تازہ تر ین

چین نے 50 فیصد ترقی آئی ٹی ٹیکنالوجی سے حاصل کی : سرتاج عزیز ، ایسا نظام ہونا چاہیے کہ جتنا کوئی ٹیکس دیتا ہے اتنی ہی اس کو عزت بھی ملے : ضیا شاہد ، ٹیکس اتنا کم ہونا چاہیے کہ لوگ خوشی سے ادا کریں : سلمان شاہ کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بڑے لوگوں میں اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ والدہ نے کیا کہا تھا اس پر عمل کرنا ہے۔ زیادہ تر دنیاوی حقیقتوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ بیگم کلثوم نواز کے بچے صرف والدہ کی خواہش پوری کرنے کے لئے کیوں گرفتار ہوں گے۔ وہ وہاں مزے سے بیٹھے رہیں گے۔ لندن سے بیورو چیف امداد حسین نے کہا کہ یہ لندن کا ایک بڑا جنازہ تھا اور بیگم کلثوم کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے چودھری نثار، برجیس طاہر، مقامی عمائدین کے علاوہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیو ںکے عہدیدار اور کارکن یہاں ایک بڑی تعداد جسے ہزاروں میں کہا جا سکتا ہے شریک ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے بیگم کلثوم نواز کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ جنازے کے موقع پر نعرے بازی نہیں ہوتی۔ نعرے کس وجہ سے لگے لیکن لوگوں نے نعرے لگائے اور کیا نعرے لگائے۔
امداد حسین نے کہا کہ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں یہاں جو علماءموجود تھے۔ انہوں نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا لیکن مسلم لیگی کارکن اپنے جذبات کی وجہ سے نعرے لگاتے رہے۔ بیگم کلثوم نواز ایک دلیر خاتون زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ مذہبی حلقوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ میت کے موقع پر ایسی نعرے بازی کرنا یا سیاسی رنگ دینا کوئی اچھی بات نہیں۔
ضیا شاہد نے کہ کہ یہ بات صحیح ہے کہ جو ہمارے معاشرتی آداب ان کے لحاظ سے تو جنازے کی تقریب جو ہے وہ بہت سیریس، سنجیدہ موقع ہوتا ہے نعرے بازی اچھی نہیں لگتی۔ لیکن کچھ لوگ جذبات میں آ گئے ہوں۔ ان کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ پاکستان میں بیگم صاحبہ کے جنازے میں شریک ہو رہے تھے وہ کوئی نعرے بازی نہ کریں، کیونکہ ہر تقریب کا اپنا ایک وقار ہوتا ہے جنازے میں نعرے بازی اور شور شرابا یا سیاسی طور پر واہ واہ کی گنجائش نہیں ہوتی، یہ ایک انتہائی قابل احترام خاتون کا جنازہ ہے۔ اگرچہ ان کا تعلق سیاست سے ہے لیکن سیاست سے کہیں زیادہ ان کا ایک علمی اور سماجی مقام ہے اس اعتبار پر مجھے امید ہے کہ کل جو لوگ شریک ہوں گے۔ اس قسم کی حرکت نہیں کریں۔ کسی قسم کے موقع کی مناسبت کے حساب سے جو ہماری معاشرتی قدروں کی اجازت نہیں دیتیں۔ اس لئے محترمہ کا جنازہ انتہائی وقار کے ساتھ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جو ہماری دینی طور پر جتنی آیا ہمیں یاد ہیں جتنی ہمیں دعائیں یاد ہیں، جتنے الفاظ ان موقعوں پر ادا کئے جاتے ہیں وہ ہم سب کو یاد ہے ان کا استعمال ہونا چاہئے۔ ان کا ورد ہونا چاہئے اس کو سیاسی جلسے بنانا اچھا نہیں لگتا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ عام طور پر اس قسم کی باتیں ہر نئی حکومت کے ساتھ سنائی دیتی ہیں لیکن پاکستان میں سابقہ تجربات رہے ہیں اس میں عام طور پر باتیں بہت کی جاتی ہیں کام نہیں ہوتا۔ اور عین وقت کسی نے نہ کسی بہانے سے کہ جی بڑی اچھی عمارت بنی ہوئی ہے غیر ملکی مہمانوں کے لئے ضروری ہے اس لئے ہر اس کو گول کر دیا جاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی کریڈیبلٹی جو ہے اس سے بڑی متاثر ہوتی اگر اس بار بھی اسی قسم کی باتیں کر ان کو ختم کر دیا جاتا لیکن جس طرح سے کہ عمران خان صاحب نے اپنی میٹنگ میں بھی یہ طے پایا ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس بھی اور گورنر ہاﺅسز بھی جو وہ یقینی طور پر اس کروفر، اس شاہانہ شان و شوکت کی بجائے ان کو ایک چھوٹے پیمانے پر ایک انتہائی ضرور مقام کے طور پر رکھا جائے گا کچھ بنا دیا جائے۔ لیکن ایک شخص کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کو پتہ ہے اس میں گھوڑوں کا اصطبل بھی ہے اس میں باقاعدہ چڑیا گھر بھی ہے اس میں باقاعدہ ڈیری فارم بھی ہے اس میں بچوں کا سکول بھی ہے اور اس میں ایک پہاڑی بھی ہے۔ جس کے اوپر شاندار قسم کی ایک تفریح گاہ ہے ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور خاص طور پر جناب آصف علی زرداری صاحب جب صدر تھے تو مجھے یاد ہے کہ میری ملاقات ان سے ہونا تھی انہوں نے کہا تھا کہ میں دوبئی جا رہا ہوں واپسی پر آپ نے مجھے ضرور ملنا ہے اور ہمارے دوست جو نواز کھوکھر صاحب ہیں ایک زمانے میں ڈپٹی سپیکر ہوتے تھے انہوں نے مجھ سے طے یہ کیا لیکن جس رات وہ واپس آئے ایک ہی رات ٹھہرے اور پھر ان کی صدارت بھی ختم ہو گئی۔ اس رات بھی بہت گملے ٹوٹے تھے کیونکہ آپ گورنر ہاﺅس جائیں تو جب آپ مال روڈ سے اس میں داخل ہوں تو بائیں طرف بہت بڑی ایک گراﺅنڈ ہے جس میں عام طور پر بڑے بڑے جلسے منعقد ہوتے ہیںاس گراﺅنڈ پر جو روشیں ہیں ساری ان میں جو بہت بڑے گملے تھے وہ ٹوٹ گئے تھے بے تحاشا کیونکہ ہمارے زرداری صاحب وہاں پولو کھیلی تھی۔ پولو ایک طرح کی گیم ہے جو گھوڑے پر بیٹھ کر بھاگتا ہے اور وہاں سے ہاکی ٹائپ کی چیز سے کھیلا جاتا ہے جہاں وہ لگتی جاتی ہو گی گملے ٹوٹتے جاتے ہوں گے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی کو حق حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایک آدمی گورنر ہے اب جی یہ کیا دلیل ہے کہ دیکھیں جی اس کے مہمان آتے ہیں اور مہمانوں کے لئے کافی جگہ ہونی چاہئے۔ جس ملک کے لوگوں کی پوزیشن یہ ہو کہ اب عمران خان صحیح سمت جا رہے ہیں کہ 50 لاکھ گھر کم از کم دیں گے جس میں لوگوں کو سر چھپانے کے لئے جگہ نہ ہو اور وہاں غیر ملکی مہمانوں کے لئے اتنا بڑا گورنر ہاﺅس ہو آپ کو پتہ ہے کہ کتنے مربعوں میں جگہ ہے کتنے ایکڑوں میں جگہ ہے ایک آدمی کے لئے۔ یہ انگریز وائسرائے کی صوبے میں ہوتا تھا تو اس کی ایک یاد گار ہوتی تھی اس کو ختم کرنا چاہئے۔ خبر کے مطابق وقتی طور پر چنبہ ہاﺅس میں گورنر کا دفتر بنا رہے ہیں ٹھیک ہے اس میں جگہ کافی ہے۔ ان عمارتوں کو ایسے مقاصد کے لئے تبدیل کرنا کہ خواتین یہاں جا سکیں دیکھ سکیں تفریح کر سکیں۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان صاحب نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ دورے کم کریں گے اب اگر سعودی عرب کا دورہ کسی وجہ سے ضروری ہے تو ضرور جائیں جانا بھی پڑتا ہے لیکن پمپ اینڈ شو نہیں ہونا چاہئے۔ ڈیڑھ سو بندوں کو ساتھ لے جانا ضروری نہیں ہے ملک اس طرح چلانا چاہئے کہ ایک پیسہ بھی غلط طور پر صرف نہ ہو۔ چائنا اور امریکہ کے دوروں پر ڈیڑھ ڈیڑھ سو بندہ ساتھ گیا ہے۔ نیویارک میں جہاں یو این او کا دفتر ہے وہاں عام ہوٹل اس کا کرایہ فی دن پڑتا ہے تو سمجھ لگ جاتی ہے اتنے پیسے ہم فضول ضائع کرتے ہیں۔ یہ غریب ملک ہے۔ اتنے قرضے ہم پر چڑھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز دوپہر کے کھانے پر پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان صاحب آئے ہوئے تھے۔ میں ان سے یہی بات کر رہا تھا کہ لوگوں کی توقعات بہت زیادہ ہیں آپ کی حکومت سے۔ لوگ یہ توقع رکھتے ہیں۔ نمبر1 کہ آپ پیسہ بھی ضائع نہیں کریں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ کفایت شعاری کی بات ہو رہی ہے۔ کیا آپ تجویز کرتے ہیں لوگوں میں دبی دبی شکایت شرو عہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت کو مہنگائی کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ ٹیکسوں کی بات ہوتی ہے تو لوگوں میں تشویش ہوتی ہے۔ کیا ٹیکسوں کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے؟
سابق وزیرخزانہ سلمان شاہ نے کہا ہے کہ چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلانے کا اصول اپنا لینا چاہئے۔ جتنا ریونیو اکٹھا کرتے ہیں اتنا ہی خرچ کریں ورنہ پھر قرضوں میں جکڑے جاتے ہیں اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے اخراجات پر کنٹرول کرنا چاہئے۔ پچھلے سال بجٹ میں حکومت نے 80 ہزار ارب روپے خرچ کئے۔ عام طور پر اس میں کرپشن کا کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اپنا پہلا فوکس اخراجات پر ہی رکھنا چاہئے۔ کفایت شعاری اچھی چیز ہے، ہر ادارے میں چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہو گا۔ پچھلی حکومت نے ”الیکشن بجٹ“ پیش کیا تھا۔ اس میں بہت سارا پیسہ ایم پی ایز و ایم این ایز کا ہو گا اس کو فتح کرنا چاہئے۔ ترقیاتی فنڈ کو ختم کرنا چاہئے کیونکہ اس میں بے ایمانی وکرپشن ہوتی ہے۔ پھر دیکھنا چاہئے کہ کتنے اخراجات بچے ہیں اس کے بعد ریونیو کی طرف آنا چاہئے۔ ٹیکس بڑھانے والی پالیسی بہت پرانی ہے اس سے معیشت میں انتشار پھیلتا ہے اور سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں۔ ریونیو میں ٹیکنالوجی لے کر آئیں، ٹیکس اتنا کم ہونا چاہئے کہ لوگ فخر کے ساتھ ادا کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ادارے مفلوج ہو چکے ہیں، لیڈر شپ کا فقدان، پرانا سٹرکچر، افسردہ طریقہ کار وغیرہ ان سب چیزوں کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ لوگوں کو اعتماد میں لیں، سمندر پار پاکستانیوںکو سہولتیں دیں پھر بات بنے گی۔ ایسا نظام بنانا چاہئے جس میں معیشت تیزی سے ترقی کرے اور عوام کی مشکلات حل ہوں۔
سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اخراجات آمدن سے زیادہ ہونے کے باعث خسارہ ہوتا ہے، پھر قرضے لینے پڑتے ہیں۔ غیر ترقیاتی اخراجات مجموعی طور پر ہماری پوری آمدنی کا 20 فیصد حصہ ہے۔ 10,5 فیصد کمی کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جو قرضے جمع ہو چکے ہیں ان کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ترقی کی رفتار زیادہ ہو گی تو آمدن بھی بڑھے گی۔ ہم نے 5 سال میں ٹیکس آمدنی کو 2 ہزار سے 4 ہزار ارب روپے کیا جس کی وجہ سے مجموعی خسارہ و مہنگائی کی شرح 2008 سے 2013ءتک کے 5 سال کی نسبت کم ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری افسران کے گھروں کو کم کرنے کی بات خوش آئند ہے، گروتھ ریٹ بڑھانا چاہئے اسے کم نہ ہونے دیں۔ زرعی شعبے میں پانی کے بہتر استعمال سے فصل کو دگنا کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں آئی ٹی و ٹیکنالوجی کا مسئلہ ہے، چین کی 50 فیصد گروتھ ٹیکنالوجی سے آ رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کو بہتر کر کے معاملات کو آگے بڑھانا چاہئے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ایسا نظام ہونا چاہئے جس میں ٹیکس دہندگان کی عزت ہو، جو جتنا زیادہ ٹیکس دیتا ہے اس کی اسی حساب سے عزت ہی ہونی چاہئے۔ پاکستان بننے سے پہلے صرف اس شخص کا ووٹ ہوتا ہے جس کی جائیداد اور آمدن ایک خاص مقدار تک ہوتی ہے۔ اب ہر بالغ کا ووٹ ہے۔ حق رائے دہی استعمال کرنے کا حق سب کو دیں لیکن پھر اس کو عزت ہی دیں۔ موجودہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے، ٹیکس دینے والے کا عزت و احترام ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک ایک پیسہ بچانا چاہئے اور ترجیحات کو فکس کرنا چاہئے۔ خانیوال یا ساہیوال کا ایک ڈی سی 42 کنال کے گھر میں دیتا ہے، کیا وہ ایک کنال کے گھر میں نہیں رہ سکتا؟ اگر 50 لاکھ گھر بنانے ہیں تو اس کے لئے زمین بھی یہیں سے لی جائے گی۔ ہپمیں اپنی سوچ، انداز بدلنے ہوں گے تب ہی عام آدمی تک فوائد کے اثرات پہنچا سکیں گے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv