تازہ تر ین

جرنلزم میں 50 برس اس مسئلے کو فوکس کیا کہ بھارت سے اپنے حصے کا پانی لیں : ضیا شاہد ، امریکی وزیر خارجہ رسمی طور پر پاکستان آئے ، اصل کام بھارت میں معاہدے کرنا تھا : سردار آصف احمد علی کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں نے جرنلزم کے 50 برس اس ایک مسئلہ پر گزارے ہیں۔ میں کب سے اس پانی کے مسئلے کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھ رہا ہوں۔ 1971-72ءکی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو عبوری صدر بنے ابھی آئین نہیں بنا تھا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور میاں محمود علی قصوری صاحب کو وزیر قانون بنایا جو خورشید محمود قصوری کے والد تھے۔ یہ فین روڈ پر رہتے تھے تو ان کے کمرے میں ایک بہت بڑا پرانے دور کا ٹیپ ریکارڈر ہوتا تھا۔ اس پر میں نے سب سے پہلا انٹرویو ٹیپ کیا تھا۔ محمود علی قصوری کے گھر میں ہم نے ٹیپ کیا۔ میں ویکلی صحافت نکالتا تھا اس کی طرف سے میں انٹرو کیا۔ اس میں مسعود کھدر پوش تھے جنہوں نے انڈس بیشن ٹریٹی کی مخالفت کی تھی ایوب خان کے زمانے میں واحد بیورو کریٹ تھا جس نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ایوب خان صاحب آپ یہ غلط کام کر رہے ہیں کہ اپنے دریا کسی کو بیچنا سارے ملک کو فروخت کرنے کے برابر ہے اس پر ایوب خان نے شٹ اپ کال کی کہ ”مسعود تم بیٹھ جاﺅ“ یہ سیاست دانوں کی بات ہے بیورو کریٹس کو اس پر بات کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ وہ پھر کھڑے ہوئے اور کہا کہ جناب ہر پاکستانی کو بات کرنے کا حق ہے۔ اس دور میں میں نے مسعود کھدر پوش کو بلایا۔ محمود علی قصوری تھے، مظفر قادر ایڈووکیٹ تھے اور جو کہ سابق ڈپٹی کمشنر ساہیوال تھے اور ممتاز احمد خان پاک چائنا دوستی، یہ جو چائنا چوک ہے یہ ان کے گھر کی مناسبت سے چائنا چوک ہے بالکل سامنے ان کا گھر تھا وہاں جو چائنا چوک میں یادگار بنی ہے وہ ان کے گھر کے سامنے ہے تو دیکھیں میں وہ پہلا آدمی ہوں میری کوشش تھی کہ انڈس بیسن ٹریٹی جو ہو رہا ہے اس سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے اس وقت سے میں نے کوشش کر رکھی ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ پانی ہے۔ یہ 1972ءکی بات ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پنڈت نہرو کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا کہ ان کو پتہ نہیں پانی کیا ہوتا ہے یہ اس کے اصل الفاظ ہیں۔ اخبارات سے یہ لیا جا سکتا ہے کہ تیہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترسیں گے اور مستقبل میں برصغیر میں جو بڑی لڑائی ہو گی وہ پانی کے مسلے پر ہو گی۔ ان کی پالیسی ایسی تھی اور سب سے بڑی بات یہ تھی جو مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ”کچھ شہر دے لوگ بھی ظالم سن، کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی“ یہ جو مشکل ہوتی ہے۔ یہ صرف ہمارے ملک میں نہیں سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے زمانے میں بھی آپ کو پتہ ہے کہ جب بھی کوئی لڑائی دیکھیں نہ صرف پانی پر ہوئی بلکہ وہ اس بات پر ہوئی۔ عربوں میں مسدس حالی جسے کہتے ہیں اس کے الفاظ ہیں۔
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
تاریخ کی پرانی جنگیں، روم، قسطنطنیہ کی جنگیں، فارس کی جنگیں، یہ بری بڑی جنگیں پانی پر ہوئیں۔ میں نے بہت شروع سے محسوس کر لیا تھا کہ کالا باغ ڈیم نہ بنانے کے نقصانات ہوں نگے، چنانچہ میں پاکستان میں ایک مڈل کلاس کا ایک آدمی اس وسائل کے اندر رہتے ہوئے بھی میں نے کتنی کوشش کی کہ میں نے لاہور ہائی کورٹ میں کالا باغ ڈیم بنانے پر رٹ کی، میں 8 سال تک یہ کیس لڑتا رہا، میرے پیچھے کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی میں ایک شخص تھا ایک اخبار نویس۔ جو کہہ رہا تھا کہ اگر ہم نے پانی کا فیصلہ نہیں کریں گے اور کالا باغ نہیں بنائیں گے تو ہمارے مستقبل کس قدر تباہ کن ہو گا اور اس آٹھ برسوں میں ہر بار 4 صوبے جو تھے ان میں پنجاب جواب دے دیتا تھا باقی تین صوبے ریکارڈ کی بات کہہ رہا ہوں وہ جواب ہی نہیں دیتے تھے تو مجھے اس بنچ میں جس میں میرا کیس چل رہا تھا۔ اس میں آخری پیشی میں کہا کہ ضیا شاہد صاحب! ہم کیا کریں کہ یہ تو جواب ہی نہیں دیتے۔ اس وقت مشترکہ مفادات کونسل اس وقت موجود نہیں تھا۔ اس وقت نیا آئین بنا نہیں تھا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ تو کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہئے کہ صوبوں کو جواب دینے پر مجبور کیا جائے کہ جواب نہیں دے رہے تھے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے پھر ایک رٹ کی وہ رٹ سپریم کورٹ میں علی ظفر نے میری طرف سے دائر کی جناب میں اس پر بھی کئی سال تک کوشش کرتا رہا یہ جتنے مشکل موضوعات ہوتے ہیں یہ ہمارے چیف جسٹس صاحبان بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے افتخار چودھری صاحب جو ویسے جوڈیشری کے مامے اور چاچے بنے ہوئے تھے انہوں نے کئی سال تک میری رٹ سننے سے ہی انکار کر دیا اور وہ آف دی ریکارڈ یہ کہتے تھے کہ یہ متنازعہ ایشو ہے۔ اگر یہ متنازعہ ایشو ہی ہے تو صوبوں کے درمیان کس نے حل کرنا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے حل کرنا ہے۔ اگر کسی جگہ بیٹھیں گے تو مسئلہ حل کریں گے۔ اس کے بعد میں نے دوسری رٹ کی، دوسری رٹ میں بھی علی ظفر ہی میرے وکیل بنے تھے اس کی باری نہیں آئی۔ علی ظفر بڑے لائق وکیل ہیں اور ایس ایم ظفر کے صاحبزادے ہیں اور دو مرتبہ وہ منسٹر بھی رہے ہیں نگران حکومتوں میں۔ ٹیکنوکریٹ سمجھے جاتے ہیں۔ جو آخری مرتبہ یہ رد کی گئی ہے اس کا جواب اگر بتا دوں کہ کیوں کہ وہ بھی۔ اس کو سپریم کورٹ نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس کو سنا جائے۔ کس لئے؟ میں کہتا ہوں کہ یہ ڈیم بنایا جائے۔ میری دلیل یہ تھی کہ ایس ایم ظفر صاحب نے مجھے بلایا۔ میں ایف اے میں پڑھتا تھا جب وہ وزیر تھے ایوب خان کے زمانے میں وزیر قانون تھے۔ میں تو ان کا شکر گزار ہوں کہ وہ میری بات سن لیتے ہیں۔ انہوں نے کس بنیاد پر کیس کیا تھا۔ سنئے بنیاد کیا تھی۔ انہوں نے مجھے کہا ضیا! دیکھ میرے ہاتھ ایک خط آیا ہے میں نے کہا کس چیز کا خط آیا ہے۔ کہنے لگے کہ بھئی ایک خط ہے جو حکومت ہندوستان نے انٹرنیشنل کورٹ آف آرمی لبریشن ہے، پانی کی مصالحتی عدالت ہے اس میں ایک خط جمع کرایا ہے کہ پاکستان ایسے شور مچاتا رہتا ہے اس کو تو پانی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ایک خط پڑھ کر سنایا انگریزی میں تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر سال اتنا پانی سندھ سے بہہ کر سمندر جو بحیرہ عرب ہے اس میں آ کر شامل ہو جاتا ہے اگر پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اس کو روک لیتا۔ وہ اتنے لاکھ اتنے کروڑ کیوسک پانی جو وہ ضائع کر دیتا ہے اس کا مطلب اس کو پانی کی ضرورت نہیں ہے میں نے کہا کہ پھر کہنے لگے میں نے اس بنیاد پر رٹ ہونی چاہئے۔ میں نے کہا آپ بتائیں جو مجھ سے بھاگ دوڑ ہو سکتی ہے میں بھی اعداد و شمار جمع کرتا ہوں۔ اس پر وہ رٹ تیار کروائی تھی۔ ایس ایم ظفر جیسے شخص سے۔ پاکستان میں قانون کے سینئر ترین قانون دان ہیں۔ اس رٹ پر افتخار چودھری کہہ رہا ہے نہیں ہو سکتی۔ پھر میں اس اہم مسئلہ پر ہیڈ سلیمانکی گیا اور میں نے دریائے ستلج جو ہے اس کا بہاﺅ دیکھا وہ خشک پڑا ہے۔ اور انڈیا نے لکڑی کے شٹر لگا کر بند کیا ہوا ہے قطرہ پانی کا بھی اس طرف نہ آئے تو وہ جو نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان پانی کے قطرے قطرے کو ترسے گا۔ پھر میں نارووال جسڑ کے پل پر گیا۔ میں نے دریائے راوی کو پانی میں داخل ہوتے دیکھا اس میں پانی بالکل نہیں تھا۔ اس کے بعد میں نے پڑھنا شروع کیا۔ میں لاءکا گریجوایٹ نہیں لیکن میں نے بہت سے لاءگریجوایٹس سے زیادہ پڑھا ہوا ہے میں اتنا پڑا اتنی کتابیں پڑھیں، اتنی رپورٹیں پڑھیں انڈس بیسن ٹریٹی ہے میں نے اس میں سے دلائل تلاش کر لئے۔ اس کے دلائل ہیں۔ اس میں انڈیا نے دستخط کروا لئے کہ چناب جہلم اور سندھ تین دریا جب تک انڈین علاقے میں بہتے ہیں تو ان تینوں دریاﺅں سے انڈیا کو پینے کا پانی،گھریلو استعمال کا پانی، پن بجلی کا پانی، ماحولیات کا پانی، آبی حیات کا پانی لینے کا اس کو حق حاصل ہے۔ جب بھارت کہتا ہے کہ ان تین دریاﺅں سے ہمیں یہ چار قسم کے لینے کا حق ہے تو میں یہ نہیں پوچھ سکتے کہ جناب پھر ستلج اور راوی جو ہے جب ہمارے پاس آتا ہے تو خالی ہوتا اس میں سے ہمیں پانی کا پانی دیں، آبی حیات کا پانی، پن بجلی کا پانی، ماحولیات کا پانی دیں وہ پانی ہمیں کیوں نہیں ملتا۔ جب بھارت اپنے علاقوں میں پانی لینے کا حق بجانب ہے اور ابھی بھی لڑائی لڑنے آیا تھا وفد لے کر کہ ہم جناب ہر ایک ڈیم بنانا چاہتے ہیں ہم نے یہ اعتراض کیا کہ اس کی بلندی بہت زیادہ ہے۔ آپ بہت زیادہ پانی کھینچو گے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ 1960ءمیں جب انڈس واٹر بیشن معاہدہ ہوا تھا تو اس وقت قانون میں ماحولیات نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ دنیا میں ماحولیات کا پہلا قانون واٹر کنونشن 1970ءمیں اپنا معاہدے کے 10 سال بعد ماحولیات کا لفظ معرض وجود میں آیا۔ اب قانون یہ ہے کہ کوئی بھی کسی زیریں ملک کے پانی کو سو فیصد بند نہیں کر سکتا۔ بھارت بھی 70 کے قانون کے تحت ہمارا سارا پانی نہیں روک سکتا۔ میں اس پر بھی عدالت گیا ہوا ہوں۔ پانی کے مسئلے پر عمران خان اور آرمی چیف سے بھی بات کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ پانی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم نے آج جو کہا میں نے پہلے ہی اس پر رٹ کی ہوئی ہے کہ ستلج و راوی کا سارا پانی بھارت بند نہیں کر سکتا۔ جب دریائے ستلاج کو مکمل طور پر بند کیا گیا تو سلیمانکی سے لے کر بہاولپور اور پنجند تک ایک لاکھ 44 ہزار خاندان بے روزگار ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ میں جو میں نے رٹ دائر کی ہے اس پر چیف جسٹس نے سیکرٹری وزارت خارجہ، کمشنر انڈس واٹر بیسن، چیئرمین واپڈا، وزیر آبی وسائل اور فیڈریشن آف پاکستان کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراطلاعات فواد چودھری نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر اخبارات و اشتہارات کے حوالے سے کوئی قانون بنا تو صحافتی تنظیموں سے مشاورت کر کے بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت بہت فضول خرچی کرنی تھی جس پر ہم نے کہا کہ بالکل ٹھیک آپ فضول خرچی بند کریں لیکن ڈینگی، پولیس سمیت دیگر ایسی چیزیں ہیں جن کی مہم چلانا ضروری ہونا ہے وہاں تو کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکنز کے جانے کے بعد بھی عجب صورتحال ہے، وزیراعظم کہتے ہیں کہ کچھ تو کہا تھا جبکہ وزیرخارجہ کہتے ہیں کہ ”ڈومور“ کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ بھارت میں امریکیوں نے سنجیدہ معاہدات کیسے ہیں اور وہ پاکستان سے خوش نظر نہیں آتے۔ اب ہمیں چین و ایران سمیت دیگر ممالک سے بات کرنا ہو گی جس میں ایک ڈیڑھ مہینہ تو لگے گا۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کسی جھگڑے کے بغیر عزت و احترام کا کوئی درمیانی راستہ نکال سکے، دعا ہے ان کو کامیابی ملے۔ انہوں نے کہا اگر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سب اچھا ہی اچھا کہتے رہے اور اندر سے ایسا نہ ہو، دہلی میں جا کر وہ اچھا برائی میں بدل جائے تو پھر ہمارے وزیرخارجہ کو بھی اتنی نرمی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ وزیرخارجہ کے طور پر ان پر بڑی ذمہ داریاں ہیں، یک طرفہ طور پر کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔
سابق وزیرخارجہ آصف احمد علی نے کہا کہ پاک امریکہ وزارت خارجہ کی ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ پریس کانفرنس یا بیان نہیں آیا۔ جس کا مطلب تھا کہ اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اسی لئے دونوں ملکوں کو الگ الگ بیانات دینے پڑے۔ ہم نے اچھا بیان دیا لیکن انہوں نے اپنے بیان میں وہی ”ڈومور“ کا مطالبہ دہرا دیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی سے روایتی ملاقات کی ان کا اصل کام بھارت میں تھا۔ وہاں 2 بڑے اہم معاہدے ہوئے ہیں۔ کمیونیکیشن اور گراﺅنڈ ٹیکنالوجی کی سپلائی پر معاہدے ہوئے جو پاکستان کی سکیورٹی کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی وزیرخارجہ پومپیو نے دہلی میں اعلان کیا ہے کہ چین کو روکنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، بھارتی وزیرخارجہ نے بھی کھلم کھلا پاکستان پر الزام لگایا ہے۔ امریکہ اور بھارت اب اپنے اتحاد کو مضبوط کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے کلچر کے مطابق اچھی بات کی جبکہ امریکہ نے بدتمیزیاں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے وزیرخارجہ اب پاکستان آ رہے ہیں، ان پر واضح کرنا چاہئے کہ سب کچھ ہمارے نہیں ان کے خلاف ہو رہا ہے۔ چین کو روکنے اور محدود رکھنے کے لئے امریکہ و بھارت مشترکہ معاہدے کر رہا ہے۔ چین سے بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب بھارت اور امریکہ کے درمیان کمیونیکیشن بڑھے گا تو اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا، چین بڑی پاور رہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ہر سطح پر بھارت کا مقابلہ بہتر کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاک بھارت تعلقات خراب ہوئے تو یہ پورے ایشیا کے لئے خطرناک ہوا۔ وزیرخارجہ نے سخت زبان استعمال نہ کر کے اچھا کیا، امریکہ بے نقاب ہو گیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv