تازہ تر ین

حکومت اور احتجاج کر نیوالے سوچیں ،عام پاکستانی کی زندگی بڑی مشکل ہو گئی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ملک کی پوزیشن تشویشناک ے لوگ کہتے ہیں باہر سے حملہ ہوا۔ یہ حملہ تو ہمارے اندر ہے۔ اور اس طرح کے حالات ہیں کہ ساری یونیورسٹیاں، کالج، سکول بند، ساری مارکیٹیں بند ہیں بازار بند ہیں۔ دیہاڑی دار مزدور جو ہے، جس مزدور نے روزانہ کھانا ہے اور رات کو اپنے بچوں کے لئے کھانے کا بندوبست کرنا ہے اس کی تو بالکل بری حالت ہے۔ ٹیلی فون بند ہیں، موبائل بند ہیں آپس میں مواصلات کے ذریعے رابطہ منقطع ہے پورا ملک نازک پوزیشن میں ہے اس میں جلدی ہو، اچھا کیا حکومت نے کمیٹی بھی بنا دی ہے جو کہ مذاکرات کرے گی۔ ہر قسم کے معاملات میں اختلافات ہو جاتے ہیں لیکن پھر مل بیٹھ کر ان کا کوئی حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیدیا تو حکومت نے پولیس نے، یونیورسٹیوں نے تو نہیں دیا۔سارے ملک کو اس پر سوچنا چاہئے اور ہم میں سے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ صورتحال کو معمول پرلایا جائے۔
خبریں کے چیف رپورٹر ملک مبارک نے کہا کہ خارجی اور داخلی راستے بند ہیں اس سے جو ہزاروں کی تعداد میں مزدور ہیں۔ جو دیہاڑی دار ہیں ان کی دال روٹی متاثر ہو رہی ہے۔ مارکیٹیں اور سبزی منڈی، فروٹ منڈی بند ہیں، جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ بہت پریشان ہے۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ گھروں میں بند ہونے پر مجبور ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ خبر یہ ہے مولانا خادم حسین رضوی صاحب نے جو مطالبے کئے ہیں جو قوم کے سامنے رکھے ہیں جو حکومت کے سامنے رکھے ہیں ان مطالبات میں ایک مطالبہ تھا کہ حکومت خود سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل کے لئے جائے تا کہ اس کیس پر دوبارہ غور ہو سکے۔ اس سلسلے میں حکومت تو نہیں گئی لیکن اظہرصدیق صاحب ایک نامور قانون دان ہیں انہوں نے ایک نظرثانی کی اپیل جو ہے دائر کر دی ہے سپریم کورٹ میں اور لگتا ہے ایک مطالبہ جو ہے وہ تو پورا ہوا۔ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں کھلے گا۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ کیونکہ کل سے افواہیں اتنی پھیلی ہیں کہ آسیہ کو فوری طور پر پاستان سے باہر بھجوا دیا گیا۔ میں دفتر آ رہا تھا تو میرے ڈرائیور نے مجھے کہا کہ چیف صاحب وہ تو جو اسرائیل کا طیارہ تھا پانچ دن پہلے خبر چھپی تھی کہ اسرائیل کا طیارہ اسلام آباد آیا تھا وہ آسیہ کو لینے کے لئے آیا تھا۔ میں نے کہا کہ وہ فیصلے سے 4 دن پہلے کی بات ہے۔ جب اس قسم کی صورت حال ہو تو افواہیں بھی پھیلتی ہیں۔ اس طرح سے غلط قسم کی چیزیں جو ہیں اس کو صحیح سمجھ کر پھیلایا جاتا ہے۔ آسیہ ملک سے باہر نہیں گئی بلکہ ای سی ایل میں خود حکومت نے ڈال دیا ہے کہ وہ پاکستان سے باہر نہ جا سکے۔ عمران خان نے ایک دن کے لئے اپنا دورہ چین موخر کیا اور یک کابینہ کی میٹنگ رکھی۔ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر مذہبی امور اور تین اور ایسے ایم این اے حضرات ہیں جن کا تعلق ہمارے مشائخ اور علمائے کرام سے ہے۔ کمیٹی اس معاملہ میں مذاکرات کرے گی۔ ملی یکجہتی کونسل نے بھی منصورہ میں اجلاس کیا جس میں مطالبات رکھے گئے ہیں کہ عنقریب زیادہ بڑے پیمانے پر مشاورت ہو گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاملات کو بڑھانے کی بجائے ہمیں واپس اس طرف آنا چاہئے کہ مذاکرات ہوں کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہو گا۔ جس کے نتیجہ میں صبر و تحمل اختیار کیا جائے۔ شکر ہے جگہ جگہ دھرنے دینے والوں نے کہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ یہ خوش آئند بات ہے ورنہ جہاں مجمع ہو وہاں کوئی نہ کوئی تلخی ضرور ہو جاتی ہے۔ حکومت نے بھی ایک عقل مندی کا، دانش مندی کا قدم اٹھایا ہے کہ کہیں بھی مظاہرین پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا، پاکستانی بڑھی مہذب قوم ہے سوچنے سمجھنے والی قوم ہے اس کرائسس میں کوئی نہ کوئی سامنے آئے گی اور اس پر قابو پا لیا جائے گا۔ اگر سیاسی جماعتوں کا نام لیا جائے تو شہباز شریف صاحب نے مسلم لیگ ن کی طرف سے پیپلزپارٹی کی طرف سے، بلاول بھٹو صاحب نے اور خود ان دونوں بڑے گروپوں نے بڑا واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی انہوں نے مخالفت نہیں کی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس ملک میں بہرحال دوسرا نقطہ نظر بھی موجود ہے۔ بہرحال کوشش کی جائے کہ پاکستان کے حالات کو شہری زندگی کے حالات کو معمول پر لایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک موبائل فون بند ہونے سے ہی ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔ اور لوگ آپس میں بالکل ہی کٹ گئے ہیں، سڑکیں بند ہیں یہ صورت حال زیادہ دیر رکھنا ملک کے لئے بھی نقصان دہ ہے لہٰذا اگلے دوچار دن میں اس کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کر کے سامنے لانا چاہئے۔
آئی جی اسلام آباد کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا ہے کہ دو انتہائیں ہیں ایک سائیڈ پر وہ بھی انتہا پسندی اور دوسری سائیڈ پر بھی انتہا پسندی ہے ہمیشہ قوموں کو چلانے کے لئے ایک متوازن راستے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک درمیانی راستہ دونوں کے درمیان سے ہی نکالا جاتا ہے۔ مگر یہ بات درست ہے کہ ریاست کوعوام کےساتھ اور عوام کو ریاست کے ساتھ نہیں ٹکرانا چاہئے۔
2 اکتوبر کو نیب میں حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی طلبی اور سلمان شہباز کے ملک سے باہر چلے جانے کے معاملے پر ضیا شاہد کا کہنا تھاکہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ چئیرمین نیب کو بلا کر بریف کر چکے ہیں اور ملک کے سربراہ وزیراعظم سے بھی انکی ملاقات ہوچکی ہے ۔ اب تمام تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ نیب کو اپنے اندر موجود خامیوں کو درست کرنا چاہئے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ تاریخ پر تاریخ چلتی رہے اور لگتا ہے کہ اگلے 200 سال تک ہم انہی مقدمات کو چلاتے رہیں گے۔ دیکھنا چاہئے کہ قصوروار کون ہے ، اسے سزا دی جائے اور اگر قصوروار نہیں ہے تو اسکی جان خلاصی کی جائے۔
وزیر اعظم کے دورہ چین کے لیے وفد کیساتھ روانگی پر ضیا شاہد نے کہا کہ آپس میں چھوٹے موٹے اختلافات ہر ملک میں چلتے رہتے ہیں۔ اس سے قطہ نظر ملکوں کے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ یہ ہمارے ملکی مفاد میں ہے کہ وزیر اعظم کا دورہ چین کامیاب ہو اور وہ وہاں سے اچھی سرمایہ کاری لیکر آئیں ۔ہو سکتا ہے کہ وہاں سے انکو قرضے کی پیشکش بھی ہوجائے اور ملک کے معاشی حالات کچھ بہتر ہو سکیں۔ پاکستان کی حکومت کے سرکردہ لوگوں پر مشتمل وفد اپنے مقصد میں کسی نہ کسی حد تک ضرور کامیا ب ہوگا۔ اللہ کرے کہ ہمارے معاملات اور مشکلات میں کمی واقع ہو۔
پچھلے 6 ماہ ، الیکشن سے بھی پہلے سے کہا جاتا ہے کہ سی پیک پر کام یا تو بند ہے یا اسکا زور و شور وہ نہیں رہا جس رفتار کیساتھ یہ پہلے چل رہا تھا۔وزیراعظم کی سربراہی میں جانیوالا وفد اس ضمن میں بھی ضرور بات کرے گا کہ سی پیک کے راستے میں کیا رکاوٹیں آرہی ہیں۔ اب تو رکاوٹیں دور ہونے کا وقت آیا ہے کہ سعودی عرب نے بھی سی پیک میں اتحادی کی حیثیت سے شمولیت اختیارکرنے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے آئل سٹی بنانے کا پرپوزل دیا ہے ۔ جسکے تمام اخراجات بھی سعودی عرب برداشت کرے گا۔ سی پیک کے معاملے میں اگر کوئی تعطل ہے تو اسے ختم ہو کر کام زور و شور سے جاری رہنا چاہئے۔
سی پیک میں مفاد خطے کے تمام ملکوں کا ہے۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، پاکستان اور پاکستان کیساتھ ملے ملک افغانستان کے لیے جدید ترین بنددرگاہ اور انہیں چین جیسے عظیم ملک کیساتھ زمینی راستوں سے ملاتا ہے۔ پچھلے دنوں میری کتاب کی تقریب میں شیخ رشید آئے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ سی پیک کا ایک بہت بڑا مرحلہ ریلوے لائن ہے۔
پروگرام میںسابق سفیر سیدہ عابدہ حسین نے وزیراعظم کے دورہ چین اور سی پیک کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ چین میں انکی چینی حکام کیساتھ سیر حاصل گفتگو ہوگی اور سی پیک کے مختلف پہلوﺅں پرتبادلہ خیال ہوگا۔ اگر کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی ہے تو اسکی وجوہات بیان کی جائیں گی اور اسکا سدباب بھی ہوگا۔ چین کا دورہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے اور سمجھتے ہیں کہ کامیابی سے ہم کنار ہوگا۔
ضیا شاہد نے کہاکہ پاکستان کے اپنے مسائل ہیں ، معیثت کے سلسلے میں ہم کچھ مشکلات کا شکارہیں۔ اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں سرمایہ کاری اور آسان شرائط پر قرضوں کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی خوفناک اور کڑی پابندیاں قرضے کیساتھ عائد نہ کی جائیں جو کہ آئی ایم ایف عام طور پر مختلف ترقی پذیر ملکوں سے کرتا ہے۔ میں ہمیشہ سے یہ سوچتا آیا ہوں، جب سے الیکشن ہوا ہے کہ نئی آنیوالی حکومت کو چین کا دورہ کر نا چاہئے اور کام کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لینا چاہئے اور انہیں دور کرنا چاہیے۔ سی پیک پاکستان کی معیثت میں اس قدر دخیل ہو گیا ہے کہ سی پیک پرکام کے سکیل میں کمی سے بھی پاکستان میں ملازمین کی تعداد اور معاشی دائرہ کی تکمیل میں بہت دقتیں پیش آئیں گی اور بہت سا کام رک جائے گا۔ جس آن، بان اور شان سے سی پیک کا کام شروع ہوا تھا اسی طرح تکمیل کو پہنچے۔ ریل سروس گوادر سے چینی بارڈر تک جائے گی۔
آئی ایم ایف سے جتنا زیادہ قرض لیا جائے گا شرائط اتنی ہی کڑی ہوں گی۔جب کبھی آئی ایم ایف سے قرض لیا جاتا تھا ایک حکم ملتا تھا کہ اپنی بجلی کی قیمتیں بڑھا دو، عوام پر اور زیادہ ٹیکس لگاﺅ۔ ایک زمانے میں پاکستان میں پٹھان سود کا کاروبار کرتے تھے اب یہ کام بہت بڑھ گیا ہے۔آج لاہور کا1/7 حصہ مقروض ہے، لوگوں کے گھروں کے گھررہن پڑے ہوئے ہیں۔ لوگ ہر مہینے کچھ پیسے جمع کرتے ہیں اور پھر سود خوروں کو جا کر دے دیتے ہیں۔ ان کے پچھلے پیسے ہی پورے نہیں ہوتے کیونکہ سود کی شرح ہی اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ بینک سے 16 سے 22 فیصد پر قرض ملتا ہے ، مگر سود خور تو 100 روپے دیکر 300 وصول کرتا ہے۔قرض کم ہوگا تو پچھلی حکومتوں کے دور میں لیے گئے قرضوں کی طرح کڑی شرائط کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ دیکھ سکیں کہ یہ ملک قرض واپس بھی دے سکے گا یا نہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv