تازہ تر ین

یقین ہے کہ کپتان سفارش کے بجائے میرٹ پر وزارتیں دیگا : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شیخ رشید احمد کی وزارت داخلہ نہ ملنے پر ناراضی بارے ان سے پوچھنا چاہئے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ عارضی چیزیں۔ دوچار یہ رہیں گی۔ کون ناراض ہو گا کون راضی ہو گیا۔ وزیر داخلہ کی ایک ہی سیٹ ہے ظاہر ہے وزیراطلاعات کی بھی ایک ہی سیٹ ہے اور وزیر قانون کی بھی ایک ہی سیٹ ہے وزیرخارجہ بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ ایک ایک سیٹ پر دس دس بندوں کو تو نہیں اکاموڈیٹ کیا جا سکتا ہے جو پرانے سیانے لوگ جو ہوتے تھے انہوں نے اس کا فارمولا یہ نکال تھا کہ ہر وزیر نے نیچے ایک وزیر مملکت لگا دو تا کہ ایک لمبی لاٹ اس پر مطمئن ہو جاتی تھی، جیسے ہی ہمارے دوست پرویز رشید کی چھٹی نہ ہوتی تو مریم اورنگزیب وزیر مملکت برائے اطلاعات نہ بنتیں جو بعد میں وزیراطلاعات بنیں۔ میرے خیال میں عمران خان لوگوں کی پسند نا پسند پر چلے تو ہر شخص کی کوئی نہ کوئی پسند نا پسند ہو گی اسد عمر کا پہلے سے وزیرخزانہ بننا طے تھا۔ شاہ محمود قریشی کو اگر وزیراعلیٰ نہیں بنانا تھا تو انہیں وزیرخارجہ ہی بننا تھا اور جہاں تک شیخ رشید کا تعلق ہے وہ پہلے وزیر ریلوے رہ چکے تھے۔ خود خواجہ سعد رفیق کو للکارا مارا تھا۔ کہ عمران خان پانچوں سیٹیں ہار کر گھر چلے جائیں گے اب تو ان کی آواز نکل نہیں رہی۔ انہوں نے کہا تھا کہ میری وزارت کم از کم شیخ رشید کو نہ دینا۔ اس لحاظ سے تو شیخب صاحب کو خوش ہونا چاہئے کہ انہیں وزارت ملی جس کے لئے سعد رفیق کہہ رہے تھے کالے چور کو دے دینا شیخ رشید کو نہ دینا۔ ان کی کامیابی یہ ہونی چاہئے تھی کہ جہاں آ کر سعد رفیق نے اس کے بعد بھی ریلوے میں بہت گنجائش ہے کام کی۔ ریلوے کا تو بہت بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ یہ ٹھیک انہوں نے کچھ ٹرینیں چلا دی ہیں جہاں تک عام نظم و نسق کا تعلق ہے مثال کے طور پر جنوبی پنجاب کی مثال ہے ڈسٹرکٹ بہاولنگر میں جو جنکشن ہوتا تھا3 طرف ٹرین جاتی تھی نہ اب امروکہ یعنی ہیڈ سلمانکی کو ٹرین آتی ہے۔ ٹرین تو سیدھی نکل جاتی تھی بارڈر سے جب ہندوستان پاکستان نہیں بنے تھے تو یہاں سے انڈیا کو ٹرین جاتی تھی دوسری ٹرین فورٹ عباس کو جاتی تھی وہ ٹرین بھی بند ہے امروکہ کی ٹرین بھی بند ہے اب جس شہر میں ان کے 3 اطراف میں وہ جنکشن تھا، سمہ سٹہ، فورٹ عباس اور امروکہ۔ تین اطراف کی بجائے سمہ سٹہ سے ایک مریل سی ٹرین آتی ہے وہ بھی دن میں ایک دفعہ ایک زمانے میں صبح و شام دومرتبہ ہوتی تھی۔ باقی دو جگہ سے تو لوگوں نے ریلوے سٹیشن اکھاڑ دیئے ہیں ان کے اوپر سے گارڈر تک اٹھا کر گھروں کو لے گئے ہیں۔ اب بالکل ویران جگہ ہے نہ کوئی ان کی حفاظت ہے نہ کچھ نہیں رہا ان کا تو بچا ہی کچھ نہیں ہے اور پچھلے 15,14 برس سے وہ ریلوے ٹریک ہی بند ہے۔ میرے خیال میں ٹیم کے کپتان کی طرح سے عمران خاں جس طرح کرکٹ کے سلسلے میں دعوے کرتے رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اس زمانے کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے سینئر بھی تھے ان کے کزن بھی ماجد خان صاحب وہ یہی ان کے ایریا میں ہی رہتے تھے زمان پارک میں رہتے تھے۔ اور وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے لیکن عمر کے اعتبار سے جب ان کی گیم جب کمزور ہوئی تو باوجود اس کے کہ ایک زمانے میں یہ ہیرو سمجھتے تھے جب وہ کپتان ہوتے تھے تو عام کھلاڑی تھے ان کی ٹیم میں عمران خان جب خود کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے تو انہوں نے اپنے فرسٹ کسن ماجد خان کو جو کرکٹ ٹیم کے سینئر کھلاڑی تھے ان کو ٹیم سے الگ کر دیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ میں ذاتی طور پر ان کی بڑی عزت کرتا ہوں لیکن اب کی کرکٹ ٹیم میں جگہ نہیں بن رہی۔ میں یاد ہے انہوں نے جب پریس کانفرنس میں یہ کہا۔ اس پر بڑا شور مچا تھا۔ عمران خان صاحب کو وہی کرنا چاہئے جو بطور کپتان آف دی ٹیم وہ کرتے تھے۔ دیکھنا چاہئے کہ میرے پاس یہ کھلاڑی ہیں ان میں سے کون سا آدمی خوبصورت طریقے سے فٹ ہو سکتا ہے۔ فیورٹ ازم کی بجائے کارکردگی کو دیکھنا چاہئے۔ میں نے زندگی میں عمران خان صاحب کو کئی مواقع پر دیکھا بہت شدید مایوسی میں بھی دیکھا۔ جب میرے جیسا آدمی بھی جو باہر بیٹھا صرف کھیل دیکھنے والا تھا لیکن میں ان کو شدید مایوسی کے عالم میں دیکھا بلکہ بظاہر سمجھ آ رہا تھا کہ بھئی کہ اب مریض کے بچنے کی کوئی امید نظر آتی میں نے اس عالم میں عمران کو بہت حوصلے میں دیکھا۔ مجھے ان کا یہ جملہ اتنا پسند ہے کہ میں اسی میز پر بھی بہت مرتبہ اس وقت دہرایا جب دن بھر عمران خان کو صرف گالی پڑتی تھی اور اسی پاکستان میں اس کے سارے وزیر، سارے مشیر اس کے سارے وہ لوگ جو حکومت کو خوش کرنا چاہتے تھے جو نوازشریف صاحب اور شہباز شریف صاحب اور ان کے ساتھیوں کو جو زیادہ بڑا عہدہ لینا چاہتے تھے۔ آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بہت زیادہ معذرت کے ساتھ میں بہت عزت کرتا ہوں ان لوگوں کی۔ زیادہ بھونکنے بک بک والوں کو زیادہ مراعات ملیں۔ جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے تھے یہ وزیر بن جائیں گے۔ صرف ایک معیار تھا کہ دوبارہ یہ ٹکا کے انہوں نے گالی دی۔ مجھے اس وقت بڑی شرمساری محسوس ہوتی کہ اچھا اب پاکستان میں وزارت لینے کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ عمران خان کو زیادہ گالی دو۔ میں تو وہ شخص ہوں جس نے دونوں بھائیوں میں سے ایک بھائی سے ایک کو کہا اخبار میں کہا۔ اس پروگرام میں بھی کہا کہ یہ آپ ان کوداد دے رہے ہیں جو زیادہ گالی دے اس کو آپ وزیر بنا دیں۔ میں تو اس وقت کہتا تھا کہ ان ڈشکروں کو صبح اٹھتے تھے دس گیارہ بجے شروع ہو جاتے تھے بکواس کرنا اور شام تک مگر جب تک ٹاک شو شروع نہیں ہو جاتے تھے مسلسل کہتے رہتے تھے اور اس قدر غلیظ زبان استعمال کرتے تھے تو شرم آ جاتی تھی میں نے اس میز پر دانیال عزیز کے والد کو کہا تھا کہ میں نے کہا چودھری صاحب اپنے بیٹے کو سمجھائیں۔ میں نے اس کی پریس کانفرنس سنی ہے وہ صحافی کو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان تمہارا جوائی لگتا ہے۔اپنے بیٹے کو سمجھائیں اخبار نویسوں کی بھی عزت ہوتی ہے۔ اسی طرح اسمبلیوں میں احتجاج بھی ہوتا ہے نعرے بازی بھی ہوتی ہے لیکن سب کچھ تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ خورشید صاحب کو کسی عہدے کی ضرورت ہے۔ سپیکر اچھا عہدہ ہے اس طرح ان کے پچھلے اعمال نامے نہیں کھلیں گے مزید میں لکھ کر دے دو کہ خورشید شاہ کے خلاف بڑی شکایات نکلیں گی انہوں نے دبائی ہوئی تھیں یہ جعلی اپوزیشن لیڈر تھے یہ اندر سے ملے ہوئے اپوزیشن لیڈر تھے۔ اور اپنے فائدہ اٹھاتے تھے۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ خورشید شاہ نے اپنے کیریئر میٹر ریڈر سے شروع کیا۔ پھر چند برسوں میں انہوں نے اتنی ترقی کی کہ ایک سافٹ اپوزیشن کرتے ہیں یہ اصل اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں۔ آخری کوشش کر رہے ہیں تا کہ ان کے کیس نہ کھل سکیں۔
سکھر سے زمان باجوہ نے کہا کہ یہاں پر خورشید شاہ کی جو پوزیشن ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے یہاں پر ان کی صورتحال ہے پہلی دفعہ انہیں عوامی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس دفعہ انتخابات میں مزید بہت ہوشیار اور ذہین اپوزیشن لیڈر ہونے کی وجہ سے دوسروں کو منا بھی لیتے رہے ہیں دوسروں کو بھی سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ ان کیس کا جہاں تک معاملہ ہے تو مختلف ادوار میں یہ بنتے ہیں کہ ان کے اوپر نیب میں کیس چل رہے ہیں اور مختلف کرپشن کے کیس ہیں لیکن ہر دفعہ کسی نہ کسی حوالے سے دب جاتے ہیں لیکن اب ملک میں جو فضا چل رہی ہے اور سن رہے ہیں جھاڑو پھرے گا اور اس میں بڑے بڑے لپیٹ میں آئیں گے یہاں تک کہ لوگ یہ توقع کر رہے ہیں کہ جو میٹر ریڈر تھے اب ارب پتی اور کھرب پتی بن چکے ہیں وہ لپیٹ میں آنے بھی چاہئیں لوگ اس الیکشن میں مزاحمت کر رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ آپ میٹر ریڈر ہیں اور آپ خود ارب پتی بن چکے ہیں آپ نے نوکری تک نہیں دی ملازمت کوئی نہیں دی۔ خورشید شاہ کی اب وہ عوامی پذیرائی نہیں رہی جو پہلے ہوتی تھی کرپشن کے الزامات کے حوالے سے جو فائلیں نیب کے پاس موجود ہیں اور کب کھلتی ہیں اس چیز کا سب کو بے تابی سے انتظار ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وہ مقدمہ جس میں یوسف رضا گیلانی کو سزا ہو گئی۔ حج والا اس کا بھی مسئلہ یہ تھا کہ جو نمبر ٹو تھا وزارت اور حج میں وہ تو ان کا آدمی تھا ان کا رشتہ دار تھا جو انہوں نے رکھوایا تھا۔ جب یہ اپوزیشن میں بھی چلے گئے۔ ان کے پاس ایسے نسخے ہیں کہ انہوں نے خلاف بھی انکوائری دبوا لی۔ضیا شاہد نے بتایا کہ خبریں کو 25 سال ہو گئے۔ زمان باجوہ خبریں سے پہلے کے وہاں کے سینئر ترین جرنلسٹ ہیں اور بڑے شریف آدمی ہیں۔ اس مرتبہ خورشید شاہ کا الیکشن میں جانا مشکل ہو رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ مقدمہ جس میں یوسف رضا گیلانی کو سزا ہو گئی۔ حج والا مقدمہ۔ اس کا بھی مسئلہ یہ تھا کہ نمبر2 وزارت امور حج میں ان کا آدمی، رشتہ دار تھا جو انہوں نے وہاں رکھوایا تھا۔ اور جب یہ چلے گئے اور یوسف رضا کی وزارت بھی ختم ہو گئی اور نوازشریف دوبارہ وزیراعظم بن گئے ان کے پاس ایسے ایسے تگڑم اور نسخے ہیں کہ انہوں نے ان کے خلاف بھی انکوائری دبوا لی۔ حلف برداری کی تقریب کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ میں تقریب کے سب چہرے نہیں دیکھ سکا مگر میں خود اس لحاظ سے بڑا خوش ہوں، باوجود اس کہ کہ میں 7 مہینے جیل میں رہا اور بائیس دفعہ مقدمات کا سامنا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اعلیٰ سیاستدان اور اعلیٰ شہری تھے۔ انہی کے دور میں شاہی قلعے میں گرفتار رہنے کے باوجود میرٹ پر ان کی بڑی عزت کرتا ہوں۔ ان کے نواسے کا قومی اسمبلی میں ہونا، میرے لئے نئی قومی اسمبلی تھی۔ بلاول کے اسمبلی میں آنے سے بھٹو صاحب کا عکس ذہن میں آ گیا۔ جب وہ کچھ بھی نہیں تھے وزارت بھی چھوڑ آئے تھے۔ اس وقت بھی میں ان سے ملنے جاتا تھا تو فلیٹیز میں ٹھہرتے تھے۔ میں سگریٹ بھی نہیں پیتا تھا مگر میں ان کا لکڑی کے ڈبے سے سگار آگے کرتے تھے، جو بھی ااتا اسے اشارتاً سگار پیش کرتے تھے۔ میں ہمیشہ ایک سگار اٹھا کے لاتا تھا۔ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ اور رات کو اخبار میں نوکری کرتا تھا۔ ہم وہاں سگار سلگا کر لانا مشکل تھا کہ سگار کا ایک کش لگا کر بندہ گھوم جاتا ہے۔ ہم لوگوں کو دکھانے کے لئے کہ نوجوانوں کے بھٹو صاحب، جب تک رائیٹ، لیفٹ کے تنازعات نہیں شروع ہوئے تھے۔ وہ وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ہر نوجوان کا آئیڈیل تھا۔ آج جو بھی نام رکھ لیں، میں ان کے عمل کو زیادہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا کہ لو جی آج ان کا نام بلاول بھٹو زرداری ہوتا۔ زرداری بھی ساتھ ہو گا اور بھٹو بھی ساتھ ہو گا۔ ایک ہی رکھ لو یا لیکن اس کے باوجود بلاول ان کے نواستے تو ہیں۔ بہت بڑی ماں کے بیٹے ہیں۔ بے نظیر بھٹو سے بہت سی باتوں پر اختلاف کریں مگر بطور شخصیت ان کا نیشنل اور انٹرنیشنل سیاست میں جو مقام تھا اور جس طرح سے انہوں نے خود کو اپوزیشن میں بھی جب وہ سہالہ میں بند محصور باپ کی بیٹی تھی اور سندھ میں ضیاءالحق کے دور میں، جس نے ان کے باپ کو پھانسی کی سزا دی۔ ان کے دور میں وہ اپنے گھر پر نظر بند رہیں اس وقت بھی بے نظیر نے اپنے قد کو ہمیشہ جتنا بڑا رکھا ہے۔ محنت اور بڑی کوشش سے۔ بلاول اس کابیٹا ہے۔ اس لئے اس کا ایک مقام تو ہے۔ اسمبلیاں ایسی ہوتی ہیں، جماعتوں میں کراس کرنٹس چلتے رہتے ہیں۔ مخالفتیں بھی ہوتی ہیں۔ نہیں سمجھتا کہ اتحادی اپوزیشن کی راہ میں کوئی مشکل ہو گی۔ اور بے شک شوق سے عمران کو ٹف ٹائم دیں اور عمران ٹف ٹائم لے گا۔ عمران کو زیادہ جانتا ہوں۔ ناقابل یقین اعصاب کا آدمی ہے۔ مضبوط اعصاب۔ مجھے کوئی اور شخص ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کوئی مرد بے نظیر کے بعد عمران جتنے مضبوط اعصاب کا نظر نہیں آیا۔ نوازشریف سے شہباز شریف کی ملاقات کے دوران پریشان ماحول کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے شہباز شریف ادھر کنواں ادھر کھائی والا حساب، تلوار کی دھار ان کے دونوں طرف ہے وہ بہت مشکل پوزیشن میں ہیں۔ وہ اچھے مضبوط انسان ہیں۔ نہیں سمجھتا کہ اتنی جلد ہمت ہار جائیں گے۔ مگر تاریخ نے ان کو ان کا جو کردار اسائن کر دیا ہے وہ انتہائی مشکل ہے۔ ان سے نوازشریف اور ان کا خاندان، خاص طور پر ان کی بیٹی جو کروانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے ایکسٹریمسٹ جن میں سے زیادہ تر ہار گئے ہیں، خواجہ سعد رفیق بھی ہار گیا ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس کے بارے میں کل تک کہا جا رہا تھا کہ اگر یہ جیت گیا تو وہ اسے وزیر دفاع بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے وزیرخارجہ بنا دیا تھا۔ حالانکہ خارجہ امور کا اس سے اتنا تعلق بھی نہیں ہے۔ جتنا میرا کمپیوٹر سائنسز سے ہے کہ مجھ سے نمبر تبدیل کروانا ہو تو کسی دوسرے سے کہتا ہوں کہ یار یہ نمبر ولاں دوست کا ہے یہ میرے کنٹیکٹس میں ڈال دو۔ زیادہ مشکل کام نہیں ہے مگر کبھی سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ میں نہںی سمجھتا کہ شہباز شریف اس پوزیشن میں ہیں کہ بہت زیادہ ڈینٹ ڈال سکیں۔ اور جن خطرات کی طرف بار بار تجوہ دلوا رہے ہیں۔ اس پر میرا جواب ہو گا کہ معذرت میں سب کی عزت کرتا ہوں، یہ سب کوشش کریں گے مگر ایک محاورہ چلتا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔ مجھے نہ بلاول میں، بلاول کے لئے یہی ہے کہ پانچ سال میں خود کو اچھا پارلیمنٹرین بنائے۔ اگر اس نے اپنی صلاحیت نیک کو نیک، مقابلے کی پوزیشن میں حراب کر دی یا نقصان پہنچا دیا تو نقصان اس کا ہو گا۔ یہ اس کا پہلا دور ہے۔ پانچ سالوں میں وہ جتنا گروم کرے گا۔ اچھے پارلیمنٹیرین اچھے خطیب اوار اچھے تنقید کرنے والے کی حیثیت سے، وہ اپوزیشن میں ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا نام پہیلی ہو جانے کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ ایک ایک کر کے قومی اسمبلی میں امیدوار نامزد ہونا اور حلف ہونا، جسے کہتے ہیں بہت سارے مکھیاں مچھر چھوڑ گئے۔ اب وہ بحث تو نہیں رہی، شاہ محمود آنا چاہتا ہے، بحث تو نہیں رہی۔ یہ بحث بھی نہیں رہی کہ چودھری سرور کو استعفیٰ دلوا کر لانا ہے اس طرح سے لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد نے آج جس طرح سے وہاں حلف لے لیا ہے۔ اس کا مطلب وہ چیز بھی ختم ہو گئی۔ دیکھئے میں مایوس نہیں ہوں۔ ایک ایک کر کے راستے کے پتھر ہٹتے جا رہے ہیں اور ہموار راستہ دکھائی دینے لگا ہے۔ ایک ہفتے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کچھ ہوا تھا۔ جس وقت عارف علوی کا نام صدر کے طور پر آ گیا۔ میں کہہ رہا تھا کہ ان کو سندھ کو ایک بہت اعلیٰ عہدہ دینا پڑے گا۔ اگر عارف علوی کو صدر بنا دیں اور وزیراعظم پنجاب، میانوالی سے تعلق خیبرپختونخوا کا اور کراچی سے صدر یہ خوبصورت مجموعہ بنایا ہے۔ مجھے عمران خان کہیں پریشان حال لرزتا کانپتا دکھائی نہیں دیتا۔ عملی شعور کے ساتھ عمران خان بہترین چناﺅ کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv