تازہ تر ین

300 کنال کے گھر میں رہنے والا عمران کیسے سادہ زندگی گزارے گا : قمر زمان کائرہ ، پروٹوکول NO ، سکیورٹی لازم ہے ، سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا : ضیا شاہد ، پانی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ، کالا باغ ڈیم پر مفاہمت ضروری : علی ظفر ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ خوشی ہوئی کہ ایک آدمی کو احساس تو ہے کہ اگر ہم وعدے پورے نہ کر سکے تو ہمارا حشر بھی جانے والے لوگوں جیسا ہو گا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ برطانیہ کی طرح میں بھی مہینے میں ایک دفعہ عوام کے سوالوں کا جواب دیا کروں گا۔ یہ بھی بڑی اچھی بات ہے۔ ایک زمانے میں مجھے یاد ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے ایک دفعہ شروع کیا تھا لیکن وہ جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ ضروری ہے کہ عمران خان جو بھی وعدہ کریں اس کو پورا کریں کیونکہ ایک مرتبہ یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ ایک آدھ مرتبہ یہ کام کیا اور اس کے بعد چھوڑ دیا تو اس سے اور پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ امید ہے کہ وہ وعدے پر عمل ضرور کریں گے۔ جو میں تھوڑا بہت انہیں جانتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسے آدمی ہیں نہیں کہ وہ کسی کام کا وعدہ کر دیں تو کوشش ان کی ضرور ہوتی ہے کہ وہ اس پر پورا اُتریں۔ پروٹوکول نہ لینا اچھی بات ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو حالات دہشتگردی کے حوالے سے ہیں اس میں میرا خیال ہے احتیاط ان معنوں میں کہ جو بھی ضروری اور اہم سیٹوں پر ہیں ان کی سکیورٹی ضرور ہونی چاہئے۔ مجھے خود بھی اتفاق ہوا ہے مجھے نہیں پتا کہ 300 آدمی تھے لیکن بڑی تنگ سی سڑک ہے۔ عمران خان صاحب کو بڑی سختی کے ساتھ اس بات کو الگ الگ معاملات کے اعتبار سے سوچنا چاہئے کہ سکیورٹی ضرور ہو لیکن پروٹوکول نہ لیا جائے ان دو میں برا فرق ہے۔ وی آئی پی موومنٹس کے بڑے مسائل ہیں ہمارے ملک کے اندر سکیورٹی رسک چل رہا ہے۔ عمران خان کی اہلیہ کی بیٹی نے آج تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ بچوں کا قدرتی طور پر والدین کا طرز عمل جس طرف ہوتا ہے چھوٹے بھی بالعموم اسی طرف ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں اختلاف ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے پارٹیوں میں شمولیت میں تو کوئی حرج نہیں البتہ بڑی سختی کے ساتھ یوں لائن لگانی چاہئے کہ پارٹی میں شامل ہونا ہر شخص کا حق ہے۔ لیکن کیا اس شمولیت کی بنیاد پر کیا ان کو خصوصی مراعات مل رہی ہیں ان کو کوئی عہدے مل رہے ہیں۔ ان کو ایم بی اے، ایم این اے بنانا مقصود ہے ان کو سرکاری ملازمتیں دینا مقصود ہے ان کو جعلی کمپنیاں بنا کر ٹھیکے دینا مقصود ہے۔ ان چیزوں کو سختی سے اس کو کچلنا چاہئے۔ اور اس پاﺅں کو نیچے مسلنا چاہئے اور جو لوگوں کے ساتھ شامل ہوتا ہے یہ ایک فرد کی آزادی ہے میرا خیال ہے اس کی اجازت ہونی چاہئے۔ میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے کہ ووٹ بند مٹھی کی طرح سے ہوتا ہے کوئی پتہ نہیں عین وقت کھول دے یا بند کر لے۔ لیکن میرے خیال میں اس وقت جو ابھار ہے جو ایک پریشر ہے جس طرف جا رہا ہے میرا خیال ہے کہ ایک مرتبہ موقع ضرور ملے گا پی ٹی آئی کو اور ملنا چاہئے البتہ اگر انہوں نے جتنے وعدے کئے جتنے لوگوں کے ساتھ عہد و پیمان کئے اگر وہ اس پر پورے نہیں اترتے تو جس تیزی کے ساتھ لوگ ان کی طرف جاتے ہیں بالعموم اس تیزی کے ساتھ ان کی مخالفت بھی ہوئی اس لئے بار بار کہہ رہا ہوں کہ عمران خان صاحب اچھی باتیں کر رہے ہیں لیکن برائے کرم وہ یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھیں کہ وزیراعظم ہاﺅس میں یونیورسٹی بنائیں یا عوام کی ویلفیئر کا کوئی ادارہ بنائیں بہت جگہ ہے وہاں۔ ہمارے محترم آصف علی زرداری صاحب نے وہاں اپنے گھوڑے بھی رکھے ہوئے تھے وہاں جس کو چوغان کہتے ہیں جس کو پولو کی بھی جگہ ہے اگر اتنی جگہ اور بھی کنسٹرکشن کر کے کوئی مفید ادارہ بنا دیا جائے تو یہ اچھی بات ہو گی اس کے ساتھ ساتھ میری تجویز ہو گی کہ ایوان صدر بھی جو ہے وہ معاف کیجئے گا میں تو نہیں سمجھتا کہ کسی ملک کے صدر کے لئے اتنی بڑی جگہ کی ضرورت ہے اوراگر اس کو غیر ملکی مہمانوں کے لئے مخصوص رکھنا ہے تو دوسری بات ہے لیکن عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ ایسا ہوتا نہیں اب تو پھنے خانی کا یہ عالم ہے کہ بہت مختلف قسم کے قومی دنوں کے موقع پر بھی جو اتنی بڑی جگہ ہے پریذیڈنٹ ہاﺅس کے مختلف دستے بھی اس کے اندر ہی گردش کرتے ہیں یہ مذاق ہے دنیا میں میں نے جتنے بڑے بڑے لیڈر دیکھے وہ اس وجہ سے بڑے نہیں تھے کہ ان کی رہائش گاہیں بڑی تھیں وہاس لئے بڑے تھے کہ ان کا نام، ان کے کارنامے، ان کے چاہنے والے بڑے تھے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ آنے والے لوگ جو حکومت میں آئیں وہ بھی اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ بھی اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں یہ جس انداز میں، جس طریقے سے میں دیکھ رہا تھا ہمارے پرانے دوست اور مہربان قابل احترام جناب محمد نوازشریف صاحب میں ان پر روزانہ اقساط بھی لکھ رہا ہوں اب تو تھوڑی سی رہ گئی ہے کتاب آپ کو یقین دلاﺅں کہ میں نے دو چار مرتبہ ان کی فوٹیج دیکھی ہیں اور جتنا بڑا ان کا جاتی امرا میں گھر ہے آپ کو حیرت ہو گی بھائی ایسی کون سی بات ہے یہ غریب ملک ہے اگر آپ کو اللہ نے بڑے پیسے بھی دے دیئے ہیں۔ وہ الگ بحث ہے وہ کیسے آئے اور کیسے گئے۔ آپ کے پاس اصل میں جتنے تھے اور ادھر اُدھر سے جمع ہوئے۔
کائرہ صاحب! ہر حکومت کے آنے پر شروع شروع میں بڑی فلاوری باتیں ہوتی ہیں لیکن عام طور پر پھر وہ چلنے نہیں پاتیں۔ میرے عمران خان سے اچھے تعلقات ہیں میں ان سے امید بھی بڑی رکھتا ہوں لیکن سسٹم بدلنا اتنا مشکل کام ہے کہ اپنے آپ کو ڈی کلاس کرنے والی بات ہوتی ہے۔ جب سے ہم نے عملی زندگی میں قدم رکھا ہے میں نے کم از کم یہ دیکھا ہے کہ سسٹم بدلنے کی کوشش بھی میرے محترم بھائی کم از کم آج تک تو کامیاب نہیں ہوئی۔
قمرالزماں کائرہ نے کہا کہ صرف لیڈر معاشروں کو تبدیل نہیں کیا کرتے۔ سماج بدلتا ہے سب کچھ لیڈر اس عمل کو تیز اور آہستہ کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے ٹرینڈ تبدیل کرنے کے لئے عوام کے رویے تبدیل ہونے ضروری ہیں۔ اگر عوام ایسے رویوں کو قبول نہیں کریں گے تو حکمرانوں کے رویے بدل جائیں گے ورنہ یہ نعرے بڑے پرکشش ہوتے ہیں۔ لوگوں کو اچھے بھی لگتے ہیں۔ کیا کوئی سوزوکی میں بیٹھنے والا بندہ آپ کے ملک میں الیکشن لڑ سکتا ہے کیا کوئی سفید پوش تھوڑے پیسے والا الیکشن پروسس سے آ سکتا ہے کیا کوئی پانچ مرلے کے مکان میں رہنے والا اس الیکشن کو افورڈ کر سکتا ہے کیا لوگ ایسے شخص کو بھلے وہ کتنا پڑھا لکھا کردار ہو اس کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔ یہ معاشرہ دولت مندوں، بڑی گاڑیوں کو پسند کرتا ہے بلکہ جس کے دفاتر بہت آباد ہوں، کھانے چل رہے۔ بفے چل رہے ہوں کہاں سے پیسے آئے ہوں لوگ اس سے پوچھتے نہیں ہیں بلکہ اس کو پسند کرتے ہیں تو ایسے معاشرے کے اندر یہ کہنا کہ یہ بڑے گھروں کو اور بڑی گاڑیوں کو چھوڑ دینے سے کوئی بہتری آ جائے میرا نہیں خیال۔
ضیا شاہد نے کہا آپ نے بہت صحیح بات کی ہے میں احتیاطاً چلتے چلتے یہ بات سناتا جاﺅں کہ کائرہ صاحب میری آپ سے بڑی خاص طور پر بڑی محبت پیار ہے آپ سے بات چیت کرتا رہا ہوں اور بڑی خوشی بھی ہوتی ہے میں آپ کو ایک واقعہ بتا رہا ہوں کہ ایک سابق حکمران سے میں ملنے گیا اور میرے پاس نئی گاڑی تھی لیکن ٹیوٹا چھوٹی گاڑی جو سب سے چھوٹی گاڑی ہوتی ہے وہی تھی تو مجھے ان کے گارڈ کے سربراہ تھے وہ میرے پاس آئے اور میں حیران رہ گیا کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ”بادشاہوں کا نام لے کر انہوں نے کہا کہ جناب“ اناں نال یاری لانی اہہ تے فیر ضیا صاحب وڈی گڈی لوو“
قمرالزمان کائرہ نے کہا ضیا صاحب! آپ ہمیشہ بڑی شفقت کرتے ہیں آپ کا بہت شکریہ۔ صرف لیڈر معاشروں کو تبدیل نہیں کیا کرتے۔ سماج کے حالات معاشرے کو تبدیل کرتے ہیں۔ لیڈر اس عمل کو تیز اور آہستہ کرتے ہیں۔ اچھے لیڈر ہوں تو عمل تیز ہو جاتا ہے کمزور لیڈر ہوں تو عمل آہستہ ہو جاتا ہے۔ عمران خان خود 400 یا 300 کنال کے گھر میں رہنے والا بندہ کہتا ہے کہ میں سادہ مزاج ہوں، چھوٹے گھر میں رہوں گا، چھوٹے گھر میں گزارہ ہی نہیں ہو گا۔ عادت نہیں ہے۔ اگر انہوں نے رہنا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بہت اچھی بات ہے کہ وہ چھوٹے گھر میں رہیں لیکن جو کام کرنے والے ہیں مثال کے طور پر محمد خان جونیجو نے ایک مرتبہ کوشش کی کہ سب سرکاری افسران کو ہزار سی سی چھوٹی گاڑیوں پر لے کر آئیں گے۔ لے آئے، وہ جو بڑی گاڑیاں تھیں وہ بھی گئیں، چھوٹی گاڑیاں بھی آ گئیں اور محمد خان جونیجو صاحب نے دیکھا کہ اور بڑی گاڑیاں آ گئیں اور جن جنریلوں کو انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہزار سی سی میں بیٹھیں گے وہ بی ایم ڈبلیو اور سب مرسڈیز پر آ گئے۔ اس ملک کے لوگوں کا احتساب، چیف جسٹس جتنا مرضی زور لگا لیں، جو مرضی کر لیں، آسمان زمان ایک کر دیں۔ اکیلے چیف جسٹس روک سکتا نہ ضیا شاہد روک سکتا ہے نہ عمران خان روک سکتا ہے۔ اس لئے سوسائٹی روک سکتی ہے۔ یہ بہت بڑا ٹاسک ہے۔ یہ ریاست ایک ٹائی ٹینک شپ ہے جو ٹکرانے کو جا رہا ہے اور پہلے ہی آدھا رہ چکا ہے، آدھا پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے اور کسی بڑے پہاڑ کی طرف ٹکرانے کو جا رہا ہے۔ اس کا رخ موڑنا بڑا محنت طلب کام ہے۔ خطرے اپنی جگہ لیکن اس کا رخ موڑنے کے لئے جتنی طاقت اور دل کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی ٹیم میں وہ طاقت نہیں اور عمران خان میں وہ ول نہیں۔ ضیا شاہد نے مزید کہا کہ شاہ محمود قریشی سے میری ملاقات ان کے گھر پر ہوئی تھی میں ٹی وی انٹرویو کرنے گیا تھا۔ کیونکہ اپنا ذوق و شوق پنجاب کے لارڈ صاحب بننے کی طرف ہے اس لئے مجھے معلوم نہیں کہ وہ سپیکر بننے کے لئے تیار ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ مزاجاً وہ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کو ترجیح دیں گے۔ پنجاب پاکستان کی 57 فیصد آبادی کا صوبہ ہے، گویا تین صوبے ایک طرف مل بھی جائیں تو بھی شاید ان کی آبادی اتنی نہیں بنتی جتنی پنجاب کی آبادی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بادشاہ ہوتا ہے اور بادشاہ بننے کو ہر بندے کا دل چاہتا ہے۔ حلقہ 131 کھولنے کے حوالے سے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان سے پوچھوں گا اور فون کروں گا۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا وہ اس کا پاس کریں۔ رانا ثناءاللہ کے متنازعہ بیان کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ میں بات کرتے ہوئے بھی معافی چاہتا ہوں۔ ہم بڑے جھوٹے اور گھٹیا لوگ ہیں۔ ہم بحیثیت قوم بڑے آدمی کے سامنے جھکتے ہیں اور ہر بڑے آدمی کو خدا بنا دیتے ہیں۔ ہم اس طرح کی بات کرتے ہیں، اگر یہ بات وہ میرے سامنے کرتے تو یقین دلاتا ہوں کہ میں ضرور ان کی بات کو ٹوکتا کہ رانا صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم بھی اس بات میں شریک ہیں، ہم بھی اپنے سے بڑے کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ رانا صاحب کو شرم آنی چاہئے اور اویس لغاری کا ذکر کروں گا، مجھے تو نفرت ہو گئی۔ حالانکہ انسان سے نفرت نہیں کرنی چاہئے۔ میں اس کے باپ فاروق لغاری کو اتنا جانتا ہوں، اتنی دوستی تھی۔ خدا کی قسم اس کے باپ کے نواز اور شہباز شریف کے بارے میں کیا خیالات تھے اور وہ کیا کہتے کیسے اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور اس کا بیٹا یہ کہہ رہا ہے کہ میرے مرے ہوئے باپ کی عزت کرنا چاہتے ہو تو شہباز شریف کا گوجرانوالہ سے جلسہ کامیاب کروا دو۔ اللہ معاف کرے۔ ہم اتنے جھوٹے اور گھٹیا لوگ ہیں کہ بندے کو خوش کرنے کے لئے ہر آدمی کو خدا بنا دیتے ہیں اور بھائی ایسی کون سی بات ہے؟ اللہ نے خوش کیا، اللہ نے میری تو سن لی۔ اویس لغاری کی اتنی ذلت ہوئی کہ شہباز شریف صاحب بھی اس سیٹ سے ہار گئے اور فاروق لغاری کا بیٹا بھی اس سیٹ سے ہار گیا۔ لوگوں نے اس بے ہودگی کا بدلہ اویس سے لیا کہ دیکھ تو کس باپ کا بیٹا ہے اور تو کیا کہہ رہا ہے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیسز کی شنوائی کے آغاز کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا، ہو سکتا ہے الزام درست ہو یا الزام غلط ہو۔ میری تو دُعا ہے، خاص طور پر ان کی خاتون بہن صاحبہ ہیں۔ خواہش ہے الزامات غلط ہوں تو بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن اگر یہ الزام صحیح ہیں تو معاف کیجئے گا زرداری صاحب اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ کو بھی اس کا جواب دینا پڑے گا۔ کیونکہ بہرحال زندگی میں وہ کہتے ہیں کہ ”سو گز ڈور، سرے تے گنڈ“ اور دوسرا یہ ہوتا ہے کہ کبھی تو، کوئی آدمی کتنی ہی زیادتی کیوں نہ کرے۔ قدرت کا انصاف کا ایک اپنا نظام ہے اور وہ چل رہا ہے۔ آدمی نے ایک نہ ایک دن پکڑے ضرور جانا ہے۔ پیراگون کے حوالے سے سعد رفیق اور ان کے بھائی کے کیسز پر ضیا شاہد نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔ لیکن میں ایک بات جانتا ہوں کہ مجھے حیرت ہوئی تھی کہ ایک چینل روزانہ رات کو ایک گھنٹے کا پروگرام دکھاتا تھا کہ سعد رفیق صاحب اپنے حلقے میں بہت مقبول ہیں اور لوگوں کو سناتا تھا اور لوگ سارے کہتے تھے کہ سعد رفیق نے وہ، وہ غریبوں کے لئے کام کئے، سعد رفیق نے یہ کیا، وہ کیا تو میں سمجھتا تھا کہ شاید اس کے گھر میں بھی کوئی ریلوے کا انجن پورا پلیٹ میں رکھ کر انہوں نے بھجوا دیا ہو، جو یہ اتنا خوش ہو رہا ہے۔ کوئی سعد رفیق کی تعریف کرنا چاہتا ہے تو اسے حق ہے۔ وہ اچھے آدمی ہیں لیکن جتنا گھمنڈ اس شخص کو تھا۔ اس کی جتنی پریس کانفرنسز ہیں۔ یہ کہتے تھے کہ عمران خان کا وہ حشر ہو گا کہ صرف یہی نہیں سب حلقوں سے شکست فاش ہو گی اور لوگ اس کا ڈھونگ سمجھ گئے ہیں یہ بھی کہا تھا کہ جتنے چمچے کڑچھے ان کی تعریف کرتے تھے تو یہ کہتے تھے کہ دیکھیں جی ڈیفنس کے لو لو یو یو کلاس کے دو چار آدمی عمران خان، عمران خان کرتے ہیں۔ جھوٹی جھوٹی غریبوں، مظلوموں، محروموں کی آبادیاں جن کو کھانے کو روٹی نہیں ملتی، جن کوچھت کا آسشرا نہیں ہے۔ شاید یہ آسرا ہی تلاش کر رہے تھے۔ پیراگون سوسائٹی بنا کر۔ دو، دو چار چار کنال کے گھر بن جائے تو کافی لوگوں کو گھر مل جاتا۔ اس ملک کا سسٹم یہی ہے، یہ پیسے کمانے کا گُر ہے۔ جس وقت سعد رفیق مسلم لیگ (ن) میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ اس وقت ان کے 50 فیصد کے پارٹنر (ق) لیگ کے قیصر امین بٹ تھے۔ اس ملک میں کیا طریقہ کار ہے کہ عوام کو سمجھا جاتا ہے کہ الو کے پٹھے، بے و قوف ہیں، گدھے، مویشی، چلتے پھرتے کتے بلیاں ہیں۔ پیراگون ایک ہاتھ مسلم لیگ (ن) دوسرا ہاتھ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ہے۔ چودھری پرویز الٰہی سے سوال کروں گا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ سعد رفیق تو جس دن میں چاہوں ہمارے پاس آ جائے گا۔ میں نے کہا وہ کس طرح جی۔ کہنے لگے کہ پہلا بندہ جو ساڈے نال اے۔ میں نے کہا وہ ادھر بھی تو ایک رہنا چاہئے۔ کہتے نہیں، جس دن ہم چاہیں گے ہمارے ساتھ آ جائے گا۔ یہ وہ قابل فروخت لوگ ہیں جو ہر جگہ پر حاضر ہیں۔ ان کو مطلب، پیسے، سفارش کے لئے، ان کی کوئی جماعتت نہیں۔ پانی کے مسئلے کے حوالے سے نگران وزیراطلاعات کے بیان پر ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراطلاعات علی ظفر صاحب نے یہ کہا ہے، علی ظفر صاحب میرے وکیل تھے جب پانی کے مسئلے پر ہماری رٹ سپریم کورٹ سے ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر مستر ہوگئی تھی۔ نگران وزیراطلاعات نے اس موقع پر پروگرام میں ٹیلی فونک شرکت کی۔ نگران وزیراطلاعات علی ظفر نے کہا کہ بالکل آپ کو یاد ہو گا جب ہم نے تیاری کی اور انڈس واٹر ٹریٹی سے لے کر اب تک کے حقائق سامنے لائے تھے اور تفصیلات پیش کی تھیں۔ ہم نے اس کے بعد پٹیشن بھی دائر کی اور آپنے اس کو سائن کیا تھا۔ کالا باغ ڈیم کا ہر بار مسئلہ یہی آ جاتا ہے، جس فورم پر بھی آپ جائیں تو اس کو کوئی چھونا نہیں چاہتا۔ سب یہی کہتے ہیں کہ جب تک مفاہمت نہیں ہو گی اور سارے صوبے اور لوگ نہیں مانیں گے اس کو منانا مشکل ہے۔ ہماری تاریخ میں بار بار ایٹمپٹ ہوتی رہی ہیں اور آپ جیسے لوگوں کا موقف رہا ہے کہ اس کو بنانا ہے، بنانا ہے، بنانا ہے۔ بدقسمتی سے ہر بار مفاہمت نہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ آگے نہیں چلتا۔ اب لگتا ہے کہ ہمارے پاس ایک اور موقع آیا ہے۔ اور وہ موقع اس لئے آیا ہے کہ سب کو احساس ہو گیا ہے کہ ہمارے جو بھی ایشوز اور مخالفتیں ہیں۔ پانی ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم نے بچانا ہے اور کالا باغ ڈیم اس بچانے کی کاوش کا ایک حصہ ہے اور اس پر مفاہمت ہونا لازمی ہے۔ اب میری امید یہی ہے اور آپ کی بھی یہ اُمید ہو گی کہ چلیں عدالت سے ہمیں اس پر کوئی ریلیف نہیں ملا۔ لیکن اب سیاسی حل اور لوگوں کی خواہش کے ساتھ ایک قومی مفاد کے لئے اس کو بنایا جائے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ہم نے تو یہ گزارش کی تھی کہ اس کیس کو کونسل آف کامن انٹرسٹ کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ جس کا وزیراعظم سربراہ ہوتا ہے اور چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ اس کے ممبرز ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ میں 17 سال تک میں یہی کیس لڑتا رہا تھا اور کوئی صوبہ جواب دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔ تب میں آپ کے پاس گیا تھا کہ آپ میرا کیس سپریم کورٹ میں دائر کر دیں۔ میرا خیال ہے کہ سیاسی حل بڑی ضروری ہے میری خواہش ہے کہ ہمارے صوبے مل کر دفعیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن بہرحال یہ کام تو کرنا پڑے گا۔ علی ظفر نے کہا کہ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں، کر نا چاہئے اور کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv