تازہ تر ین

چاروں گورنر سیاسی ، تبدیل نہ ہونے سے شفاف الیکشن پر سوال اٹھنے لگے : ضیا شاہد ، اختیارات نہیں ، الیکشن پر اثر انداز نہیں ہو سکتے : پرویز رشید ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے حلقے کہہ رہے ہیں کہ شاید شاہ محمود قریشی وزیراعظم کے امیدوار ہیں ن لیگ نے اس پر بڑا ہنگامہ کیا ہوا ہے اور بڑی سیاسی لابنگ کی ہوئی ہے کہ جو اتنا بڑا وکیل یعنی سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میدان میں اترا ہوا ہے وہ یقینا عمران خان کو ان کے کاغذات منظور نہیں ہونے دے گا۔ بہرحال یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے۔ ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ ایک جگہ سے ان کے کاغذات منظور ہو گئے اور ایک جگہ سے مسترد ہو گئے ہیں کوئی لگتا ہے کہ کوئی کرائٹیریا متعین اور واضح نہیں ہے کیونکہ ایک ہی جیسے افسران جو ہیں جن کو الیکشن کمیشن نے اختیار دیا ہے وہ ان سارے معلوم حقائق کی بنیاد پر ایک جگہ کاغذات مسترد دوسری جگہ منظور کر رہے ہیں۔
جو پریس کانفرنس سینئر افراد کی جانب سے کی گئی ہے اس کے باوجود جتنا پروپیگنڈا ان کے خلاف ہے میرے خیال میں یہ اعتراض وزنی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ جو خفیہ کوڈ تھا۔ وہ صرف نادرا کے سربراہ یا ان کے 4,3 ڈپٹی ہیں ان کے پاس تھا اوراگر ایک اخبار کے رپورٹر کو یہ کوڈ نمبر مل گیا اور انہوں نے خبریں چھاپ دیں اور ان کو آشکارا بھی کر دیا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ الیکشن کمشن آف پاکستان نے خود اس کا نوٹس لیا تھا لہٰذا میرا خیال ہے کہ کوئی وجہ مجھے نظر نہیں آئی کہ باریش سربراہ وہ صاف ہو جائیں گے۔
مریم نواز صاحبہ کوئی معمولی شخصیت نہیں وہ اپنے وقت کے مغل بادشاہ کی بیٹی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا ان کے راستے میں کوئی چھوٹی موٹی رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔
ضیا شاہد: پرویز رشید اب وقت تک ملک میں بحث جاری ہے سب کو یقین ہے کہ جو الزامات لگے ہیں چیئرمین نادرا پر کہ ان کے پاس کوڈ نمبر تھا یا ان کے 3 ساتھیوں کے پاس تھا اور اگر کسی اخبار کے رپورٹر کے پاس بھی یہ سارا ڈیٹا پہنچ گیا ہے تو بھی یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ آپ کی نظر میں ان کی ذمہ داری ہے یا وہ بے قصور نظر آتے ہیں۔
پرویز رشید: یہ تو کسی انکوائری کے ذریعے ہی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے نادرا کا ڈیٹا جو ہے اگر وہ کسی جگہ ٹرانسفر ہوا ہو گا تو آئی ٹی ایکسپرٹ جو ہیں اسے ٹریس کر سکتے ہیں کس کمپیوٹر سے کس کمپیوٹر میں گیا اس کا پاس ورڈ کس کے پاس تھا کون اس کمپیوٹر کو کنٹرول کرتا تھا بہت آسانی سے آئی ٹی ایکسپرٹ اس کو منطقی انجام دے نہیں پہنچا سکتے ہیں۔
ضیا شاہد:یہ جو کل رات سے بحث جاری ہے۔ میرے دوست رجوانہ صاحب سے، برے معقول اور پڑھے لکھے آدمی ہیں لیکن دو پارٹیوں سے اعتراض کر دیا ہے کہ گورنر صاحب ان کے بیٹے بھی ملتان سے الیکشن لڑ رہے ہیں ملتان سے اور چاروں صوبوں کے گورنر ہاﺅس میں باقاعدہ سیاسی جماعتوں کے رکن رہے ہیں۔ رجوانہ صاحب کا ن لیگ سے تعلق تھا سنیٹر تھے جو کے پی کے میں ہمارے دوست ظفر اقبال جھگڑا صاحب جو تھے وہ مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری رہے مسٹر زبیر صاحب مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر رہے اور بعد میں گورنر بنے۔ کوئٹہ میں محمود اچکزئی صاحب کے بھائی ہیں ان کا سارا خاندان الیکشن لڑ رہا ہے میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اور ایک سنجیدہ سیاستدان کی حیثیت سے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ جو الزام ہے اس میں کوئی وزن نظر آتا ہے کہ جو سیاسی گورنر چاروں صوبوں میں گورنر ہاﺅس میں موجودگی میں جبکہ پانچ سبجیکٹ واپڈا، سوئی گیس، یونیورسٹیوں کے وہ چانسلر ہوتے ہیں زرعی ترقیاتی بینک اور ایک دو محکمے براہ راست گورنر کے ماتحت ہوتے ہیں کیا آپ کے خیال میں گورنروں کو بھی تبدیل کر کے غیر جانبدار گورنر نہیں بنانے چاہئیں۔
پرویز رشید: گورنر کے پاس ایسا کون سا اختیار ہے جس میں وہ انتخاب میں کوئی مداخلت کر سکتا ہے۔ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے، ہمارے آئین میں گورنر پرائم منسٹر کی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے جن اختیارات کی آپ نے بات کی وہ بھی گورنر خود استعمال کرتا چیف منسٹر کی ایڈوائس پر ان لوگوں کے حکم نامے پر دستخط کرتا ہے خود واپڈا کسی گورنر کے ماتحت نہیں۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی صوبائی وزیراعلیٰ کرتے ہیں گورنر ان کی ایڈوائس کے مطابق اس حکم نامے پر دستخط کرتا ہے ایک رسمی سا کام ہے جو گورنر کرتا ہے اس کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ کسی کی ٹرانسفر، کسی کی ترقی نہیں کر سکتے۔ کسی کو نوکری دے نہیں سکتے کسی کو نوکری سے نکال نہیں سکتے۔ ان کی انتخابات میں مداخلت جو ہے وہ میری سمجھ سے بالاتر ہے اور اگر ہم اس مفروضے پریقین کرنا شروع کر دیں تو پھر صدر پاکستان بھی اپنے عہدے پر قائم ہیں، صدر پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور دوسرے بہت سے اداروں کے سربراہ ہیں جن کی تعیناتی وزیراعظم کے صوابدید کے مطابق ہوتی ہے ہم یہ پنڈورا باکس کھولنے کی طرف جا رہے ہیں۔ جو ہماری اٹھارہویں ترمیم تھی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پاس کی جس میں تحریک انصاف کے اراکین بھی شامل تھے اور انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں تحریک انصاف نے پورا کام کیا اور تحریک انصاف نے متفقہ طور پر ان قوانین کی منظوری اور ترامیم کی منظوری دلوائی قومی اسمبلی سے پھر سینٹ سے جن کو ہم انتخابی اصلاحات کہتے ہیں اس میں کوئی اس چیز کا ذکر نہیں تھا کہ گورنرز کو تبدیل کیا جائے گا۔ اب اگر انہیں آج خیال آ رہا ہے تو انہیں چائے تھا کہ انتخابی اصلاحات میں اس چیز کو شامل کروا لیتے جیسے ہی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی تو گورنر بھی تبدیل کر دیئے جائیں گے صدر پاکستان کو اپنے گھر بھیج دیا جائے گا اور جو دوسرے عہدیدارن کی وزیراعظم نے تعیناتی کی ہو گی ان سب کو بھی ان کے گھروں میں بھیج دیا جائے گا۔ یا معطل کر کے بٹھا دیا جائے گا۔ یہ انتخابات میں ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے ہمیں ایسے اقدامات کرنے پڑیں۔
ضیا شاہد: جب سے ہم نے ہوش سنبھالی، ہم نے حکومتوں کو آتے جاتے دیکھا، ایک زمانے میں گورنر حضرات جو ہوتے تھے عام طور پر غیر سیاسی ہوتے تھے۔ سابق بیورو کریٹ یا سابق جرنیل ہوتے تھے یہ پچھلے چند برسوں سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جناب خالد مقبول صاحب کے دور میں ایک بڑی سیاسی ٹینشن شروع ہو گئی تھی کہ خالد مقبول جب دوروں پر جاتے تھے تو وہ ان شعبوں، ان محکموں میں بھی دخل دیتے تھے جو اس وقت مسلم لیگ کے وزیراعلیٰ کے پاس ہوتے تھے چنانچہ جب ان کی شکایت ہوئی صدر پرویز مشرف کے پاس مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ ان کو منع کر دیا گیا۔ میں خود 3,2 یونیورسٹیوں کے دورے میں ساتھ گیا تھا اور پھر وہ یونیورٹیوں میں جاتے تھے، نمبر2 زرعی ترقیاتی بینک کے بارے میں پوچھتے تھے نمبر3 واپڈا کے کنکشنوں کے بارے میں پوچھتے تھے نمبر4 وہ نادرا کے بارے میں پوچھتے تھے۔ پانچویں سبجیکٹ میں وہ دخل نہیں دیتے تھے۔ جو یہ بات ظاہر کرتی تھی ظاہر ہے اس وقت کے وزیراعلیٰ اس کو سمجھتے تھے کہ میرے محکموں میں گورنر غلط دخل دے رہا ہے۔ جناب لاہور کے سب سے بڑے گھر میں جس کا نام گورنر ہاﺅس ہے رفیق رجوانہ صاحب فروکش ہیں۔ بڑے پڑھے لکھے بڑے مہذب آدمی ہیں لیکن میں اصولی بنیادوں پر بات کر رہا ہوں کہ ان کے بیٹے ملتان میں الیکشن لڑ رہے ہیں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر۔ کیا آپ کے خیال میں اتنے فرشتہ ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی کہیں کوئی مدد نہیں کریں گے۔ کوئی اچھا نہیں سوچیں گے کسی سیکرٹری سے کہیں گے بھی نہیں گورنر ہاﺅس میں سب افسروں نے آنا جانا ہوتا ہے۔ انصاف کی تو بات کریں۔
پرویز رشید: میں ایک اصول کی بات کر رہا ہوں۔ خالد مقبول صاحب کی جب آپ نے بات کی تو میں وہ ایک غیر آئینی زمانہ تھا۔ آئین سے تجاوز کر لیا گیا ہوا تھاو¿ مشرف چیف ایگزیکٹو بھی تھے ملک کے صدر بھی تھے اور ملک کے چیف آف آرمی سٹاف بھی تھے۔ ایک بے راہروی خود بھی کر رہے تھے اور ان کے گورنر صاحبان کو ایسے اختیارات دے دیئے گئے تھے مجھے بتایئے پچھلے 5 سال میں کیا خیبرپختونخوا کے بارے میں کوئی شکایت پرویز خٹک کو پیدا ہوئی جس کا انہوں نے کبھی اظہار کیا ہو کہ گورنر نے میرے کسی کام میں مداخلت کی ہے۔ گورنر ان کے کام میں مداخلت کر نہیں سکتا۔ میں نے کہا نان گورنر کے پاس اختیار نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس کی شکل اچھی نہیں لگتی تو اس کو تبدیل کریں۔ بہرحال یہ آئین کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہو گا۔ بیٹے، بھائی، بیٹی کا انتخاب میں حصہ لینے کا تعلق ہے تو میں درجنوں ایسے حوالے دے سکتا ہوں جو انتخاب لڑ رہے ہیں جو ایسے شخص کے بھائی بھی جو خود بڑے عہدے پر موجود ہیں اور اس کے پاس اختیارات بھی ہیں جبکہ گورنر کے پاس نہیں ہیں، الیکشن کمیشن کے کچھ لوگوں کے بارے میں میں نام لیتا اچھا نہیں لگتا لیکن جو بااختیار لوگ وہ خود الیکشن کمشن کے بااختیار لوگ ہیں ان کے قریبی خون کے رشتے ہیں۔ وہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس طرح مثالیں دوں گا کہ بڑے بااختیار عہدوں پر آفیسر موجود ہیں ان کے خون کے رشتہ دار حصہ لے رہے ہیں۔گورنر تو بے اختیار یہاں بااختیار لوگوں کے قریبی خون کے رشتے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔
ضیا شاہد:گورنر چانسلر ہوتا ہے۔ بہت ساری مثالیں دے سکتا ہوں کہ گورنر بطور چانسلر وائس چانسلر کو تبدیل کیا، معطل کیا، یونیورسٹیوں میں تقرریوں کا نوٹس لیا و دیگر محکموں میں بھی دخل لیا۔ سارے گورنر ٹھوک بجا کر دخل دیتے ہیں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گورنر کچھ نہیں کر سکتا۔
پرویز رشید: جس قسم کے دخل کی آپ بات کر رہے ہیں تو گورنر نہ بھی ہوں پاکستان میں آپ جیسے باوسیلہ و بارسوخ حضرات ایسا کر لیتے ہیں۔ گورنر وزیراعلیٰ کے حکم پر عمل کرتا ہے، آئینی یا قانونی اختیار نہیں رکھتا۔ کہا جاتا ہے کہ اب غیر جانبدار وزیراعلیٰ موجود ہیں اگر وہ تمام اداروں، محکموں کو کہہ دیں کہ گورنر کی بات پر عمل نہیں کرنا تو نہیں ہو گا۔ سینٹ انتخابات میں گورنر خیبر پختونخوا اگر فاٹا میں کچھ کر سکتا تو وہاں سے ایسے سنیٹرز منتخاب نہ ہوتے جو ہمارے امیدوار کے بجائے سنجرانی صاحب جیسے لوگوں کو ووٹ دیئے۔
ضیا شاہد:نوازشریف و مریم نواز کے حوالے سے 4 پروگرام کئے، جج محمد بشیر کو خط بھی لکھا کہ انسانی و اخلاقی بنیادوں پر ان کے استثنیٰ کی درخواست مسترد نہیں کرنی چاہئے۔ اب بھی معلوم ہوا ہے کہ انہیں صرف مزید 4 دن کیلئے استثنیٰ ملا ہے۔ اب بھی کہتا ہوں کہ جب تک بیگم کلثوم نواز ٹھیک نہیں ہوئیں انہیں وہاں رہنے دیں۔ دُعا گو ہوں کہ کلثوم نواز صحت یاب ہوں۔ آپ کو وہاں ایک ترجمان مقرر کرنا چاہئے۔ حسن و حسین نواز ایک شخص کو کہہ دیتے ہیں وہ آگے نشر کر دیتا ہے۔ ایک ترجمان مقرر کر دینے میں مسئلہ کیا ہے؟
پرویز رشید: موجودہ حالات میں جو دوسروں کو سہولیات ہوتی ہیں وہ نواز کو نہیں ہیں۔ پانامہ مقدمے میں اپیل کا حق بھی نہیں دیا۔ ہم نہیں کبھی نہیں کہا کہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت پر جانے کی اجازت دے دیں۔ نوازشریف کو یہ سہولت نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹروں سے مشورہ کرتے تا کہ اس پر عمل ہو سکتا۔ بدقسمتی سے جب وہ گئے تو ان کی حالت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور وہ بیہوش تھیں۔ بیٹی کو بھی والدہ سے گفتگو کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ آپ کی کاوشوں پر شکر گزار ہوں۔ آپ کی لندن میں ایک ترجمان مقرر کرنے کی تجویز ان تک پہنچا دوں گا کیونکہ یہ ان کی صوابدید ہے۔
ضیا شاہد:چودھری نثار کی گفتگو سن کر بہت دکھ ہوا۔ اگر ان کو ٹکٹ نہیں ملا تو ایسی گفتگو کہ میں راز کھول دوں گا اور جو زبان استعمال کی، عجیب بات ہے۔ ان کے پاس آپ کے لیڈر کے کیا راز ہیں؟
پرویز رشید: جن کے پاس کوئی بات نہیں ہوتی وہ اس طرح کی ہی باتیں کرتے ہیں۔
ضیا شاہد:آپ ہی ان کو ٹکٹ دے دیتے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میں نے نوازشریف کو صدر بنایا۔ میرے علم میں تو یہ بات نہیں؟
پرویز رشید: اگر چودھری نثار کے پاس صدر بنانے کا کوئی اختیار ہوتا تو وہ صرف خود کو صدر بناتے۔ انہیں اپنے وجود کے علاوہ کوئی دوسرا بھاتا نہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کے سب سے عظیم مفکر، سیاستدان، دانشور صرف وہی ہیں۔
ضیا شاہد:آپ کے ساتھ ان کا کیا جھگڑا ہے؟
پرویز رشید: کسی کا بھی ان کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں، بس وہ گرم ہوا کے پرندے نہیں ہیں۔ نون لیگ کے لئے گرم ہوا چل پڑی ہے اب وہ ٹھنڈی ہوا کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ چودھری نثار 10 بار کہہ چکے کہ میری پارٹی ہے، مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑوں گا اور کون سا مشکل وقت ہو گا۔ دوسری طرف جو وہ زبان استعمال کر رہے ہیں، میں اپنے بدترین دشمنوں کے بارے میں بھی ایسی گفتگو نہیں کر سکتا۔ سیاسی اختلافات ہوتے ہیں لیکن باہمی اخلاقیات کو بالکل نظر اندا نہیں کر دینا چاہئے۔ چودھری نثار کی باتیں سن کر دکھ ہوا وہ پتہ نہیں کس وقت کی بات کر رہے ہیں، میں تو نوازشریف کو تب سے جانتا ہوں جب وہ سیاست میں آئے تھے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv