تازہ تر ین

شہباز شریف وفاق پر پنجاب حکومت کا اربوں کھربوں کا بوجھ ڈال گئے : فیاض الحسن ،حکومت کفایت شعاری ضرور کرے مگر بجلی ، گیس ضروری اشیاءکے نرخ نہ بڑھائے : ضیا شاہد ، موجودہ حکومت کی معیشت پر گرفت نہیں ، ایڈ ہاک ازم پر منصوبہ بندی کر رہی ہے : شاہدصدیقی ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں نے بار بار کہا تھا کہ والدہ بیمار تھیں تو وہ جلسہ میں حصہ لینے کی بجائے ان کے پاس رہتیں۔ سیاستدان ہر بات میں سیاست تلاش کرتا ہے۔ جیسے کل سے شور مچا ہوا ہے کہ نوازشریف کی فیملی کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر گز کوئی درخواست دی۔ پیرول کی درخواست پر فیملی کا کوئی شخص دستخط کر سکتا ہے۔ عام طور پر حکومت اس سلسلے میں ہمدردی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معاملات کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہئے کہ انہوں نے کہا تھا تو حکومت نے پیرول پر رہائی دی۔ اگر کہا تھا تو کوئی فرق نہیں پڑتا نہیں کہا تھا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اجازت ملنی چاہئے تھی کورٹس کی طرف سے بھی اور حکومت کی طرف سے بھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اچھی بات ہے ایک ڈی سینسی کی روایت، اخلاقی طور پر جو ذمہ داری ہے ہم سب کی اس لئے ضروری تھا کہ نوازشریف فیملی کو پوری عزت اور احترام کے ساتھ خاتون محترم کی تجہیز و تکفین کے مراحل خوش اسلوبی اور پورے اطمینان سے ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس سلسلے میں اگر ضرورت ہو تو پیرول پر رہائی کے دنوں میں ضرورت ہو تو توسیع بھی ہونی چاہئے، اصل بنیاد یہ ہے کہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی تجہیز و تکفین کا فریضہ جو دینی اور مذہبی روایات کو اپنی تسلی کے مطابق خاندان کی تسلی کے مطابق شرعی اور اخلاقی روایات کے مطابق ان رسوم کو ادا کر سکیں۔ نوازشریف، مریم نواز اورکیپٹن صفدر پر میں نہیں سمجھتا کہ اس پیرول پر رہائی کے دوران کوئی پابندیاں ہوں گی۔ وہ اہل خانہ کو مل سکیں ہر نتھو فتو کو تو وہ شہر جا کر ان سے ملنے سے رہا البتہ یہ اہل خانہ کا ملنا فرض ہوتا ہے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ ہم نے ہر بات پر شک کرنا ہے اور ہر چیز میں کوئی نہ کوئی برائی نکالنی ہے۔ اور ہر بات میں کوئی نہ کوئی شکوہ شکایت تلاش کرنی ہے۔ خدارا اس بات کو جانے دیں امید ہے حکومت انہیں سہولتیں دے گی۔ ایک ہزار ارب کا منی بجٹ تیار ہو گیا ہے۔
منی بجٹ جمعہ والے دن پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بجٹ نوازشریف دور میں جہاں جہاں رعایت دی گئی اس کو ختم کر دیا جائے۔ کیا شیڈوبجٹ پی ٹی آئی کو سپورٹس کرے گا یا اسے نقصان کرے گا۔ اس سوال کے جواب میں ضیا شاہد نے کہا کہ یہ منی بجٹ بنا تھا تو اس وقت بھی شکایات تھیں کہ منی بجٹ نہیں بنانا چاہئے تھا، عارضی یا عبوری بجٹ بنانے کا ان کو حق حاصل نہیں تھا۔ جو نئی حکومت آئے وہ بنائے۔ لیکن نئی حکومت کو بھی موقع دیا جائے گا اور دیا جانا چاہئے کہ نئی حکومت ان وعدوں پر آئی تھی کہ ہم مہنگائی نہیں کریں گے اور ہم عوام کے لئے کسی قسم کے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔ اب اگر انہوں نے اسی طرح ہر دوسرے مسئلے کے بارے میں یہ کہنا یہ اس پر بجٹ میں ٹیکس بڑھا دیا جائے گا۔ یا فلاں چیز مہنگی کر دی جائے گی تو میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ گڈ گورننس یہی ہوتی ہے کہ عوام کو کم از کم مسائل کا شکار کیا جائے۔ موجودہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ کفایت شعاری بھی کرے اور نئے ٹیکسوں سے لوگوں کو نجات دلائے اور مختلف قسم کی اشیاءکی قیمتوں میں اور ان کی لاگت میں اضافہ نہ کرے۔ اس بجٹ سے لگے گا کہ حکومت کس حد تک سنجیدہ ہے۔ عوام کے مسائل میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو اس کی اجازت دینی چاہئے اگر اس طرح سے اضافہ ہوتا ہے ٹیکسوں میں اضافہ ہونا ہے، قیمتیں بھی بڑھنی ہیں تو نئی حکومت کا کیا فائدہ۔ چاہے حکومت کچھ بھی کرے، گیس، بجلی میں اضافہ نہ کرے سنا ہے کہ 400 بڑھ جائے گا۔ یہ 600 بڑھ جائے گا تو میں یہ پوچھتا ہوں۔ تحریک انصاف نے الیکشن میں اس بنیاد پر حصہ لیا تھا کہ عام آدمی کی زندگی کو پہلے سے آسان کرے گی اگر سب کچھ ہونا ہے تو ان سارے وعدوں کا کیا بنے گا۔
شاہد حسن صدیقی: الیکشن سے پہلے جتنے وعدے کئے گئے تھے، کہ کابینہ بڑی نہیں بنائیں گے، احراجات کو سمیٹا جائے گا اور کابینہ کا حجم زیادہ نہیںہو گا۔ گیس ہو یا بجلی ہو مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا تو اب جو کچھ خبریں نظر آ رہی ہیں اور جس دھڑا دھڑ انداز سے کابینہ بڑھ رہی ہے سنٹر میں اور صوبوں میں بھی اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا سمجھا جانا چاہئے کہ پی ٹی آئی سے اپنے مالی معاملات سنبھالے نہیں جا رہے یا واقعی کوئی اتنی مجبوری ہے کہ ان کو یہ سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔
ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی نے کہا یہ بالکل واضح طور پر نظر آ رہا ہے نمبر1 (معیشت کو جو درپیش چیلنجز ہیں موجودہ حکومت اسے اپنی گرفت میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور ایڈہاک ازم کی بنیاد پر بغیر کسی منصوبہ بندی کے فیصلہ کر رہی ہے۔ نمبر دو یہ ہے کہ میرے نقطہ نظر سے اب یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ جو کچھ پاکستان میں 2008ءسے 2018ءتک کے برسوں میں ہوا تھا پیپلزپارٹی اور نواز حکومت کے دور میں بڑی حد تک وہی پالیسیاں، وہی اقدامات وہی طاقتور طبقوں کو نوازنا، عوام پر بوجھ ڈالنا، قرضے لینا، اثاثے بیچنا، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا، یہ وہی چیزیں مجھے نظر آ رہی ہیں۔ یہ حکومت بھی اسی روش پر چل نکلی ہے، پھر جو تبدیلی نظر آئے گی مجھے جو نظر آ رہی ہے کہ پولیس میں کچھ بہتری آ جائے۔ ہسپتالوں میں کچھ بہتری آ جائے اور نمائشی اقدامات جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ یہ نمائشی اقدامات تو اس وقت ہوتے ہیں جب آپ بنیادی اقدامات اٹھاتے ہیں اگر یہ جو اقدامات کر رہے ہیں اور 25,29 ارب بچا بھی لیا تو کئی ہزار ارب جو کرپشن کا ہے جو ٹیکسوں کی چوری کا ہے، جو یہ سرمایہ کے فرار ہونے دے رہے ہیں۔ دو چیزیں تو میں ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ مجرمانہ غفلت ہے طاقتور طبقوں کو نوازنے کے لئے سپریم کورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لوگ کھلی مارکیٹ سے ڈالر خریدتے ہیں اپنے اکاﺅنٹ میں جمع کرتے ہیں اور اس کو باہر بھیج دیتے ہیں ایک سال میں سترہ ارب ڈالر گیا تھا۔ مجھے کوئی بتائے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا معاملہ اہم ہے۔ یا دو لائن کا قانون بنانا کہ اگر آپ نے مارکیٹ سے ڈالر خریدے ہیں اپنے اکاﺅنٹ میں جمع کرائے ہیں تو خدانخواستہ علاج معالجے کے لئے کسی کو ضرورت ہے تو بھیج دیں۔ اگر بچے کی تعلیم ہے تو وہ یونیورسٹی کو بھیج دیں۔ ان دو مقاصد کے علاوہ یہ جو 15 ارب ڈالر سے زیادہ جا رہا ہے، کوئی پراپرٹیاں لے رہا ہے کوئی شہرت لے رہا ہے کوئی اثاثے بنا رہا ہے یہ تو آپ اپنے پاﺅں پر آپ کلہاڑی مار رہے ہیں بہر حال پاکستانیوں کو کہانی سنا رہے ہیں کہ جی لوٹی ہوئی دولت باہر سے آئے گی میں بات ریکارڈ پر بتا دوں کہ 2019-20ءمیں تو آپ کو خاص رقم ملنے والی نہیں ہے لیکن یہ جو ایک ارب ڈالر سے زیادہ جا رہا ہے اس پر ان کی توجہ نہیں ہے یہ بات ناقابل فہم ہے یہ کیوں کر رہے ہیں۔ میں تو یہی کہوں گا کہ جو 2008ءسے 2018ءمیں ہو رہاتھا۔ سوائے کچھ نمائشی اقدامات کے کوئی تبدیلی مجھے نظر نہیں آئی۔جو کچھ ہو رہا ہے اس پر صرف یہ نہیں کہ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جا رہی ہے بلکہ معیشت کی شرح نمو کا ہدف انہوں نے کم کر دیا ہے۔ جس سے روزگار ملتے ہیں۔ مہنگائی کا ہدف بڑھا دیا گیا ہے ۔ گذشتہ سال برآمدات کا ہدف35 بلین ڈالر ز تھا ۔ اندازہ ہے کہ 2019 ءمیں یہ ہدف26 ارب ڈالر رکھنا چاہ رہے ہیں۔ یعنی ہر چیز میں پیچھے جا رہے ہیں سوائے مہنگائی کے، جب گروتھ نہیں ہوگی تو کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ اتنا ہی رہے گا۔ یہ صحیح کہتے ہیں کہ دس برسوں میں6 ہزار سے 29 ہزار ارب پاکستان کا قرضہ ہو گیا ، اسکا مطلب یہ کہ 23 ہزار ارب پاکستان کا قرضہ دس سال میں بڑھا تو ایک سال میں 2 ہزار300 ارب بڑھا۔ تو کیا میں ان سے پوچھوں کہ آپکے ایک سال میں 2 ہزار300 ارب سے زیادہ نہیں بڑھے گا؟ اب بھی اتنا ہی بڑھے گا یا اس سے زیادہ بڑھے گا۔ جب ترقیاتی اخراجات کم کر کے گروتھ ریٹ گرا دیاتو کیا کیا۔ کھیل یہ نظر آرہا ہے کہ زمین بیچیں اور کنسٹرکشن کمپنیز کیساتھ مل کر اوپر نیچے کچھ کام کریں ، پراجیکٹس بنائیں اور اسی پر روزگار کے حوالے سے بات کریں۔جوقوم کو کہہ رہے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں سے بڑا پیسہ آئے گا۔پوری ذمہ داری سے بتا دوں ، سمندر پار پاکستانی مہنگی شرح سود پر ہمارے بانڈز تو خرید لیں گے لیکن اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں کوئی بیرونی سرمایہ کاری آئے گی، جس پر عمران خان توقع باندھ کر بیٹھے ہیں تو یہ ایک دھوکہ ثابت ہوگا۔ یہ پیسے نہیں آئیں گے۔ وڈیرہ شاہی کلچر پرمبنی پالیسیاں انہی کو کہتے ہیں کہ اگر آپ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگانے کو تیار نہیں اور طاقتور طبقے کو مراعات دے دیں۔ انکی پارٹی میں پراپرٹی مافیاکے بڑے لوگ موجود ہیں۔ 15 کروڑ کی پراپرٹی 5 کروڑ میں رجسٹر ہوتی ہے اور دس کروڑ روپیہ ٹرانزیکشن میں وائٹ ہو جاتا ہے ۔ پراپرٹی کی رجسٹریشن مارکیٹ نرخوں سے کم پر نہیں ہوگی،یہ کرنے کی بجائے وہی عوام کو نچوڑناہے توبجلی ،پیٹرول اور گیس کے نرخ بڑھیں گے۔
ضیا شاہد نے اس صورتحال پر کہا کہ اسد عمرپرخطرے کی گھنٹی نہیں گھنٹا بج رہا ہے ،انہیں جواب دینا پڑے گا۔ اگر یہی تیاری ہے جو انہوں نے کی ہے تو اس تیاری سے اللہ بچائے بھائی۔ انکے پاس آخری آخری مراحل چل رہے ہیںکہ فوری طور پر صورتحال پر قابو پالیں لیکن جس نہج پر یہ جا رہے ہیں ، لگتا نہیں کہ یہ بہتری کی طرف لیجا سکیں۔ اسد عمر صاحب تو بہت ہی مایوس کر رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے ڈیم کے خلاف بیان پر کہا کہ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی میں ایک کمشنر بھار ت اور ایک پاکستان میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی کاونٹر پارٹ کی جانب سے یہ تجاویز چھپ چکی ہیں اور اعداد و شمار شائع ہو چکے ہیں کہ 22 ارب روپے انکے ڈسپوزل پر ہوتے ہیں اور بڑے دعوے کرتے ہیں کہ پاکستان میں بڑے ڈیموں کی مخالفت میں وہ یہ پیسے خرچ کر رہے ہیں اور لوگوں کو تقسیم کر رہے ہیں کہ وہ بڑے ڈیموں کی طرف نہ آئیں۔ اب ڈیموں کی بات چیف جسٹس اور عمران خان نے خود شروع کی ہے تو اتنے کھلے طور پر ، جیسا کہ خورشید شاہ اور مراد علی شاہ نے ڈٹ کر مخالفت کر دی ہے ۔ یہ لوگ کونسے ملک کے رہنے والے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ سندھ سے کونسا مشورہ کیا جائے ، کیا ڈیم بننے کی جگہ سندھ میں واقع ہے؟ وہ جگہ انتہائی شمال میں واقع ہے، نہ وہ سندھ کا علاقہ ہے کہ کہہ سکیں کہ ہماری زمین اس ڈیم کے نیچے دبے گی، وہ کس لیے کس بنیاد پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ہر بات پر جان بوجھ کر اعتراض برائے اعتراض کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بڑے ڈیموں کے خلاف بھارتی بجٹ پھر خورشید شاہ صاحب کو ملتا ہوگا، اور ان سارے لوگوں کو مراد علی شاہ کو بھی حصہ ملتا ہوگا۔ میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ جب ایک بات ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں جئے سندھ والوں سے شروع ہو کر پیپلزپارٹی کے وڈیروں تک اور اس کے علاوہ عبدالولی خان کے صاحبزادے اسفند یارولی سب سے زیادہ پیش پیش تھے کہ اگر کالا باغ ڈیم بنا تو میں بم سے اڑا دوں گا۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ اس ملک کے رہنے والے ہیں یا اس ملک سے باہر کے علاقوں میں رہتے ہیں؟ کون انکو پیسے دے رہا ہے ؟کون انکی مٹھی گرم کر رہا ہے؟ یہ کیا ہو رہا ہے اس ملک میں؟
یہ چیف جسٹس صاحب سے پوچھنا چاہئے ، میرا خیال ہے کہ میں جا کر ان سے گذارش کرتا ہوں کہ ملاقات کے لیے ٹائم دیں۔ ان سے پوچھنا چاہئے کہ اگر کسی ملک کا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بھی خود کو اس قسم کی تنقید سے نہیں بچا سکتا تو پھر اور کو ن بچا سکتا ہے ۔
ضیا شاہد نے پنجاب میں وزراءکی توسیع پر کہا کہ یہ ایسا حلف تھا کہ جو کافی دنوں میں اٹھا یا گیا، بہرحال اچھی بات ہے حلف اٹھا لیا گیا۔پنجاب کے لیے 52 وزارتوں پر پوچھنا چاہئے کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراطلاعات پنجاب سے ضیا شاہد نے پوچھا کہ ہم سب کو خوشی تھی کہ تحریک انصاف کو زبردست کامیابی ملی ہے ، سمجھا جا رہا تھا کہ حکومت مہنگائی پر قابو پائے گی اور اسد عمر نے اس حوالے سے بڑا کام کیا ہوا ہے اور کافی دیر سے اکانومی کے ایشو کے حل کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ لیکن آنیوالی ہر بات کہ کبھی کہا جاتا ہے 60 وزیر لیے جا رہے ہیں ، کبھی کہا جا رہا ہے400 روپے گیس مہنگی کی جارہی ہے۔ بطور وزیراطلاعات پنجاب سمجھائیں کہ ساری بات ترقی معکوذ کی طرف کیوں جا رہی ہے؟
صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحق چوہان نے کہا کہ وفاق میں 22 سے 24 وزیر ہیں اور صوبے میں چار وزراءکا اضافہ ہوا ہے جو ٹوٹل 126 وزیر پنجاب میں ہیں۔ ترقی معکوذ نہیں ہے، اتنی محنت ہم نے صورتحال کی بحالی کے لیے نہیں کی جتنی گذشتہ 10 سالوں میں اسے تباہ کرنے کے لیے کی گئی ۔ماضی کی دو حکومتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پاکستان کی معیثت کا ستیاناس اور بیڑا غرق کر دیا ہے۔ یہاں پر ہر چیز قرضوں کے شکنجے میں کر دی گئی ہے۔ پنجاب کے حوالے سے صورتحال ہے کہ تمام پاور پراجیکٹس ، ٹرانسپورٹ اور باقی ترقیاتی پراجیکٹس کو سفید ہاتھی بنا کے ایک بوجھ ہمارے سروں پر ڈال کر خادم اعلیٰ صاحب پتلی گلی سے نکل گئے ہیں۔ پنجاب حکومت کا وفاق پر اربوں کھربوں کا بوجھ شہباز شریف ڈال کر گئے ہیں۔ اس بوجھ میں چین ترکی اور دیگر ملکوں سے معاہدوں میں انہوں نے سوورن گارنٹی دی ہوئی ہے اور تمام معاہدوں میں ہم نیگٹیو ہیںاور ہماراخسارہ ہو رہا ہے۔ لیکن ہم انکو اربوں روپے ادا کرنے کے پابند ہیں۔ ہم ان منصوبوں کو ختم بھی نہیں کر سکتے کہ اگر ختم کریں توسوورن گارنٹی ہماری راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ان تمام معاملات کے باوجود کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ افواہ پھیلائی گئی کہ گیس ،بجلی اور کھاد کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیااور پھر پتا چلا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہماری معثیت کیساتھ جو مجرمانہ غفلت کی گئی اور اسکا بیڑہ غرق کیا گیااسکا سر سیدھا کرنے میں اسد عمر لگے ہوئے ہیں۔ ضیا شاہد کی جانب سے اہم حکومتی ریکارڈ جلانے کے حوالے سے سوال پر فیاض الحسن نے کہا کہ ایم ایم عالم روڈ پر آگ لگنے کے بعد میں دس منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچا ریسکیو ، پولیس ، انتظامیہ ، ڈی سی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمینٹ کے خرم شہزاد کو بلایا اور ڈیڑھ گھنٹا سر پر کھڑے ہو کر آگ بھجوائی اور انسانی جانوں کا ضیاع ہونے سے بچایا۔ اسکے بعد پتا چلا کہ یہ علی عمران کا پلازہ تھا ، کچھ حقائق تھے اور کچھ افواہیں تھیں۔ جرائم پیشہ لوگ جو گذشتہ دس سال حکومت کی چھتری تلے جرم کرتے رہے وہ کچھ زیادہ ہی تیز ہیں۔ پنجاب حکومت کو ابھی پندرہ دن نہیں ہوئے ، ہم سب چیزیں دیکھ رہے ہیںمکمل کام ہو رہا ہے۔ کابینہ میٹنگز میں انکی میٹرو اور اورنج ٹرین سمیت تمام ترقیاتی کاموں میں کھربوں کی کرپشن کا چیک اینڈ بیلنس اکٹھا کر رہے ہیں۔ تفصیلات سامنے آنے پر پاکستانی قوم کو سب پتا چل جائیگا۔صاف پانی کا کوئی ریکارڈ پلازہ میں نہیں تھا ، افواہ پھیلائی گئی۔دوبارہ سوال دہرائے جانے پر انہوں نے کہا کہ کوئی کی بات نہیں کر رہا ، کہہ رہا ہوں کہ ابھی کلیر نہیں ہوا اس پر تحقیقات ہو رہی ہیں ۔
ضیا شاہد نے سندھ اور بلوچستان کے پانی کے مسئلے کے بڑھنے پر کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ پانی کی ہر جگہ پر انتہائی قلت ہے۔ سندھ میں پہلے ہی کراچی کے پانی کا مسئلہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور بار بار کہا جا رہا ہے کہ وہاں تعمیراتی فرمیں اتنا پانی کھینچ رہی ہیں کہ پینے کے لیے پانی نہیں ہے، بے تحاشا کنسٹرکشن میں بے اندازہ پانی استعمال کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کا پانی سندھ کی طرف سے بند کر دیا گیا ہے ، یہ کربلا کا سماءہونیوالا ہے۔ آجکل ویسے بھی محرم کا زمانہ چل رہا ہے، اللہ معاف فرمائے اور سب کے معاملات حل کرے۔ معاف کیجئے گا یہ طریقہ نہیں ہے ،بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو مل بیٹھ کرپانی کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ نہ کہ جس کے پاس اختیار و اقتدار ہے وہ دھمکی دے دے کہ آج سے آپکا پانی بند ہے ۔یہ کیا ملک ہے؟ یہ کس طرح سے ہم ملک چلا رہے ہیں؟
پروگرام میں تجزیہ نگار میاں طارق نے بلوچستان کو سندھ کی جانب سے پانی کی فراہمی معطل کرنے کے حوالے سے کہا کہ بلوچستان کو گدو اور کوٹری بیراج سے پانی جاتا ہے، کوٹری بیراج پرویز مشرف کے دور میں ایکسپائر ہو چکا ہے ، اسمیں زیادہ پانی سے سیلابی کیفیت ہوگی اور بیراج ٹوٹنے کا خدشہ ہے ۔ اس سے پہلے رینی ، چیتر کینال کے نام سے دو نہریں نکالی گئی تھیں ، ایک نہر بن گئی ہے جو بلوچستان کو سیراب کرے گی، ایک نہر تھر کے علاقے کو اس صورت میں سیراب کرے گی جب سیلاب کا پانی بہت زیادہ ہوگا۔ ماضی میں بھی بلوچستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی جاتی رہی ہے۔ اس وقت اگر کہا جائے کہ سندھ میں پانی نہیں ہے تو بالکل غلط ہوگا۔ کیونلہ ٹیل کے علاقے میں بڑے بڑے زمینداروں اور وڈیروں کی زمینوں تک پانی جا رہا ہے اگر نہیں جا رہا تو غریب کسان کو پانی نہیں مل رہا۔ کراچی کے تعمیراتی علاقے میں نیا شہر تعمیر کیا جا رہا ہے جسے نہر بنا کر پانی دیا جا رہا ہے ۔ کے فور پراجیکٹ کا پچاس فیصد سے زیادہ پانی بھی اسی پراجیکٹ کی طرف جائے گا۔ کراچی میں عام آدمی کو پانی نہیں ملتا،نہ وہ ٹینکر خرید سکتا ہے ۔ وہ کڑوا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے،ورنہ وہ دور دراز علاقوں سے دیہاتوں کی طرح پانی لیکر آتا ہے۔کراچی میں مسئلہ پانی چوری اور انتظامی غفلت کا ہے۔جہاں سرکاری اور رینجر افسران کی سرپرستی میں واٹر مافیا کام کرتا ہے۔ سکیورٹی اداروں اور صوبائی انتظامیہ اور پولیس کے بڑے افسران کے نام سامنے آتے ہیں کہ انکے زیر سایہ ہائیڈریٹس چل رہے ہیں جن سے وہ لاکھوں روپیہ روزانہ کا کما رہے ہوتے ہیں۔ وہ پانی کراچی کے عوام کا پانی ہے جو چوری کر کے بڑی فیکٹریوں یا مہنگے داموں ان علاقوں کو بیچا جاتا ہے جہاں پانی کی کمی ہے ۔ سب سے اہم مسئلہ سندھ حکومت کو چھوٹے ڈیمز پر توجہ دینی چاہئے تھی ۔ کراچی کے اردگرد 46 ڈیمز کا پراجیکٹ تھا لیکن کراچی کی انتظامیہ نے لوگوں کی زمین لیکر 6 ڈیمز کی سائیٹس ہاوسنگ پراجیکٹس میں شامل کر دی گئی ہیں۔ کراچی میں اب مزید ایسے ڈیموں کی ضرورت ہے جہاں بارشوں کا پانی ذخیرہ کر کے شہر کو پانی فراہم کیا جائے ، اس پر صوبائی حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔دیامیر بھاشاڈیم پیپلزپارٹی کے بقول انکا براجیکٹ تھا ، اب پیپلز پارٹی اسی پر اعتراض کر رہی ہے تو یہ انکی منافقت یا سیاست کے کچھ نہیں ہے۔ سندھ میں لوگوں کو غلط پراپوگنڈا کے تحت بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ پانی رک جائے گا اور سندھ برباد ہوجائےگا۔ حقائق کو دیکھا جائے تو صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے ، منگلا اورتربیلا بننے کے بعد سندھ کی زرعی زمین 32.5 سے 48.21 ہوگئی جوبھاشا ڈیم کے بننے سے مزید بڑھ جائے گی اور پاکستان کی زراعت اور سندھ مضبوط ہوگا۔ خوشحالی آئیگی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv