تازہ تر ین

زرعی مداخل پر بے جا ٹیکس ختم ، پھُٹی کی کم از کم قیمت 5 ہزار روپے من ہونی چاہیے

ملتان(اہتمام:سجاد بخاری، رپورٹ: طارق اسماعیل، راناطارق،تصاویر: خالداسماعیل)روزنامہ ”خبریں“ کے زیراہتمام آبی بحران اورکپاس کی فصل کودرپیش مسائل کے حوالے سے ہونیوالی ”خبریں“ کاٹن کانفرنس کی صدارت چیف ایڈیٹر جناب ضیا شاہد نے کی۔ عدنان شاہد فورم ہال میں ہونیوالی کاٹن کانفرنس میں کپاس کاکاشتکار تذبذب کاشکار کیوں؟ کے حوالے سے گفتگوہوئی۔ جس میں تمام سٹیک ہولڈرز نے گفتگو کی۔ ”خبریں“ کاٹن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرکاءنے کہاکہ 95بااثرافراد شوگرملوں کے ذریعے ملک کی معیشت چلانے سے باز رہیں کیونکہ چھوٹی صنعتیں اور اس میں کام کرنیوالے مزدوراپنا خون پسینہ ایک کرکے ان سے بہترطریقے سے ملک کو چلارہے ہیں۔ شوگرملز مافیا حکمران طبقے کا روپ دھار کر کاشت کاروں کاخون چوسنے سے توبہ کرے۔ زرعی مداخل پر بے جاٹیکس ختم کیے جائیں۔ پتوکی سے رحیم یارخان تک تمام شوگرملزفوری طور پرختم کردی جائیں تو دستیاب پانی سے بھی زراعت کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کماد کی کاشت سے زرخیززمینیں ریت اگل رہی ہیں اوربنجر ہونے کے قریب ہیں۔ کاشتکاروں نے کہاکہ سابق حکومت نے کاشتکاروں کو اربوں روپے کی سبسڈی کے نام پردھوکا دیکرمذاق اڑایا ہے۔ حکومت نے اگراپنی معیشت بچانی ہے توکاشتکاروں کے مفادات کاتحفظ کرے اورپھٹی کی کم از کم قیمت 5ہزار روپے مقرر کی جائے اور اس سلسلے میں فوری طور پر اعلان کیا جائے۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر ”خبریں“ میاں غفار احمد نے کاٹن کانفرنس میں میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ عوام دوست فورم کے چیئرمین اورمحکمہ آبپاشی کے ریٹائرڈ ایس ای خواجہ مختاراحمد، انجینئر ممتاز احمدخان، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدراقبال حسن، کاٹن ریسرچ اینڈڈویلپمنٹ بورڈ کے چیئرمین سہیل محمود ہرل، کسان اتحاد کے صدرملک خالدکھوکھر، کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان( پنجاب) کے ڈائریکٹر ڈاکٹرصغیراحمد، محکمہ زرعی اطلاعات کے ترجمان نویدعصمت کاہلوں ،ہمایوں خان سدوزئی، مرزامحمد شریف، ملک انعام الرحیم، امجد مشتاق، ریاض احمدلنگڑیال، ملک محمدالیاس ارائیں، سیف اللہ خان، جمشید ہارون، فیض حسن بھپلا، امجدمشتاق،رانامحمدسلیم نون، رانامحمد سعید، شہزاد احمد، قسورلنگڑیال اور اشفاق احمد نے شرکت کی۔ کاٹن کانفرنس میں بتایاگیا کہ رواں سال پانی کی کمی سے 4لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پرکپاس کی کاشت نہیں ہوسکی۔ جسکی وجہ سے پیداواری اہداف بھی حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ ”خبریں“ کاٹن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوام دوست فورم کے چیئرمین اورترقی پسند کاشتکار خواجہ مختاراحمد نے گفتگو کرتے ہوئے جناب ضیا شاہد کی طرف سے پانی کے مسئلے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں رٹ کی سماعت کےلئے منظوری پرمبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ ستلج کے خشک ہونے کے بعددوسرے دریاو¿ں میںبھی پانی کی کمی ہوئی ہے۔ لودھراں، دنیاپور، جلالپور پیروالہ سمیت علاقوں میں کاشتکاروں کوشدیدمشکلات کاسامنا ہے۔ پانی کی کمی سے کپاس کی فصل مکمل طور پر کاشت نہیں ہوسکی اورجوفصل کاشت ہوئی ہے وہ اب پانی کی کمی کی وجہ سے متاثرہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریز کے دور کے بنائے گئی آبپاشی کے کیلنڈر کوتبدیل کیاجائے۔ اپرپنجاب سمیت بڑے شہروں کے علاقوں میں بنائی گئی رہائشی کالونیوں کاپانی ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے علاقوں میں منتقل کیاجائے۔ تاکہ ان علاقوں میں فصلوں کی پیداوار بڑھائی جاسکے۔انہوں نے کہاکہ صوبائی سطح پر ایک ایکسپرٹ کمیٹی بنائی جائے جو آبادی میں آنیوالی زرعی زمینوں کے پانی کا جائزہ لیں۔ خواجہ مختاراحمد نے کہاکہ لودھراں، بہاولنگر، یزمان، دنیا پور کے علاقوں کی ششماہی نہروں کو وارہ بندی کے بجائے بلاتعطل پانی دیاجائے۔ منگلا ڈیم توسیعی منصوبے سے جنوبی پنجاب کوبھی فائدہ پہنچایاجائے اور منگلا ڈیم سے ان علاقوں کے پانی کے کوٹے میں اضافہ کیاجائے۔ کاٹن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے چیئرمین سہیل محمودہرل نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کاٹن بیلٹ سے کماد کی کاشت ختم کرنے کے ساتھ ان علاقوں سے شوگرملوں کوبھی نکالنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک صنعت کامالک دوسری صنعت کااستحصال کررہاہے اور سب صنعتکار مل کرکاشتکاروں کااستحصال کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ٹیکسٹائل ملزمافیا بھی کاشتکاروں کے استحصال میں بھیانک کردارادا کررہاہے۔ زراعت کےلئے جو سبسڈی مختص ہوئی ہے وہ شوگرملز مالکان کو چینی برآمد کرنے کےلئے دیدی جاتی ہے اور پھر اپنے صارفین کو بھی چینی انتہائی مہنگے داموں میسر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کومراعات دی جائیں۔ ملک میں 95شوگر ملوں کے مالکان ملک بھر کی معیشت پرقابض ہیں اور کاشتکاروں کے خون چوس رہے ہیں۔انجینئر ممتاز احمدخان نے کہاکہ ہم ہرسال 60سے70فیصد پانی ضائع کررہے ہیں اورآبپاشی میں بھی پرانے طریقوں کے ذریعے پانی کاایک بڑا حصہ ضائع کیاجارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ دستیاب پانی کو بہترمنصوبہ بندی سے استعمال کرکے کارکردگی بہتر کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کالاباغ ڈیم تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اورافہام وتفہیم سے بنایاجائے۔انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی اب یہ جان چکے ہیں کہ کالاباغ ڈیم پرلگائے گئے تمام اعتراضات غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک کمشن بنایاجائے جواس بات کاتعین کرلے کہ ہم پانی کے معاملات میں ناکام کیوں ہوئے ہیں؟۔ہمایوں خان سدوزئی نے کہاکہ بیوروکریٹس زراعت سمیت تمام شعبوں کو فتح کرنے سے باز رہیں اورانجینئر ز سمیت ماہرین کوآزادی سے کام شروع کرنے دیا جائے۔ ماہرین کو بیوروکریسی کے ماتحت کرنے کے بجائے ان کے علم اورتجربات سے استفادہ کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جہالت کے اندھیروں سے نکلنا ہوگا۔ ملتان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر اقبال حسن نے کہاکہ ملکی حالات معیشت کو بہترکیے بغیر ٹھیک نہیں ہوسکتے اورمعیشت زراعت کو بہتر کیے بغیر نہیں سنبھل سکتی۔ انہوں نے کہا کرپشن کاناسور اس وقت تک سسٹم کو کھوکھلا کرتارہے گا جب تک معیشت اپنے پاو¿ں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہاکہ جب سے ہماری زراعت بالخصوص کپاس کی فصل کے مسائل بڑھنے میں ہماری برآمدات بھی کم ہورہی ہیں اوردرآمدات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشی نظام پٹری سے اترچکا ہے۔ ہماری کپاس کی فصل کے کاشتکار کو راضٰی کرنا پڑے گا تاکہکپاس سے متعلق ویلیو ایڈڈ کاکام کرنیوالوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ انہوں نے کہاکہ کاٹن مصنوعات تیار کرنیوالوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مرزا محمد شریف نے کہا کہ تیل کا کاروبار کرنے والے آئل مافیا نے ملک میں ڈیم نہیں بننے دیئے جس میں ملک میں مہنگی بجلی کی تیاری اور فروخت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی مہنگی ہونے سے نقصان زراعت کا ہو رہا ہے۔ ہمیں زرعی شعبے کو بہتر بنانے کیلئے کم نرخوں پر بجلی فراہم کرنی ہوگی تاکہ پانی کی کمی پر قابو پایا جاسکے۔ کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت زراعت کے سابق سیکرٹری محمد محمود نے زراعت کو بھی نندی پور پراجیکٹ سمجھ کر چلایا ہے۔ کسانوں کو مراعات اور زرعی مداخل پر دی جانے والی رعایت کی قیمت کروڑوں روپے سے کبڈی کی ٹیموں پر رقم خرچ کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں بھی زراعت شامل نہیں ہے۔ کھاد پر سبسڈی کی مد میں مختص کی گئی رقم کاشتکاروں کو نہیں دی گئی اور زرعی شعبے کی بہتری کیلئے بنائی گئی سفارشات میں کاشتکاروں کو شامل نہیں کیا گیا۔ سابق سیکرٹری نے اپنی طرف سے سفارشات بنا کر کاشتکاروں کا استحصال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کو کپاس کے معیاری بیج نہیں مل رہے اور سیڈ مافیا ناقص بیج فروخت کرکے جہاں کاشتکاروں کو لوٹ رہا ہے وہاں فصل کو نقصان پہنچا کر ملکی معیشت کو بھی کمزور کرنے کے درپے ہے۔ غلط اعدادوشمار دے کر زراعت اور کاشتکار کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی سمیت تمام ایوانوں میں کسی بھی ممبر نے زراعت کی ترقی اور کاشتکار کی بہتری کیلئے بات نہیں کی۔ ایوانوں میں نام نہاد لیڈر شپ کی خوشامدیں کی جاتی رہی ہیں۔ حکومتی سطح پر اپٹما کی جیت ہمیشہ کی طرح برقرار ہے اور ہار کاشتکاروں کا مقدر ہے۔ کالا باغ ڈیم بنایا جائے اور پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے کرلیا جائے تاکہ تحفظات اور خدشات ختم ہوسکیں۔ ملز مالکان نے ہمیشہ کاشتکاروں کا استحصال کیا ہے۔ جنرز سے لے کر اپٹما تک ہر شعبے نے کاشتکاروں کو لوٹا ہے۔ ترقی پسند کاشتکار انعام الرحیم نے کہا کہ کھادوں سمیت تمام زرعی مداخل پر عائد ٹیکس ختم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی مداخل میں پانی سب سے زیادہ مہنگا بن چکا ہے۔ ملک الیاس ارائیں نے کہا کہ نہری پانی پر بھی بڑے زمینداروں کا قبضہ ہے اور ان کی مرضی سے پانی تقسیم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے زمینداروں کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال یوریا کھاد1350 روپے میں میسر تھی اور رواں سال1600 سے 1800 روپے میں مل رہی ہے۔ حکومتی اداروں کا اس نظام پر کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال2300 روپے والی ڈی اے پی رواں سال3300 روپے میں دی جا رہی ہے۔ کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پنجاب (ملتان) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صغیر احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے رواں سال4لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کی کم کاشت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہاول نگر، رحیم یار خان، لودھراں سمیت علاقے اس میں شامل ہیں جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے کپاس کی فصل کی کاشت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی برداشت کرنے والی اقسام پر تحقیق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ پانی کی کمی کے پیش نظر آسٹریلیا کی طرز پر20سالہ واٹر پالیسی بنائی جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کاٹن بیلٹ میں دھان، مکئی اور کماد کے ہوتے ہوئے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سفید مکھی، وائرس سمیت تمام بیماریوں اور سنڈھیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ کپاس کی کاشت یکم مئی سے 31مئی تک مکمل کرلی جائے۔ محکمہ زرعی اطلاعات کے نوید عصمت کاہلوں نے کہا کہ مارکیٹ میں معیاری کھاد اور زرعی ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدگی سے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ فرٹیلائزر کنٹرولر کھادوں کے معیار کو برقرار رکھنے کیلئے باقاعدگی سے سیمپلنگ لینے کا سلسلہ شروع کئے ہوئے تھی۔ انہوں نے حکومت کی کسان دوست پالیسیوں کی وجہ سے ایک سال میں زرعی گروتھ ریٹ3.8 تک جا پہنچا ہے۔ علی اکبر گروپ کے سیف اللہ خان نے کہا کہ چین میں زرعی ادویات کی اکثر کمپنیاں بند ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں 250 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ادویات کی کمپنیوں کی بقا بھی کاشتکار کی بہتر معاشی حالت میں ہے۔ سن کراپ کے جمشید ہارون نے کہا کہ ہمیں کم ازکم زراعت اور واٹر ایشوز پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چین سے زرعی ادویات درآمد کرنے میں مسائل بڑھ گئے ہیں اور اس سلسلے میں متبادل انتظامات بھی نہیں کئے جاسکے۔ ترقی پسند کاشتکار فیض حسن بھپلا نے چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ انہوں نے جناب ضیاشاہد کو سپریم کورٹ میں رٹ سماعت کیلئے منظور ہونے پر مبارک دی۔
کاٹن کانفرنسزرعی مداخل پر بے جا ٹیکس ختم ، پھُٹی کی کم از کم قیمت 5 ہزار روپے من ہونی چاہیے



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv