تازہ تر ین

الیکشن 2018 ۔۔۔ نیا رجحان ، ظلم تکبر کے بت زمین بوس ، کئی تختوں کا تختہ ، تاج اچھل گئے

ملتان (میاں غفار سے) جنوبی پنجاب میں خصوصی اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں عمومی طور پر نوجوان ووٹرز نے حالیہ انتخابات میں جعلی مقدمات میں لوگوں کو الجھانے والوں، دوغلی پالیسی پر چلنے والوں، عوام سے کم رابطہ رکھنے والوں، جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے والوں، ظالم کا ساتھ دینے والوں اور متکبرانہ رویہ رکھنے والوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے شکست سے دوچار کرکے ملکی سیاست میں نیا ٹرینڈ دے دیا۔ سندھ میں کم مگر کراچی میں بھی کئی دہائیوں بعد عوام نے آزادی سے ووٹ دیا اور تقریباً چار دہائیوں بعد لیاری سے پیپلزپارٹی کو شکست ہوگئی حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو سے یہ الفاظ منسوب ہیں کہ جس دن لیاری میں پیپلزپارٹی کو شکست ہوئی اس دن پارٹی ختم ہو جائے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ میں سارا پاکستان ہار جاﺅں مگر لیاری سے نہیں ہار سکتا اور پھر بھٹو کی بات سچ ثابت ہوئی کہ لیاری سے پیپلزپارٹی کو شکست ہوگئی۔ ملک بھر کی ووٹر لسٹوں میں نئے شامل ہونے والی نوجوان نسل نے ہر قسم کے دباﺅ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بدنام، کرپٹ اور متکبرانہ رویے کے سیاستدانوں کی اکثریت کو مسترد کردیا۔ اراکین قومی اسمبلی گزشتہ چار الیکشنوں سے اپنا پینل بناتے وقت اپنے ساتھ ایک امیدوار صوبائی سیٹ پر ایسا رکھتے تھے جو ان کے الیکشن کے اخراجات اٹھاتا اور اس مرتبہ بھی بعض نامی گرامی امیدواروں نے اس طرح کیا اور بری طرح مار کھا گئے۔ جس بھی امیدوار کا ماضی میں عوامی رابطہ کمزور رہا اُسے بھی ان انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔روزنامہ ”خبریں“ نے اِس صورتحال کے حوالے سے جو معلومات حاصل کرکے تجزیاتی رپورٹ تیار کی اس کے نتائج بڑے ہی حیران کن اور توجہ طلب ہیں جو آئندہ ملکی سیاست کی منفرد راہیں متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ایک پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ آنکھیں بند کرکے بلے کو ووٹ دینے والوں نے اِن اوپر بتائے گئے معاملات میں ووٹ ڈالتے وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں نذر محمد گوندل، ندیم افضل چن، فردوس عاشق اعوان، سمیرا ملک، میاں امتیاز احمد، اختر خان کانجو، چودھری نذیر جٹ، رضا حیات ہراج، اویس لغاری، بہادر خان سیہڑ، ذوالفقار کھوسہ، محمود حیات ٹوچی خان، یوسف رضا گیلانی، سکندر بوسن، غلام حیدر تھند، گورچانی سرداروں، جاوید علی شاہ، اسحاق خاکوانی اور کوٹ ادو کے ہنجرا خاندان کی سیاست کو مسترد کرکے انہیں شکست سے دوچار کردیا۔ دوسری طرف مظفرگڑھ سے مسلسل دو مرتبہ کامیاب ہونے والے عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید خان دستی کو ان کی طرف سے دوسروں کو دی جانے والی جلسوں اور جلوسوں میں سرعام گالیاں اور منفی سیاست لے ڈوبی۔
کبھی خوشاب سے سمیرا ملک 50ہزار کی لیڈ سے کامیاب ہوتی تھیں اور ان کے پوسٹر بھی 500 روپے میں لوگ خرید کر لگاتے تھے مگر اس مرتبہ انہیں ملک نعیم خان اعوان سابق وفاقی وزیر کے خاندان کے ہاتھوں 35ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی اور عوام نے سمیرا ملک کی متکبرانہ سیاست کو مسترد کر دیا۔ حالانکہ ان کے پاس (ن) لیگ کا ٹکٹ تھا اور ہر دور میں ضلعی انتظامیہ ان کے گھر کی لونڈی کا کردار ادا کرتی تھی۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کو ان کے پی اے فون کرتے تھے۔ عوام سے بدتمیزی، انتقامی سیاست نے ملک بھر میں انتہائی مضبوط رابطے رکھنے والی سمیرا ملک کو سیاست کے میدان میں شکست دے دی۔منڈی بہاﺅ الدین سے نذر محمد گوندل کو ان کے بھائی ظفر گوندل کی کرپشن اور اِن کی فیملی کا متکبرانہ رویہ لے ڈوبا۔ ان کا مقابلہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری امداد اللہ بوسال کے بھائی ناصر بوسال سے تھا۔ گوکہ بوسال فیملی علاقہ میں ماضی میں رسہ گیری اور جرائم کی دنیا میں سالہاسال سے ملوث رہی مگر اب تعلیم کی طرف گامزن ہے اور ناصر بوسال نے منڈی بہاﺅ الدین میں 36ارب کے ترقیاتی کام کروا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا کہ ان جتنے فنڈز ملک بھر میں کوئی بھی اپنے حلقوں میں خرچ نہیں کرسکا۔راولپنڈی سے چودھری نثار علی خان کو بھی ان کے رویے کی وجہ سے بری طرح شکست ہوئی اور ان کا بھی یہی وتیرہ تھا کہ ان سے کوئی ووٹر مل ہی نہیں سکتا تھا۔ آج کے دور میں بھی وہ موبائل کے استعمال سے عمومی طور پر پرہیز کرتے تھے اور تمام تر امور ان کے پرسنل سٹاف ممبران ہی چلاتے تھے اور ازخود چودھری نثار بمشکل کسی سے ملتے تھے جس پر عوام نے اپنا ردعمل دے دیا۔رحیم یار خان شہر سے میاں امتیاز احمد مسلسل کامیابی حاصل کرتے چلے آ رہے تھے مگر گزشتہ الیکشن میں ایم این اے بننے کے بعد ان کے رویے میں حیران کن تبدیلی آگئی۔ بے پناہ دولت کے باوجود جرائم پیشہ افراد ان کی پناہ میں کچے کے علاقے میں غریب کاشتکاروں کی گندم ضبط کرتے رہے اور شہر کے بدنام جعلساز اور ٹاﺅٹ سرعام ان کے نام پر لوگوں سے ہاتھ کرتے رہے ان کے ذاتی اور قریبی عملے نے بھی ناجائز مقدمات کی سیاست کی جس کی وجہ سے الیکشن کا اعلان ہوتے ہی تمام سروے اور تجزیے میاں امتیاز احمد کی شکست کی خبر دیتے تھے اور وہی ہوا کہ وہ اپنی برادری کا بھی ووٹ نہ لے سکے جو ہمیشہ انہیں کامیاب کرواتی تھی۔ ہارنے کے بعد بھی ان کا متکبرانہ رویہ ختم نہ ہوا اور وہ جلوس لے کر آر او آفس گئے جہاں حساس اداروں اور عدلیہ کے خلاف غلیظ زبان کا کھلے عام استعمال کیا گیا۔ اب ان پر مقدمہ درج ہو چکا ہے جس گھر کے سامنے پولیس پہرہ دیتی تھی اسی گھر میں ان کی گرفتاری کے لئے پولیس داخل ہوئی اور اب وہ مفروری کاٹ رہے ہیں۔لودھراں سے (ن) لیگ عبدالرحمن کانجو کی عاجزی اور انکساری کا مقابلہ پی ٹی آئی کے متکبر اختر خان کانجو سے تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اختر خان کانجو شدید قسم کے خبط عظمت کا شکار ہیں اور ان کے اس رویے سے انہیں شکست ہوئی۔ حالانکہ وہ سابق چیئرمین ضلع کونسل رہے۔ لودھراں کو پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اختر کانجو بمشکل ہی کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں حتیٰ کہ وہ کسی دینی مدرسے میں بھی جائیں جہاں مفتی حضرات صفوں پر بھی بیٹھے ہوں مگر ان کے لئے کرسی رکھی جاتی ہے۔ عوام نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے باوجود ان کے رویے کو مسترد کردیا۔
بورے والا سے چودھری نذیر جٹ بہت ورکر آدمی ہیں اور کروڑوں روپے فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئیں اور وہ خود پہلے ہی نااہل ہو چکے تھے۔ دوسری برادریوں سے نفرت، کھلے عام بدزبانی، فسادی رویے اور قوم پرستی کی شدت کے اثرات ان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹیوں کو بھی شکست سے دوچار کرگئے۔ دوسری طرف اسحاق خان خاکوانی پی ٹی آئی کے تو مرکزی رہنما کے طور پر ٹکٹیں تقسیم کرنے والے بورڈ میں شامل ہو کر ازخود امیدواروں کے انٹرویو کرتے رہے اور تب بھی ان کا رویہ متکبرانہ تھا۔ امیدوار شدت کی گرمی میں گھنٹوں ان کے گھر کے سامنے بیٹھے رہے مگر وہاں مہربانی کا تصور بھی نہ دیکھا گیا۔ ان کے مردم بیزار رویے نے انہیں شکست سے دوچار کردیا۔ اسحاق خاکوانی کا رویہ بہت متعصبانہ تھا۔ وہ لودھراں سے سابق رکن قومی اسمبلی جوکہ مضبوط امیدوار تھے کے ٹکٹ کے راستے کی یہ کہہ کر رکاوٹ بنے کہ اب میں تمام ٹکٹیں مہاجروں کو دے دوں پھر جب مجبوری میں ٹکٹ دینی پڑی تو اپنے آبائی حلقے کے بجائے انہیں لودھراں سے صوبائی ٹکٹ لودھراں شہر کے رہائشی سابق رکن قومی اسمبلی صدیق خان بلوچ کے مقابلے میں جاری کردیا۔ وہ کبھی اس حلقے سے کامیاب نہ ہوسکے تھے لہٰذا ان کے رویے کی وجہ سے پی ٹی آئی کمزور ہوئی اور لودھراں کی دو سیٹیں ہار گئی۔
یہی رویے لیہ سے بہادر خان سیہڑ اور غلام حیدر تھند جبکہ مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو سے ہنجرا خاندان کو شکست سے دوچار کرگئے۔ ہنجرا خاندان کو کرپشن کی سزا بھی ملی کہ جنوبی پنجاب میں زمینوں پر قبضوں کے حوالے سے وہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ زبان کی کرواہٹ اور قومی سیاست کے شوق نے جمشیدخان دستی کو حلقے کی سیاست سے آﺅٹ کئے رکھا اور وہ دونوں حلقوں سے یقینی کامیابی کے عمومی تاثر کے باوجود ہار گئے۔
اِس ظالمانہ رویے کی وجہ سے کبیروالا کے سدابہار سابق ایم این اے رضا حیات ہراج پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے باوجود فخرامام سے شکست کھا گئے۔ انہوں نے اقتدار کے دوران جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی، زمینوں پر قبضے، سرکاری فنڈز کا ناجائز استعمال، کھلے عام ظلم کی سرپرستی جاری رکھی اور عوام نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے باوجود انہیں مسترد کردیا۔ دوسری طرف تمام تجزیوں میں کامیاب عوامی سیاست کرنے والے سابق ضلع ناظم خانیوال احمد یار ہراج محض ایک کرپٹ اور بری شہرت کے حامل شخص کو اپنے ساتھ محض انتخابی اخراجات کے لالچ میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے کر دینے کے ”جرم“ میں اپنی سیٹ بھی گنوا بیٹھے۔ عوام نے حیران کن طور پر ان کے بھائی حامد یار ہراج کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب کروایا مگر رانا سلیم کی نفرت ان کے ساتھ ساتھ احمد یار ہراج کو بھی لے ڈوبی۔
ڈیرہ غازی خان کی صورتحال سب سے دلچسپ رہی اور وہاں کے قبائلی سردار اپنے اپنے زیرانتظام قبائلی علاقوں سے بھی بری طرح شکست کھا گئے جو کبھی ووٹ مانگنے نہ جاتے تھے اس مرتبہ انہوں نے گھر گھر اور دردر کے دھکے کھائے مگر انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ ان میں تمن قیصرانی کے میربادشاہ قیصرانی، کھوسہ قبیلے کے چیف سردار ذوالفقار کھوسہ اپنے ہی رشتے دار احمد کھوسہ سے شکست کھا گئے۔ دوسری طرف تمن لغاری نے اپنے لغاری سردار اویس خان لغاری کو مسترد کر دیا تو تمن گورچانی کے سردار بھی مسترد کر دیئے گئے۔ جعفر خان لغاری اور امجد کھوسہ اپنی عوام دوستی اور خدمات کی وجہ سے کامیاب رہے مگر سرداری کے تاج اچھل گئے۔
ملتان سے عبدالغفار ڈوگر کو ان کے ایم پی اے کے امیدوار رانا اقبال سراج کی کرپشن لے ڈوبی جوکہ جعلی کھاد بنانے اور فروخت کرنے کے حوالے سے سخت بدنام ہونے کے باوجود انتخابی اخراجات اٹھانے کے وعدے پر عبدالغفار ڈوگر کے ذریعے ٹکٹ لے گئے۔ انہوں نے اس الیکشن پر12کروڑ سے زائد اخراجات کئے ووٹ بھی خریدے مگر پھر بھی ہار گئے۔
سب سے دلچسپ صورتحال شاہ محمود قریشی کی صوبائی حلقے میں ناکامی کے حوالے سے سامنے آئی اور قدآور سیاستدان ایک نووارد نوجوان سے محض اس لئے ہار گئے کہ شاہ محمود قریشی نے کبھی عوامی سیاست نہیں کی اور نوجوان سلمان نعیم اپنی خدمات اور غریب پروری سے جنوبی پنجاب کے ایک بڑے برج کو الٹا گئے۔ کئی سال تک شاہ محمود قریشی نے انہیں صوبائی ٹکٹ کا وعدہ کرکے حلقے میں کام کرنے اور غریب عوام کی خدمت پر لگائے رکھا اور آخری وقت میں ٹکٹ اپنے پاس رکھ لیا جس کا عوام نے ووٹ کے ذریعے جواب دیا۔
نیا رجحان

 



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv