تازہ تر ین

خانیوال کے لوگوں پر حیرت جن کے شہرمیں بیوقوف شوہر نے بیوی پر تشدد کیا کہ بد صورت بیٹی کیوں پیدا کی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جب سے نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہلی ہوئی پھر مسلم لیگ کی صدارت بنائی تو اس کے خلاف بھی فیصلہ آ گیا۔ مالی بدعنوانی کے کیسز میں اب تک خبروں کے مطابق شاید نواز شریف اور ان کا خاندان لندن فلیٹس کے سلسلے میں کوئی موثر منی ٹریل جمع نہیں کرا سکے سمجھا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں عدالت ان کا مواخذہ ضرور کرے گی۔ جوں جوں مقدمات اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں ان کے لہجے میں زیادہ تلخی آتی جا رہی ہے۔ اب تو محسوس ہوتا ہے۔ اب وہ اس پر تلے ہوئے ہیں اے پاکستان بھر کی عدالت مجھے کیوں سزا نہیں دیتے۔ غالباً ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ مجھے گرفتار کیا جائے توہین عدالت کے جرم میں کیونکہ پہلے بھی وہ کہتے رہے ہیں بدعنوانی کے ثبوت ملنے کی بنیاد پر مجھے نااہل قرار نہیں دیا گیا بلکہ اقامے کی بنیاد پر کیا گیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ اس سلسلے میں کافی ڈھیل دے رہی ہیں اس سے کافی کم گفتگو یوسف رضا گیلانی نے کی تھی یا بعض دوسرے لوگوں نے کی تھی ان پر جس سختی سے عدالت عظمیٰ نے پکڑ کی تھی معلوم ہوتا ہے عدالتیں اور فاضل جج حضرات اپنے طور پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ بجائے اس کے ان کو توہین عدالت میں گرفتار کیا جائے زیادہ بہتر ہے کہ اصل کیسز مکمل ہو جائیں اور ان کو سزا گر ہونی ہے تو وہ کسی سولڈ مالی بے قاعدگی کے سلسلے میں ہو۔ جیسا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ درست ہے ان کے وکلاءصحیح کہتے ہیں جناب نوازشریف صاحب صحیح کہتے ہیں کہ مجھ پر براہ راست بدعنوانی کا کیس ہے اور نہ ثابت ہوا۔ لیکن ماہرین کی رائے انن کے نابالغ بچے جب ان کی عمریں 18 سال بھی نہیں ہوئی تھیں ان کے نام پر 300 ارب روپے کے فلیٹس خریدے گئے لندن میں اس وقت وہ بچے نابالغ تھے اور نوازشریف کے سوا ان کے کوئی مالی طور پر ان کا نگران کوئی نہیں تھا لہٰذا ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ جو پیسے ہیں یہ نوازشریف نے خرچ کئے ہیں۔ بنیادی مقدمہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس ہے کہ انہوں نے اتنا پیسہ باہر کیسے بھیجا۔ اور ان کے صاحبزادگان نے کون سا ایسا کاروبار کیا جس سے واضح طور پر پتہ چلے کہ یہ 300 ارب روپے تھے ان کو منافع ہوا اس سلسلے میں واحد دلیل قطری شہزادے کا خط تھا کہ میں نے یہ پیسے ان کو دیئے جس کوعدالتوں نے بظاہر قبول نہیں کیالہٰذا معلوم یہ ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب کو متوقع سزاکی روشنی میں ان کے مزاج میں ایک تلخی اور انتہا پسندی آ رہی ہے۔ اور جو کچھ بھی وہ کہیں اب ان کو فراموش کر دینا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ احتساب عدالت میں بھی ان پر الزام ثابت نہ ہوا تو دو چیزیں ہیں۔ روز بروز اسحاق ڈار کے گرد گھیرا تنگ ہو رہاہے کیونکہ جس طرح عدالت نے تنگ آ کر کہہ دیا ہے کہ کب تک آپ بیمار رہیں گے۔ لندنن میں وہ سیاسی اجلاسوں، صلاح مشوروں میں شامل ہوتے ہیں بس آ کر اپنا مقدمہ نہیںبھگتتے لہٰذا اب تکک وہ چھٹی پر وزیرخزانہ ہیں۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ سے ترقی کرتے کرتے ان کا مال اسباب، پراپرٹی ایسے عروج پر پہنچی کہ واقعی ان کے سر پر ہما پرندہ بیٹھا ہوا تھا۔ اللہ ان کو صحت دے۔ لیکن ان کو واپس آنا چاہئے اور مردانگی سے جس طرح ان کے لیڈر بھگت رہے ہیں ان کو اپنے کیسز کا سامنا کرنا چاہئے یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ اگر عدالت ان کے ریڈ وارنٹ جاری کروا دے اور انٹرپول کے ذریعے ان کو گرفتار کرے۔ سکیورٹی خدشات کرے خدا کرے کسی کے لئے بھی نہ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کو جمہوری انداز میں چلانے کے لئے پرامن معاشرہ ضروری ہے اور منصفانہ طریق انتخاب ضروری ہے جس سے صحیح مستحق امیدوار جو ہے وہ کامیاب ہوکر سامنے آئیں اور اگلی حکومت مضبوط حکومت چاہتا ہوں اپنے ملک کے لئے موثر حکومت چاہتا ہوں۔ میں کبھی ججوں کے گھروں پر گولیاں چلانے اور عدالتوں پر چڑھائی کرنے اور سیاستدانوں کو جوتے مارنے اور ان کے لئے سکیورٹی خدشات پیدا کرنے کے ہرگز ہرگز حق میں نہیںہوں۔ ہم سب کو مل کر پاکستان کو پرامن ریاست بنانا چاہئے تا کہ کوئی بھی سیاسی نظام حتیٰ کہ بادشاہت کا بھی نظام سعودی عرب میں ہر تیسرے دن کیا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مخالفت کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ چودھری نثار پی ٹی آئی میں جائیںگے میں ان کے بارے میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ وہ پاکستان کی نپی تلی منفعت بخش اور آخری وقت تک مفادات کی سیاست کی ہے وہ کبھی کوئی بولڈ سٹیپ لینے کے قابل نہیں ہیں وہ اس ماحول میں رہ کر آخری وقت تک کوشش کریں کہ بقول ان کے 21 ساتھیوں کے لئے جس کو وہ رانا برادری کہتے ہیں ان کے ٹکٹوں کے لئے کوشش کر سکیں بذریعہ شہباز شریف اور شہباز صاحب کے لئے ایک بڑی مشکل ہے کہ بڑے بھائی کو خوش کریں یا پرانے دوست کو۔ یہ بڑی خبر ہے کہ تینوں نام جو آپ نے بتائے ہیں عام طور پر کہا جاتا تھا کہ عدالتیں ان کے کیوں نوٹس نہیں لیتیں۔ پرویز اشرف کا نام آنے سے ایک تو یہ تاثر ختم ہو گیا کہ نیب ہو یا جوڈیشری ہو۔ اپنے ساتھی ججوں میں سارے فرشتے تو نہیں ہو سکتے۔ ملک قیوم صاحب کے چھوٹے بھائی ملک پرویز صاحب جو ہیں وہ اس وقت وفاقی وزیر برائے تجارت ہیں اور پنجاب میں وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے بہت معتمد ساتھی بھی ہیں۔ پرویز ملک صاحب ملک قیوم کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پرویز ملک کی اہلیہ مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم پی اے بھی ہیں اور کافی سارے اداروں کی سربراہ بھی ہیں۔ اسی طرح ان کے چھوٹے بھائی میرے ذاتی دوست ڈاکٹر جاوید اکرم میڈیکل کمپلیکس کے سربراہ ہیں اور آج کل پمز یونیورسٹی اور پمز ہسپتال اسلام آباد کے سربراہ بھی ہیں یہ بڑی موثر فیملی ہے ان کے والد بھی ہائیکورٹ کے جج ہوتے تھے۔ملک قیوم کے بارے بھی الزام تھا کہ ان کی ایک ٹیپ پکڑی گئی تھی جس میں شہباز شریف ان کو کچھ ہدایات دے رہے تھے۔اس پراس وقت بڑا شورشرابہ بھی ہوا تھا۔ ملک قیوم فیصلے لکھنے میں ایک ذہین جج شمار ہوتے تھے، اگر ان کے بارے میں باز پرس شروع ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ موجودہ عدالتی نظام خود اپنے سابق ججوں کو بھی نظرانداز نہیں کر رہا۔ جس طرح سوسائٹی میں ایک عمل شروع ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی خرابی نظر آتی ہے تو اس کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے۔ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ عمل بہت آہستہ ہے۔ آرمی چیف سے بھی کسی نے سوال کیا تھا کہ سزائیں جلدی کیوں نہیں سنائی جاتیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ عدالتوںکا ایک طریقہ کار ہوتا ہے ان کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتی نظام کو بھی سمجھنا پڑے گا کہ لوگوںکے احساسات یہ ہیں کہ نیب جس کو پکڑتا ہے اس کو جلدی سزا سنائیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ زینب قتل کیس کے بعد اسی نوعیت کے مزید 89 کیسز سامنے آنے پر پچھلے دنوں ایک سیمینار کیا تھا لیکن اس کے بعد آج تک مزید 4 کیسز سامنے آ گئے ہیں اب 94 کیسز ہو گئے ہیں۔ اس پر میں نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا ہے کہ آپ نے زینب کیس پر سو موٹو نوٹس لیا تھا لیکن پھر بھی واقعات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خط اس لئے لکھا کیونکہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اب وہ کسی معاملے پر سوموٹو نوٹس نہیں لیں گے۔ چیف جسٹس کو خط میں لکھا کہ براہ کرم صورتحال کا جائزہ لیں اگر آپ توجہ نہیں فرمائیں گے تو کون یہ کام کرے گا۔ کوئی کمیشن بنائیں یا انکوائری شروع کریں کہ یہ سلسلہ کیسے رک سکتا ہے۔ سیمینار میں زینب کے والد بھی آئے تھے، میں نے ان کو نہیں بلایا تھا، وہ کہتے ہیں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔ میٹنگ ختم ہونے پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اخبار میں اشتہار دیکھ کر آئے تھے کہ زینب کے بعد مزید 89 بچیوں پر مجرمانہ حملے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری بیٹی تو چلی گئی اب اتنی خواہش ہے کہ کسی اور زینب کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ جب سنتے ہیں کہ کسی اور زینب کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے تو میں اور میری بیوی روتے ہیں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ 14 سو سال پہلے ایسا زمانہ تھا کہ جب لڑکا پیدا ہوتا تو خوشی مناتے اور بعض بدبخت بیٹی پیدا ہونے پر اسے زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن آج زمانہ اس سے بھی بدتر دکھائی دیتا ہے۔ خانیوال میں ایک خاتون کو اس لئے تشددکا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے بدصورت بیٹی پیدا کی۔ بدبخت اگر یہ بیٹی پیدا ہوئی ہے تو یہ باپ کا خون ہوتا ہے اس میں اکیلی ماںکا کوئی قصور نہیں۔ محلے و شہرکے لوگوںنے ایسے شخص کو پکڑ کر اس کا منہ کیوں نہیں کالا کیا۔ لعنت ایسے محلے پر کہ کسی گھر میں ایسا ظلم ہو اور وہ آرام سے سوتے رہیں۔ کیا دوسرے کے گھروں میں بچیاں نہیں ہیں۔ پورا شہر و خاندان قصور وار ہے، خدا کو جواب دینا پڑے گا کہ خاموش کیوں رہے۔ کسی کو ایسے عذاب دینا معاشرے کی بے حسی ہے۔ ممبر قومی اسمبلی تہمینہ دولتانہ نے کہا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت بارے لندن میں رابطہ نہیں ہوا البتہ جولوگ ان کی عیادت کرتے آئے ہیں ان سے ضرور رابطہ ہوا ہے۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ اب پہلے سے ٹھیک ہیں لیکن میرے والدکو بھی کینسر تھا ایسے میں حالت بہتر نہیں ہوئی۔ ابھی وقت لگے گا وہ ٹھیک نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ لندن میں موجود بیگم کلثوم نواز کے بیٹوں سے پوچھ کر اصل صورتحال بتاﺅں گی، ابھی ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv