تازہ تر ین

شہباز شریف کی بدنام زمانہ 56 کمپنیوں میں جعلی تعیناتیاں

لاہور(ملک مبارک سے) شہباز شریف کی مشہور زمانہ 56 کمپنیز کیس میں اہم انکشافات ،سابقہ حکمرانوں نے اپنی من پسند بیورکریسی سے مل کر کمپنی افسران پر بھاری بھرکم تنخواﺅں کی بارش کی وہاں پر سروسز رولز کی بھی دھجیاں بکھیرتے ہوئے جعلی تعیناتیاں کر ڈالیں۔ سابق سیکرٹری ہیلتھ نجم احمد شاہ کو 15سالہ الیکٹریکل تجربے کو نظر انداز کرتے ہوئے قائد اعظم سولر انرجی کا چیف ایگزیکٹو بنا دیا گیا، لاہور نالج پارک کمپنی میں چیف کمرشل آفیسر کےلئے ایم بی اے ڈگری ہولڈر کی بجائے بی اے پاس مہوش حیات کو لگا دیا گیا ایسے کئی افسران کو تعینات کیا گیا جو سروسز رولز پر پورا نہیں اترتے تھے ۔آیڈ یٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے بعد نیب نے تعیناتیوں میں بے ضابطگیوں بارے ریکارڈ اکٹھا کر لیا ہے بہت جلد اہم شخصیات کے گرد گھیرا تنگ ہونے والا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مشہور زمانہ 56متنازعہ کمپنیز میں بے ضابطگیوں بارے نیب اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو غیر معمولی تنخواہوں تک محدود کرکے الجھا دیا گیا تھا جس کے تحت سپریم کورٹ نے ان کمپنیوں کے افسروں کو اضافی تنخواہوں کی واپسی کا حکم دیا ہے جبکہ بھرتیوں میں جعل سازی اس سے بھی بڑا جرم ہے جس کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات میں سابق وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے چیف سیکرٹری دفتر تک کئی حکام پھنس سکتے ہیں ایڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر آگر تحقیقات کریں تو آپ پہ کرپشن کے نئے در وا ہونگے ان 56 کمپنیز میں سے ایک ہے لاہور نالج پارک کمپنی جس نے اخباری اشتہار کے ذریعے چیف کمرشل آفیسر کی بھرتی کے لئے 10 سالہ تجربے کے ساتھ ایم بی اے مارکیٹنگ ڈگری ہولڈرز سے درخواستیں طلب کیں لیکن اس پوسٹ پر چپکے سے بی اے تعلیم کی حامل مہوش رفیع کو 9 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کر دیا۔ تعلیم انڈر میٹرک اور سکیل 2 کے گھوڑوں کے اصطبل میں خدمت گار منظورعلی کو 2016ءمیں 65 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کمپنی کی اراضی کا سائٹ سپروائزر بھرتی کرلیا گیا۔ڈپٹی منیجر پروکیورمنٹ کی اسامی پر 8 سے 17 سالہ تجربے کے حامل ایم بی اے اور ایم فل امیدواروں کو نظر انداز کر کے ایف اے پاس مختار احمدجوئیہ کو ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ پر بھرتی کرلیا گیا جنرل منیجر (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے عہدے پر صرف بی سی ایس ڈگری ہولڈر نوجوان یاسر فرید ملک کو ماہانہ 5 لاکھ 50 ہزار روپے تنخواہ پر ”نواز“ دیا گیا جبکہ کمپنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کوئی شعبہ نہیں۔ الخیر یونیورسٹی آزاد جموں و کشمیر سے ایم اے کی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے غیر تصدیق شدہ اور ممکنہ طور پر جعلی ڈگری کے حامل محمد رشید کو 2 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ پر سی ای او کا کوآرڈی نیٹر مقرر کردیا گیا۔ ایک اور تقرری کے تحت میرٹ میں نمبر ون اعظم ظفر کو نظر انداز کرکے محمد اکرم چیمہ کو 2 لاکھ روپے ماہانہ پر لیگل ایڈوائزر بھرتی کیا گیا۔ کمپنی انتظامیہ نے ہیومن ری سورس منیجر کی اسامی پر فرید اقبال کو 7 لاکھ روپے ماہانہ ،1300 سی سی کار اور دیگر مراعات دے کر بھرتی کیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان کو متعلقہ شعبے کا کام ہی نہیں آتا جس کے باعث یہ کام کسی دوسرے شعبے کو سونپ دیا گیا لیکن موصوف تب تک تنخواہ کی مد میں 1 کروڑ 40 لاکھ روپے لے اڑے۔ اسی کمپنی میں ایڈیشنل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ شاہد زمان مہمند کو ایک سال کے لئے 8 لاکھ روپے ماہانہ پرکمپنی کا چیف آپریٹنگ آفیسر مقرر کیا گیا جس میں 2 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ ہاو¿س رینٹ بھی شامل تھا حالانکہ اکاو¿نٹنٹ جنرل پنجاب کے ریکارڈ کے مطابق وہ اس دوران حکومت پنجاب کی سرکاری کوٹھی میں مقیم رہے اس مد میں ان کو 40 لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی۔ سنگین نوعیت کی جعلسازی کی ایک اور مثال قائد اعظم سولر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی بھرتی پر کی گئی۔ کمپنی انتظامیہ نے 25 اپریل 2014ءکو اس عہدے کے لئے بجلی گھر لگانے اور چلانے کے 15 سالہ تجربے کے حامل الیکٹریکل انجینئرز سے درخواستیں طلب کیں لیکن اس اسامی پر اکتوبر 2013ءسے کام کررہے ڈی سی او فیصل آباد نجم احمد شاہ کو کمپنی کے بورڈ نے 15 فروری 2014ءکو 3 سال کے لئے 8 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کر لیا جنہوں نے زندگی میں کبھی کسی بجلی گھر پر کام نہیں کیا ،اس کیس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک انکوائری میں چشم کشا انکشاف ہوا کہ نجم احمد شاہ نے 2013ءسے اکتوبر 2014ءتک 86 ہزار 513 روپے ماہانہ کی سرکاری تنخواہ 5 ماہ تک وصول ہی نہیں کی اور کمپنی کے بورڈ کی منظوری کے بعد پچھلی تاریخوں سے 8 لاکھ ماہانہ پر بھرتی ظاہر کرکے 46 لاکھ روپے بطور بقایا جات وصول کرلئے۔ نجم احمد شاہ کی صوبائی سیکرٹری صحت تقرری سے قبل ان کو قائد اعظم سولر پاور کمپنی کے کھاتے سے تنخواہ کی مد میں 1 کروڑ 60 لاکھ روپے ادا کئے گئے نجم احمد شاہ کی بھرتی کے بعد اس اسامی پر بھرتی کی فائل سے درخواستیں جمع کرانے والوں کے نام اور پتے، انٹرویو کی جگہ،ان کی تعداد اور سلیکشن کمیٹی کے میٹنگ منٹس غائب کردئیے گئے۔ جعلی بھرتیوں کی کہانی پنجاب انرجی ہولڈنگ کمپنی تک بھی جاتی ہے جہاں منیجر ٹیکنیکل کی اسامی پر طارق رشید کو بھرتی کیا گیا ،ان کا پنجاب کا شہری ہونے کا ڈومیسائل تقرری کا خط جاری ہونے سے صرف ایک دن قبل راولپنڈی سے جاری کرایا گیا جبکہ ان کی تمام تعلیمی اسناد اور کام کے تمام تجربے کا تعلق کراچی سے ہے جس سے ان کا ڈومیسائل مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ اسی کمپنی میں چیف آپریٹنگ آفیسر(سی او او) کی اسامی پر ناروے سے غیرتصدیق شدہ ڈپلومہ کی بنیاد پر انٹرویو میں 15 اضافی نمبر دیکر احمد شہریار کو 3 نومبر 2016ءکو 5 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا، ان کی پروفائل میں تجربے کی کوئی دستاویز لف نہیں جبکہ جنوری 2018ءتک ان کے ڈپلومے کی تصدیق نہیں ہوسکی جس کی بنا پر آڈیٹر جنرل پاکستان نے اس کے جعلی ہونے کا قوی امکان ظاہر کیا ہے۔ پنجاب انرجی ہولڈنگ کمپنی میں ڈائریکٹر فنانس کے عہدے پر ضیاءالرحمٰن کو 1 لاکھ 80 ہزار روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا ان کو نوازنے کے لئے تجربے کے 10 اضافی نمبر دیدئیے گئے اور تجربہ کی حد صرف 5 ماہ کردی گئی قائد اعظم سولر پاور کمپنی میں افسروں نے 2013ءسے 2017ءکے دوران 3 کروڑ 36 لاکھ روپے غیر قانونی طور پر بونس کی مد میں وصول کر لئے جس میں سے 57 لاکھ روپے احد چیمہ کو ادا کئے گئے حالانکہ پنجاب انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ سٹینڈرڈ آرڈر کی شق 10 کے تحت بونس صرف ورکرز کو مل سکتا ہے۔ قائداعظم سولر کمپنی میں بدرالمنیر کو دسمبر 2013ءمیں فنانس منیجر کے عہدے پر 5 سالہ تجربے کی شرط نظر انداز کرکے 2 لاکھ 50 ہزر روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کر لیا گیا اور بعد میں 2017ءمیں چیف فنانشل آفیسر کے عہدے پر ترقی دے کر تنخواہ 4 لاکھ روپے ماہانہ کردی گئی حالانکہ وہ بنیادی شرط پر ہی پورا نہیں اترتے تھے ان کو مجموعی طور پر 1 کروڑ 59 لاکھ ادا کئے گئے۔ ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کمپنی جہاں حکام نے ماسٹر ڈگری کے حامل منیجر ٹیکنیکل کے عہدہ پر 3 سالہ ڈپلومہ ہولڈر محمد اقبال کو 2 لاکھ 80 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کیا، اس کمپنی میں بات یہاں نہیں رکتی بلکہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو دوبارہ بھرتی کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر 60 سال سے زائد عمر والے 3 سابق افسروں کو 1 لاکھ 50 ہزار سے 3 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بغیر ہی بھرتی کرلیا گیا اور 2018ءفروری تک ان کو 99 لاکھ روپے تنخواہ کی مد میں ادا کردئیے گئے۔ ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کے حکام نے الطاف حسین نامی شخص کو آپریشن کنسلٹنٹ کے طور پر کسی اشتہار کے بغیر ہی 1 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ پر نوکری دیدی جس کے تحت پیپرا رولز کی شدید خلاف ورزی ہوئی۔اس کمپنی میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے براہ راست نعیم سرفراز کو چیئرمین لگایا لیکن انہوں نے رول 4 کی خلاف ورزی کرکے ریگولر چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تقرری کے بجائے 2014ءسے 2018ءتک غیر قانونی طور پراس عہدے پر بھی قبضہ جمائے رکھا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کمپنیز کے بورڈ کو احد چیمہ ہیڈ کرتے تھے اور باقی بورڈ ممبر صرف حکم کی تابعداری کرتے تھے نیب نے جب ان کی تعیناتیوں بارے متعلقہ اداروں سے ریکارڈ طلب کیا تو متعلقہ اداروں کے افسران نے نیب کو بتایا کہ ان کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں اور نہ ہی ہمیں ان ریکارڈ دیا گیا ہے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کمپنیز کا آڈٹ بھی پہلی دفعہ ہوا ہے جب سپریم کورٹ نے ایکشن لیا تھا نیب نے تمام ریکارڈ مرتب کر لیا ہے اور جلد ہی کاروائی کا امکان ہے بیورکریسی اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کےلئے دائیں بائیں کرنا شروع کردیا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv