تازہ تر ین

نیب نے کلین چٹ دے کر سپریم کورٹ میں جھوٹ بولا‘میرے اثاثوں میں اضافہ نہیں کمی ہوئی. اسحاق ڈار

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے الزام عائد کیا ہے کہ پاناما جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں ان کے کیس میں جھوٹ بولا جبکہ نیب نے دھوکہ دہی کے ذریعے سپریم کورٹ کو ان کیخلاف ”آمدنی سے زیادہ اثاثہ کیس“ میں جاری 16 سالہ تحقیقات کے نتائج پیش نہیں کیے تاکہ سیاسی بنیادوں پر جھوٹا کیس دائر کیا جا سکے.جے آئی ٹی نے غلط انداز سے سپریم کورٹ میں رپورٹ دی کہ اس کے پاس اسحاق ڈار کے 20 سال کا ٹیکس ریکارڈ موجود نہیں. 30 جولائی 2017ئ کو پیشی کے موقع پر جے آئی ٹی کی جانب سے مجھے بتایا گیا کہ ایف بی آر نے میرے 30 جون 2003ئ سے 30 جون 2008ئ تک کا ٹیکس ریٹرنز کا ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا ہے. مقامی انگریزی اخبار کو دیئے گئے اپنے تفصیلی موقف میں انہوں نے کہا کہ میں نے پیشکش کی تھی میں ایف بی آر کے پاس جمع کرائے گئے ریٹرنز کی ذاتی نقل پیش کرنے کو تیار ہوں تاکہ تحقیقات میں معاونت کر سکوں، جس کے بعد میں نے جے آئی ٹی کو ایک کورنگ لیٹر کے ہمراہ یہ ریکارڈ تین جولائی 2017ئ کو فراہم کر دیا.اسی رات جے آئی ٹی کی جانب سے ریکارڈ وصول کیے جانے کی تصدیقی رسید بھی موصول ہوئی. اسحاق ڈار نے کہا ایف بی آر نے بھی 7 جولائی 2017ئ کو اپنے خطوط کے ذریعے جے آئی ٹی کو آگاہ کیا کہ میرا 30 جون 2003ئ سے پہلے کا ریکارڈ نیب سے مل گیا ہے. ایف بی آر نے فوری اقدامات کرتے ہوئے مذکورہ ریکارڈ نیب سے حاصل کیا اور 8 جولائی 2017ئ کو جے آئی ٹی میں جمع کرا دیا. اسحاق ڈار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں غلط انداز سے بتایا کہ اس کے پاس اسحاق ڈار کا 20 سال کا ٹیکس ریکارڈ نہیں ہے.اسحاق ڈار نے اصرار کیا کہ جے آئی ٹی کے اس جھوٹ کی وجہ سے ”آمدنی سے زیادہ اثاثے“ کے جھوٹے الزامات لگائے گئے. 30جون 2017ئ تک ختم ہونے والے مالی سال تک 34 سال کے دوران میں ایک بھی ٹیکس ریٹرن جمع کرانا نہیں بھولا. انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جانا غلط اور بے بنیاد ہے کہ میں نے متعدد درخواستوں اور مواقع ہونے کے باوجود آمدنی اور فنڈز کی تفصیلات پیش نہیں کیں اور یہ بھی کہ میری آمدنی اور اثاثوں میں ”زبردست“ اضافہ ہونے کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں.انہوں نے بتایا کہ نیب کی جانب سے گزشتہ تحقیقات جو 30 جون 2007ئ تک 22 سال پر محیط اور ٹیکس ریٹرنز کے حوالے سے تھی اور اس میں متعلقہ برسوں کے دوران اثاثوں اور واجبات کے حوالے سے ای سی پی کا بیان بھی شامل کیا گیا تھا، وہ سب معاملات بالکل درست ثابت ہوئے اور 30 جون 2007ئ تک میرے اثاثے میری آمدنی کے مطابق ثابت ہوئے، اس وقت میرے اثاثوں کی مالیت 89 کروڑ 90 لاکھ روپے تھی.اس کے بعد اثاثوں کی مالیت 30 جون 2008ئ کو کم ہو کر 88 کروڑ 20 لاکھ اور 2009ئ میں 83 کروڑ 20 لاکھ ہو گئی. جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے ابتدائیہ میں غلط بیانی کی کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں کی مالیت 30 جون 2010ئ تک 83 کروڑ 40 لاکھ تھی اور 30 جون 2011ئ کو 85 کروڑ 40 لاکھ تھی، کیونکہ اصل اعداد و شمار متعلقہ برسوں کے دوران بالترتیب 80 کروڑ 90 لاکھ اور 56 کروڑ 90 لاکھ روپے تھی، جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ 30 جون 2009ئ تک اثاثوں میں 83 کروڑ 20 لاکھ روپے سے بڑھ نہیں گئے بلکہ ان میں کمی واقع ہوئی.جہاں تک ٹیکس ریکارڈ پیش نہ کرنے کی بات ہے تو یہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہ غلط ہے. اسحاق ڈار نے کہا، ایف بی آر اور ای سی پی کے پاس موجود میرے 34 سال کے اثاثوں اور دیگر ریکارڈ میں کسی طرح کے نقائص اور غیر اعلانیہ چیز نہیں، میں نے کچھ نہیں چھپایا اور جیسا جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ ویسے میں نے کبھی ٹیکس سے بچنے (Tax Evasion) کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے مزید کہا، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں جو رقم بتائی گئی ہے وہ 30 جون 2005ئ کو جمع کرائے گئے ریٹرن میں بالکل درست پیش کی گئی اور ای سی پی کے پاس بھی یہ ریکارڈ موجود ہے، یہیں سے جے آئی ٹی نے یہ اعداد و شمار حاصل کیے.کریڈٹ بیلنس میں موجود رقم ظاہر کرتی ہے کہ میری غیر ملکی پیشہ ورانہ آمدنی پیسے نکالنے کے عمل کو کم ظاہر کرتی ہے. اسحاق ڈار نے اپنے تحریری موقف میں واضح کیا ہے کہ 30 جون 2008ئ تک ختم ہونے والے مالی سال تک میں پاکستان میں ٹیکس نان ریزیڈنٹ تھا. نیب کو اس کی سابقہ تحقیقات کے دوران میں نے بیرون ملک سے کمائی گئی دولت کے حوالے سے دستاویزی ثبوت پیش کیے تھے، یہ تحقیقات مناسب انداز سے بند کی گئیں تھیں اور معاملات بالکل درست قرار دیے گئے تھے.انہوں نے کہا کہ جب میں نے متحدہ عرب امارات سے 2008ئ میں استعفیٰ دیا تو اس وقت 4.97 ملین پا?نڈز کا قرضہ میرے بیٹے کو دیا گیا جو اس نے آہستہ آہستہ کرکے 2009ئ سے 2014ئ کے درمیان اتارا اور تمام لین دین مناسب بینکنگ چینل کے ذریعے ہوا. یہ تمام لین دین ایف بی آر کے ریٹرنز میں اور ای سی پی کے گوشواروں میں تفصیلاً بتایا گیا حالانکہ اس وقت ٹیکس نان ریزیڈنٹ کی حیثیت سے پاکستانیوں کو بیرون ممالک سے کمائی گئی دولت ظاہر نہ کرنے کا استثنیٰ حاصل تھا، یہ سب درست اور قانونی تھا.اسحاق ڈار نے کہا کہ جے آئی ٹی کو بات سمجھ نہیں آئی یا اس نے بدنیتی سے میرے اور براق ہولڈنگز کے درمیان قانونی تعلق پیش کیا جس میں مجھے پیشہ ورانہ انداز سے مشاہرہ ادا کیا گیا تھا. جے آئی ٹی نے غلط انداز سے یہ سمجھا کہ آمدنی مشاہرہ نہیں بلکہ میری سرمایہ کاری ہے. انہوں نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں نے یکم جولائی 2009ئ سے 30 جولائی 2016ئ کے درمیان 16 کروڑ 92 لاکھ 70 ہزار روپے کی رقم عطیہ کی تھی تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہجویری ٹرسٹ اور ہجویری فا?نڈیشن کو 9 کروڑ 12 لاکھ 10 ہزار روپے کی رقم عطیہ کی تھی، ان دونوں اداروں کے ذریعے فل ٹائم یتیم خانہ، غریب مریضوں کیلئے مفت ڈائلاسز، مستحق طلبہ کیلئے تعلیمی معاونت، ہزاروں ضرورتمندوں کیلئے ہر سال راشن کا انتظام، غریب لڑکیوں کیلئے شادی وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے.اسی طرح آئی ڈی پیز کے ریلیف فنڈ میں5کروڑکی رقم دی گئی جوکہ سوات میں کڈنی ہسپتال تعمیر کرنے پر خرچ ہوئے کیونکہ گردے کے امراض میں مبتلا کئی افراد کو علاج کیلئے اسلام آباد یا پھر پشاور جانا پڑتا تھا. اس کے علاوہ میں نے سیلاب متاثرین اور سینیٹ اور نیشنل اسمبلی ایمپلائز ویلفیئر فنڈز وغیرہ کیلئے 2 کروڑ روپے عطیہ کیے تھے. اسحاق ڈار نے کہا کہ میں نے یہ تمام عطیات اپنی جائز، قانونی اور اعلانیہ آمدنی سے کیے اور ان سب کا ذکر ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرنز اور ویلتھ ری کنسی لیشن اسٹیٹمنٹس میں بھی کیا گیا، میں نے اپنی مجموعی آمدنی میں ان عطیات کو شامل نہ کرنے کیلئے بھی استثنیٰ حاصل نہیں کیا.انہوں نے کہا جے آئی ٹی کی جانب سے اخذ کیے گئے نتائج خیالی پلا? اور قیاس آرائی پر مبنی ہیں اور یہ بھی جھوٹ ہے کہ میں نے 20 سال سے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے. نیب کی جانب سے سپریم کورٹ کو اپنے خلاف زیر التوا تحقیقات کے متعلق آگاہ کرنے میں ناکامی کے حوالے سے اسحاق ڈار نے کہا کہ نیب نے ماضی میں اکتوبر 1999ئ کی فوجی بغاوت کے بعد یکم فروری 2000ئ کو میرے خلاف ایک تفصیلی انوسٹی گیشن شروع کی تھی اور اس میں 22 سالہ ریکارڈ (یکم جولائی 1985ئ تا 30 جون 2007ئ ) میں میرے آمدنی اور اثاثوں کے حوالے سے تحقیقات کی گئیں.اس تحقیقات کے دوران میں نے مذکورہ 22 برسوں کے ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرنز، انکم ٹیکس کے گوشواروں اور دولت کے گوشواروں کا ریکارڈ فراہم کیا اور ساتھ ہی 30 جون 2003ئ سے 30 جون 2007ئ تک ختم ہونے والے مالی سال کے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں کی بھی نقل پیش کی، ساتھ ہی غیر ملکی آمدنی کے سرٹیفکیٹ جو اس وقت کے تھے جب میں نان ریزیڈنٹ پاکستانی تھا، غیر ملکی بینک کے ذریعے پاکستان بھیجی گئی رقوم کا ریکارڈ بھی پیش کیا اور اس عرصہ میں وہ وقت بھی شامل تھا جب میں نان ریزیڈنٹ پاکستانی تھا.اسحاق ڈار نے کہا کہ نیب نے اپنی تحقیقات، جو 15 جولائی 2016ئ کو ختم ہوئی، کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ میری آمدنی اور مذکورہ بالا عرصہ کے دوران حاصل ہونے والے اثاثے بالکل درست اور ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرنز اور ای سی پی کے گوشواروں کے عین مطابق ہیں اور اس طرح یہ انوسٹی گیشن بند کر دی گئی. انہوں نے کہا، 6 ستمبر 2016ئ کو نیب کی جانب سے انوسٹی گیشن بند کرنے کے خط میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے نیب نے میری آمدنی اور اثاثوں کے حوالے سے تفصیلی تحقیقات کی اور یجہ طے پایا کہ یہ اثاثے معلوم ذرائع آمدنی سے زیادہ نہیں.اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ مجھے نیب نے 6 ستمبر 2016ئ کو کلین چٹ دی لیکن بیورو نے سپریم کورٹ سے یہ سچ چھپایا. انہوں نے کہا کہ نیب یہ سچ اپنے ریفرنس میں سامنے لانے میں بھی ناکام رہا اور ساتھ ہی احتساب عدالت کو بھی مکمل حقائق اور گزشتہ 16 سالہ تحقیقات جس میں میرے 22 سال کے ریکارڈ کی تحقیقات کی گئیں، کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں۔ یہ وہی تحقیقات ہیں جن کے نتیجے میں نیب نے 6 ستمبر والا مذکورہ خط جاری کرکے کلین چٹ دی. اسحاق ڈار نے الزام عائد کیا کہ جے آئی ٹی اور نیب دونوں نے بدنیتی کے ساتھ جان بوجھ کر میرے خلاف جھوٹا، بے بنیاد اور من گھڑت ریفرنس دائر کیا ہے تاکہ عوام میں مجھے بدنام کیا جا سکے اور مجھے سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا سکے.



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv