ اتنی سی بات ہے کہ ریاض فتیانہ کو ہٹا کر ان کو تبدیل کر کے ان کو کوئی اور ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ بہرحال اس کمیٹی سے ریاض فتیانہ کا نام ہٹا کر شیخ رشید صاحب کا نام دیا بھی گیا تو سپیکر صاحب اس کا نوٹیفکیشن نہیں کرتے۔ ان کو اس سے کیا پریشانی ہے اس میں کون سی آئینی رکاوٹ ہے۔
ضیا شاہد نے شیخ رشید سے پوچھا کہ عمران خان نے لیڈر آف اپوزیشن کی حیثیت سے اور آپ نے (شیخ رشید) بھی اس وقت بھرپور ساتھ دیا سراج الحق صاحب نے اس معاملہ کو بہت اٹھایا اس وقت جتنا پانامہ لیکس پر زور دیا گیا یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ آج ملک کا وزیراعظم جو خود عمران خان ہیں اتفاق ہے وقت کی گردش ہے کہ آج وہ شخص 6 ماہ کی حکومت گزر چکی ہے اور اب یہ کہہ رہا ہے کہ 155 جتنے بھی نام ہیں ان کی باری باری تحقیقات کی جائے۔ یہ حکومت کیا کر رہی ہے اور جن باتوں پر تحریک انصاف کا بنیادی طور پر سٹینڈ تھا اور اس دور کی اپوزیشن کا آپ بھی اس اپوزیشن میں شامل تھے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس طرف سے کچھ پہلوتہی کی گئی ہے اور اس پر سنجیدہ بات نہیں کی جا رہی اب لاہور میں 4,3 دیکھتا رہا ہوں کہ سروسز ہسپتال کے سامنے ساری ڈی این جی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور ایک شخص جس کو سزا ہو چکی ہے اور جس کو جیل میں بند کیا گیا ہے وہ ملزم نہیں مجرم ہے اس وقت اور اس کے لئے کون اسے ملنے آتا ہے اور کون اسے ملنے جاتا ہے ہم تو بے غیرتوں کی قوم لگتے ہیں کہ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ایک شخص جو ہے وہ اس پر جرم ثابت ہو چکا اور اس پر الزامات لگ چکے لیکن اس کے ناز نخرے ہی دیکھنے کے قابل ہیں۔ اور جو ان کی سیاسی جماعت ہے وہ اس طرح سے کہہ رہی ہے جس طرح سے کوئی پیر صاحب آئے ہوئے ہیں کہ سب ان کی زیارت کو باری باری جا رہے ہیں خط لکھ دیا ہے جو کہ انن کے وکیل خواجہ حارث صاحب نے عدالت میں پیش کر دیا ہے جس میں ڈاکٹر نے کہا کہ نوازشریف کو دل کی تکلیف ہے ان کو واپس لندن بھیج دیا جائے یہ کس قسم کا مریض ہے کہ پاکستان کا میڈیکل بورڈ کہتا ہے کہ ان کو دل کی تکلیف کوئی نہیں ہے اور وہ مُصر ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں۔
ضیا شاہد نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو کا تحقیقات پر کیا اعتراض کیا ہے اور اس کا جواب عدالت کو دینا ہے۔ پاکستان کے عوام ان سوالات کا جو جے آئی ٹی نے پہلے نے کی اس کے بعد جتنی تحقیقات ہوئی جتنی کمیٹیاں بنی ہیں جتنے انکشافات ہوئے اس کے جواب میں جو بات کہنی چاہئے بلاول صاحب کو کہ ان کے والد کس طرح سے منی لانڈرنگ میں شامل تھے اور خود ان کا نام کس طرح سے آ رہا ہے کہ ان کے اکاﺅنٹس بھی استعمال ہوئے اورجو صنعت کاروں کا ایک گروپ ان کے زیر نگرانی بنا تھا اور وہ جس طرح سے بنکوں کی لوٹ مار کی ہے جواب تو دینا ہے بلاول صاحب کو اس قوم کو عوام کو جواب دیں جو ان پر الزامات ہیں اب ایک نقطہ نکال دیا ہے اس کا جواب عدالت جانے وہ جانیں۔ جواب تو اس بات کا دینا چاہئے کہ کیا ان پرمنی لانڈرنگ کے الزامات درست ہیں۔ کیا درست ہے فریال تالپور صاحبہ بھی اس منی لانڈرنگ میں شریک ہیں۔ کیا یہ درست ہے کہ بلاول بھٹو صاحب بھی اس منی لانڈرنگ میں شریک ہیں سے ان سوالوں کا جواب کون دے گا۔ پاکستان کی پوزیشن یہ ہے کہ جس طرح کے سیاستدانوں پر الزامات لگ رہے ہیں وہ جواب دینے کی بجائے یا وہ عدالتوں کو چیلنج کر رہے ہیں یا وہ غیر متعلقہ گفتگو کر رہے ہیں۔
حکومت نے جو وعدے کئے تھے 50 لاکھ گھر بنانے کا معاملہ کیا ہوا۔ ایک برادر ملک اور ایک مصری سرمایہ کار نے 15 ہزار گھر بنانے کی آفر کی کیا وجہ ہے کہ حکومت حامی نہیں بھرتی اور کام شروع نہیں کر رہی۔ پنجاب میں ایک کروڑ ہیلتھ کارڈ کیسے دیں گے اب عوام صرف وعدہ فردا پر نہیں بیٹھ سکتے وہ عملی طور پر کام دیکھنا چاہتے ہیں۔ ق لیگ کا پہلا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ اب مزید مطالبات بھی کئے جائیں گے اور ق لیگ اقتدار میں مزید حصہ لینے کیلئے کوشش کرتی رہے گی۔ سیاسی جماعتوں کے اختلافات پالیسیوں پر ہونے چاہئیں افراد یا عہدوں پر نہیں ہونے چاہئیں شیخ رشید کیخلاف حکومتی صفوں میں کچھ لوگ فعال ہیں ان میں سپیکر قومی اسمبلی بھی نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم نے جب ممبر پی اے سی کیلئے نام دے دیا تو سپیکر کیوں اس فائل کو دبائے بیٹھے ہیں۔ ملتان سکھر موٹر وے کے منصوبہ پر احسن اقبال کے دستخط سامنے آئے ہیں جو بڑے دانشور بنے پھرتے ہیں اور کاغذی باتوں کے ماہر ہیں ان کا کچا چٹھا سامنے آیا ہے اب جواب دیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv