تازہ تر ین

بجلی ، گیس ،پانی اور کول سمیت تمام انرجی ذرائع کی ایک وزارت ہونی چاہیے : جنرل (ر )ذوالفقار علی کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بہت سے ممالک میں نئی حکومت نے سفیروں کو ہٹا دیا ہے جو سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوئی ہیں ان کو ختم کرنا ہے اور بعض ملک جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے کینیڈا، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں نئی حکومت کو ضرورت تھی کہ وہ نئے لوگوں کو وہاں بھیجے یا کم از کم ایسے لوگوں کو بھیجے جن کی سابقہ حکومتوں اور حکمرانوں سے کوئی ایسوسی ایشن نہ ہو۔ چنانچہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہتر اقدام ہے۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بہت سے اور بھی نام آئیں گے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں میں کوئی بھی ہوں کسی کی عزیز ہو۔ کسی کا رشتہ دار ہے اگر قانون ہے تو سب کے لئے ہونا چاہئے۔ اگر ان کے کام غیر قانونی ہیں۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر پیسے بھجوائے ہیں اور وہاں جائیدادیں خریدی ہیں تو قانون کے مطابق ان کا علاج ہونا چاہئے ان لوگوں کی جائیدادیں بھی ضبط ہونی چاہئیں اور ان کو مجبور کیا جانا چاہئے جو پیسے وہ غیر قانونی طور پر وہ باہر لے گئے تھے وہ واپس پاکستان لائیں۔ یہی پی ٹی آئی کا امتحان ہے کہ اگر لوگوں کے رشتہ داروں کے نام بھی ہیں لہٰذا اب دیکھنا یہ ہو گا کہ جو ایکشن حکومت لیتی ہے اس ایکشن میں کیا وہ اپنے اپنے لوگوں کو چھوڑ دیتی ہے تو پہلے دن سے ہی ان کی بدنیتی ظاہر ہو جائے گی پھر کوئی ان پر یقین نہیں کرے گا۔ اس لئے ایسا انصاف ہونا چاہئے جو سب کے لئے یکساں ہو۔
سابق چیئرمین واپڈا جنرل (ر) ذوالفقار نے کہا ہے کہ جہاں تک بجلی چوری کرنے کے اقدامات کا تعلق ہے یہ خوش آئند ہے۔ کسی حد تک حکومت کامیاب ہوتی ہے۔ تو وقت ہی بتائے گا۔ بجلی کی چوری نئی باتا نہیں ہے۔ بجلی چوری ہر دور میں ہوتی رہی ہم نے بڑی کوشش کی ہے یہ کم ہو سکتی ہے۔ اس کے نت نئے طریقے ڈھونڈ لئے جاتے ہیں۔ اکیلا میٹر ریڈر یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس میں محکمے کا ملوث ہونا ضروری ہے۔ چوری زیادہ تر لائن لاسز کے اندر ڈال دی جاتی ہے۔ بجلی کے لائن لاسز 18 سے 20 فیصد ہیں اور چوری ٹوٹل لاسز 35 فیصد کے قریب ہیں جو بہت زیادہ ہیں۔ اگر 100 یونٹ صرف ہوتے ہیں تو صرف 65 یونٹ کے پیسے محکمے کو ملتے ہیں۔ اس لئے آپ اس کے اندر جتنی بھی امپرومنٹ کریں اس کے اندر کمی ہو جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہویسٹک اپنائیں۔ مثال کے طور پر بجلی چوری کرنے والے جو لوگ ہیں عام صارف جس گھر میں دو تین کمرے ہیں وہ کتنی بھی چوری کرے گا۔ زیادہ بجلی چوری بڑے صارف کرتے ہیں ہم نے اس کے لئے ایک محکمانہ ایفرٹ کی تھی۔ فوج کی مدد لی تھی ہم نے۔ مانیرٹگن اور سروینس کا محکمہ تھا اس میں بڑے بڑے لوگ صنعتکار اس میں شامل تھے جس میں وفاقی وزیر بھی شامل تھے صوبائی وزراءبھی شامل تھے اس میں سیاستدان بھی شامل تھے جن کو پکڑا گیا ان کے خلاف ایکشن ہوا اور اس وقت واپڈا کے پاس اختیارات تھے اس وقت کہ ہم ان کو گرفتار کر کے پراسیکیوٹ کر سکتے تھے۔ مین مقصد ان سے پیسہ وصول کرنا تھا وہ ایک بڑی کمپری ہینسو کمپین تھی۔ لیکن بدقسمتی اب تقسیم کار کمپنیوں کا انچارج کوئی نہیں ہے۔ اگر میں پوچھوں کہ بجلی کے محکمے کا انچارج کون ہے تو یہ نام نہیں بتا سکیں گے اور 20 ویں گریڈ منسٹری کے اندر جوائنٹ سیکرٹری ہے جو ان تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا انچارج ہے۔
جنرل (ر) ذوالفقار علی نے کہا کہ میں اس طرف آ رہا تھا کہ ہمیں سٹرکچر ریفارمز کرنی چاہئیں۔ واپڈا جب بنا تو ٹینسی اور ویلی پراجیکٹ اس کی بنیاد پر تھا جس میں ایک انٹسٹی گریٹڈ سسٹم تھا پانی اور بجلی کی ڈویلپمنٹ اور ڈسٹری بیوشن کا ہم نے اس کو بلایا اور بڑا اچھا چلا۔ اب جب ڈسٹری بیوشن کمپنیاں علیحدہ ہو گئیں، جنریشن کمپنیاں علیحدہ ہو گئیں تو واپڈا کے پاس کچھ نہیں بچا سوائے کہ ہائیڈل سیکشن منگلا اور تربیلا ان کو آپریشٹ کرتے ہیں صرف اور صرف بس یہی کچھ ہے۔ ہمیں سٹچرکچر ریمارمز کرنی چاہئیں اور واپڈا کرنا چاہئے تا کہ اتھارٹی ایسپونس بلٹی اکٹھی ہوں۔ اس وقت کس کی ذمہ داری ہے اختیارات کسی اور کے پاس ہیں۔ ذمہ داری کسی اور کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک وزارت ہونی چاہئے اس کے پاس تمام انرجی کے سیکٹر ہوں۔ ابھی پاور سیکٹر یعنی بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا علیحدہ وزیر ہے، واٹر کا الگ منسٹر ہے، گیس کا علیحدہ منسٹر ہے۔ ہمیں ایک منسٹر آف انرجی بنائیں جس میں بجلی، گیس، پانی، کول، تمام قدرتی ذرائع اکٹھے ہوں تا کہ ایک آدمی ذمہ داری سے فیصلے کر سکے۔ اوگرا اور نیپرا تقریباً ایک ہی کام کر رہے ہیں ایک گیس کے ساتھ دوسرا بجلی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ انتہائی لازم ہے کہ اس کو ری فریش از سر نو جائزہ لینا چاہئے کہ 10 سال کا تجربہ جو ہے وہ ہمارا کامیاب نہیں ہوا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی تسری دنیا کے کسی ایک میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی پرائیویٹائزیشن کامیاب نہیں ہوئی اس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ جو جنریشن کمپنیوں کا انچارج ہے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ایک آدمی جو اس معیار کا ہے وہ ان کو کیسے کنٹرول کر سکتا ہے جبکہ ان کے اندر 98 ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔ اگر ہم اس میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو ہنگامی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے جو ابھی کرنا ہوں گے کچھ اقدامات ہیں جو ہم دو چار سال میں لے سکتے ہیں۔ یہ مثال کے طور پر فوراً فیصلہ کریں کہ ہم نے رائٹ پرسن ٹو رائٹ جاب لگانا ہے۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ مجھے جو معلومات ملی ہیں وہ یہ کہتے ہیں اب واپڈا کے پاس کچھ رہا نہیں۔ جب آپ واپڈا کے سربراہ تھے تو مکمل اختیارات واپڈا کے پاس ہے اب چونکہ یہ واپڈا سے تقسیم ہو گئے ہیں۔ نجی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس اور فیصل آباد کی ایک کمپنی ہے ملتان کی دوسری کمپنی ہے گوجرانوالہ کی تیسری، لاہور کی پانچویں ہے، یہ تمام اختیارات واپڈا سے نکل کر لوگ کہتے تو یہی برا بھلا تو واپڈا کو ہی کہتے ہیں دیکھو جی واپڈا یہ کر را ہے۔ حالانکہ واپڈا کے پاس تو رہا ہی کچھ نہیں۔ واپڈا تو خالی خولی ایک بلڈنگ کا نام ہے جس میں زیادہ سے زیادہ ممبر پاورز جو ہیں از خود تمام احتیارات ان کمپنیوں کے پاس چلے گئے ہیں۔
کیا آپ کے خیال میں یہ کمپنیاں اپنے اپنے طور پر جیسے آج 300 آدمی پکڑے گئے لیکن یہ دوچار دس دن اوپر سے حکومت پر پریشر پڑے گا تو یہ کام چلے گا اور بعد میں ختم ہو جائے گا۔ کیا دوبارہ ان کمپنیوں کو ختم کر کے واپس واپڈا کے پاس سارا عمل دخل نہیں آ جانا چاہئے۔
ہمیں اپنا مفاد دیکھنا چاہئے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت لائن مین سے لے کر چیف تک ساری تعیناتیاں اور تبادلے ہو رہے ہیں وہ سارے مفادات کی خاطر ہیں۔ میرٹ پر کام ہونا چاہئے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ جب تک میٹر ریڈر نام کی چیز موجود ہے۔ یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ میٹر ریڈنگ میں گڑ بڑ کروانے کیلئے مختلف ریٹ ہیں۔ حکومت کوئی ایسا آرڈیننس لائے کہ سارے میٹر ریڈروں کو کسی دوسرے محکمے میں بھیج کر یہاں نئے لوگ لائے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام چلانے والے اس کو ٹھیک کر سکتے ہیں؟
ذوالفقار علی خان نے کہا کہ بجلی کے محکمے میں بہتری کی گنجائش ہے۔ بجلی چوری بڑے صارفین کرتے ہیں کوئی غریب آدمی نہیں کرتا۔ ہم ٹرانسفارمر کے ذریعے چوری پکڑ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ریموٹ ریڈنگ کا نظام موجود ہے، یہاں بھی متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ الیکٹرانک سسٹم سے میٹر ریڈنگ آ جائے گی اور بل گھر پہنچ جائیں گے۔ میٹر ریڈرز اور بل ڈسٹری بیوٹرز کی چھٹی ہو جائے گی۔ پرانے میٹر لگے تھے، نئے جدید الیکٹرانک میٹر لے آئے، 15,10 سالوں میں اربوں روپے خرچ کئے جو ضائع گئے۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ میٹر ریڈرز نے میٹر کے حساب سے اپنے ریٹ رکھے ہوتے ہیں اور اس طرح بجلی چوری ہوتی ہے۔ ایک ایکسئین 10,5 لاکھ روپے رشوت دے کر اپنی تعیناتی کروا رہا ہے۔ وہ کام کیا کرے گا۔ وہ اپنے پیسے بنائے گا۔
ضیا شاہد نے سوال کیا لوگ پوچھتے ہیں دنیا میں کین نظام ہے، ویسا نظام یہاں کیوں نہیں لایا جا سکتا؟ کمپیوٹرائزڈ نظام ہے۔ میٹر کی خود بخود ریڈنگ آ جاتی ہے اور بل گھر پہنچ جاتے ہیں، وہاں میٹر ریڈر نہیں آتے۔ بدقسمتی سے یہاں اووربلنگ، غلط بلنگ کے لئے کوئی نظام نہیں ہے۔ جب میں واپڈا کا چیئرمین بنا تو نچلی سطح تک لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے ایک نظام بنایا تھا جسے ختم کر دیا گیا۔ چند کالی بھیڑوں کو اگر مثالی سزا دے دی جائے تو نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ واپڈا کی نجکاری کر کے پاکستان پر ظلم کیا گیا۔ بجلی کی تمام نجی کمپنیوں کو چیئرمین واپڈا کے ماتحت ہونا چاہئے۔ چیئرمین واپڈا نہ ہونے کے باعث واپڈا کی جنریشن کمپنی کی بجلی کم اور آئی پی پیز کی زیادہ استعمال ہو رہی ہے جو بہت مہنگی ہے۔ واپڈا کے اپنے سسٹم میں 5 ہزار میگا واٹ ہے اور جنریشن 15 سو میگا واٹ تک ہوتی ہے کیونکہ دیکھ بھال نہیں ہو رہی۔ 100 دن میں موجودہ بجلی کے نظام میں بہتری آ سکتی ہے، 3,2 سال میں اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی بہت مہنگی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ہائیڈل و تھرکول کو چھوڑ کر تیل و گیس سے بجلی بنانی شروع کر دی۔ ٹیکسٹائل میں 23 فیصد لاگت بجلی کی ہے، انڈسٹری کو مہنگی بجلی دے کر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بھارت، بنگلہ دیش، کوریا وغیرہ اپنی انڈسٹری کو سستی بجلی فراہم کرتے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ کالا دھن سفید کرنے والے نظام کو ختم ہونا چاہئے۔ جب بھی ایسے کوئی ناموںکی لسٹ دیکھیں تو اس میں پی ٹی آئی، وزیروں، سیاستدانوں اور ان کے عزیز؟ رشتے داروں، فلمسٹاروں کے سب کے نام ہوتے ہیں۔ جوپکڑا جاتا ہے اس کے وسیع تعلقات ہوتے ہیں۔ عمران خان اگر واقعی سنجیدہ ہیں کہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑنا تو پھر خود سے یہ کام شروع کرنا چاہئے، پہلے اپنے عزیزوں کو پکڑیں پھر کام آگے چلے گا ورنہ ہر دور میں ایسے ہی لوگوں کے نام سامنے آتے رہے ہیں جن کے پیچھے بڑے نام ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایل این جی کیس دوبارہ کھل گیا ہے۔ نئے سرے سے تحقیقات ہوں گی تو حقائق سامنے آ جائیں گے۔ شیخ رشید نے بڑا شور مچایا تھا کہ قطر سے بہت مہنگی گیس خریدی گئی ہے لیکن ان کو ممبر قومی اسمبلی ہونے کے باوجود ریٹ نہیں بتایا گیا تھا۔ خفیہ معاہدہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی تھی۔ اب عدالت میں معاہدہ، ریٹ سب چیزیں سامنے آئیں گی۔ نوازشریف کے خلاف بھی ایک نیا کیس کھل گیا ہے۔ حدیبیہ کیس پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اب اس میں کچھ نہیں لیکن اب نیب کی درخواست پر اجازت مل گئی ہے۔ اگر یہ کیس دوبارہ کھل جاتا ہے تو اس پر عمران خان، شیخ رشید، فواد چودھری، نعیم بخاری، احمد رضا قصوری، بابر اعوان سمیت دیگر بڑی شخصیات کہا کرتی تھیں کہ حدیبیہ ایل این جی کیس میں شریف خاندان و شاہد خاقان عباسی بچ نہیں سکتے۔ دوبارہ گرفتاریاں متوقع ہو سکتی ہیں۔ بند کیس دوبارہ کھل رہے ہیں، امکانات ہیں نوازشریف پھر قصور وار قرار پائیں۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ کہا جاتا ہے 35 فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے، نجکاری کا فیصلہ غلط تھا ثابت ہو گیا، آپ کیوں بجلی چوری پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے؟
سابق چیئرمین واپڈا نے کہا کہ آئی پی پیز سب بڑے مگر مچھ تھے۔ انٹرنیشنل وکلاءکی ٹیم ان کے پاس تھی، حبکو نے لندن کی ایک فرم ہائر کی ہوئی تھی، ہم نے ان کے ساتھ مذاکرات کئے ان سے کہا کہ اتنا مہنگا ٹیرف برداشت نہیں کر سکتے، اگر یہاں بجلی فروخت کرنی ہے تو معاہدہ دوبارہ ہو گا، ہم نے دوبارہ معاہدہ کر کے 3.6 بلین ڈالر کی بچت کی۔ اس وقت بھی 10 آئی پی پیز ہیں جن کے ٹیرف ان سے بھی زیادہ ہیں۔ 10 سالوں میں 10 آئی پی پیز سابق حکومتوں کا کارنامہ ہے۔ یہ انتہائی مہنگے پلانٹس ہیں۔ فرنس آئل کے پلانٹ دنیا بھر میں 0.5 ملین ڈالر فی میگا واٹ ہیں جبکہ ہمارے 1 ملین پر جا رہے ہیں۔ دنیا جہان میں کوئلہ کے پلانٹس 0.45 ملین ڈالر فی میگا واٹ ہیں جبکہ ہمارا ساہیوال کا پلانٹ 1 ملین ڈالر فی میگا واٹ ہے۔ گیس کے پلانٹس 0.55 سے 0.65 ملین ڈالر فی میگا واٹ ہیں۔ ہمارے یہ بھی 1.1 سے 1.2 ملین ڈالر فی میگا واٹ ہے۔ اشد ضرورت ہے آئی پی پیز کے معاہدوں کو دوبارہ مربوط کرنا چاہئے۔ ہائیڈل و تھرکول سے اپنی بجلی بنائیں جو سستی ہے۔ کوئی ملک امپورٹڈ بجلی کے اوپر ترقی نہیں کر سکتا۔ اس وقت ہم فرنس آئل و گیس بجلی بنانے کے لئے امپورٹ کر رہے ہیں جبکہ اپنے کوئلے و ہائیڈل انرجی کو استعمال نہیں کر پا رہے۔ ہم اپنے وسائل کو صرف 12 فیصد استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کرنا چاہئے۔ دنیا ہماری مدد نہیں کرتی تب بھی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ چیف جسٹس نے ڈیم کے لئے قدم اٹھایا ہے۔ یقین سے کہتا ہوں کہ اگر پوری قوم ساتھ دے تو بھاشا ڈیم بن سکتا ہے۔ بھونجی، بھاشا اور واسکو یہ ایک کمپلیکس ہے جو 15 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہے۔ ہم دوست ملکوں سے مدد لے سکتے ہیں اور اس مسئلے کو جلدی حل کر سکتے ہیں۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ بھاشا ڈیم پر ٹوٹل کتنے اخراجات ہیں؟ انڈیا کا اعتراض ہے کہ وہ متنازعہ علاقہ ہے جس کی وجہ سے عالمی ادارے قرضہ دینے کو تیار نہیں، کیا یہ درست ہے؟
ذوالفقار علی خان نے کہا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ جب تک 12 بلین ڈالر نہیں ہوں گے، بھاشا ڈیم نہیں بن سکتا۔ یہ ڈیم مخالفین کا پروپیگنڈا ہے۔ آخری 4 سالوں میں 2 بلین ڈالر، ایک سال میں 500 بلین ڈالر چاہئیں۔ 3 سال پہلے ہم نے ایک سال میں گاڑیوں، موبائل فونز اور کتے بلیویں کو خود کے لئے 3.5 بلین ڈالر کی امپورٹ کی۔ اس کا 10 سالوں میں کیا فائدہ ہوا؟ اگر ہم ہر سال 5 بلین ڈالر کم امپورٹ کریں تو اس کو ڈیم پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی بڑی قربانی بھی نہیں ہو گی۔ امپورٹ کم اور ایکسپورٹ بڑھائیں تو معاملات بہتری کی طرف آنے لگیں گے۔ 1949ءمیں جب بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے موقع دیکھا اور بی آر بی نہر بنی، اس وقت کسی نے مدد نہیں کی تھی صرف پاکستان نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہمیں اس نہر کی ضرورت ہے۔ اس وقت عمران خان پر عوام کو اعتماد ہے۔ عوام کو اعتماد میں لے کر ڈیم بنانے کا کام کریں تو یہ مشکل نہیں۔ میں پُرامید ہوں کہ ہم یہ کر سکتے ہیں اور پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv