تازہ تر ین

راﺅ انوار کی گمشدگی ”بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں “

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ شیخ رشید صاحب نے جب استعفیٰ دیا۔ اس وقت سیاسی پچ ایسی تھی۔ عمران خان نے بھی اس کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت طاہر القادری نے شاید ان کو راضی کر لیا ہے اور امید تھی کہ اس کے پیچھے لائن لگ جائے گی۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ شیخ رشید پہلے دبئی چلے گئے پھر ان کا آپریشن ہو گیا بعد ازاں تحریک انصاف کا بھی کوئی استعفیٰ نہیں آیا۔ شاید اسی لئے سیالوی صاحب کی جانب سے بھی استعفیٰ واپس ہو گئے۔ اب انہوں نے سوچا ہو گا کہ میں اکیلا استعفیٰ دے کر کیا کروں گا۔ ہمارے سیاستدان ایک جذباتی ماحول بنا کر اپنے مقاصد پورا کرنا چاہتے ہیں، شیخ رشید کے نہ آگے نہ پیچھے کوئی نہ بیوی نہ بچہ وہ چھڑے چھانٹ ہیں۔ ان کا اسٹائل ہمیشہ ایسا ہی ہووتا ہے۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لوگ ڈاکٹر شاہد مسعود کے پیچھے ڈنڈے لے کر پڑےہوئے ہیں کوئی کہتا ہے کہ وہ اکاﺅنٹ نہیں دے سکے انہیں پھانسی چڑھا دیا جائے۔ اداروں کی کتنی ہی چیزیں غلط ہو جاتتی ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اتنے وعدے کئے جو پورے نہیں ہوئے کہ اگر یہ مانا جاتا تو اس وقت ان کا سولہواں نام چل رہا ہوتا۔ آج جدید دور ہے۔ صرف ایک موبائل اوراس پر انٹرنیٹ کی ضرورت ہے نہ سی ڈی چاہئے نہ کوئی اور چیز۔ کتنی ہی پورنو گرافی کی سائٹس چل رہی ہیں ہر قسم کی بیہودہ سٹوری، ویڈیو، مواد اس پر موجود ہے۔ بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ہے۔ وہ علاقے کی واحد یونیورسٹی ہے۔ رفیق رجوانہ صاحب گورنر پنجاب اس کے چانسلر ہیں۔ ایک لڑکی زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتی ہے وہا ںکے استاد اجمل مہار نے اس سے کہا کہ میری بیوی آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ جب وہ لڑکی اپنے استاد کے گھر جاتی ہے۔ وہاں ایک نوجوان علی رضا پہلے سے موجود ہے۔ علی رضا قریشی کے باپ کا نام اختر عالم قریشی ہے یہ یونین کونسل کا ناظم ہے۔ اس کا چچا شاہد عالم قریشی ہے۔ وہ بھی ایک مشہور شخص ہے اور انجمن تاجران کے صدر ہیں۔ لڑکی کو استاد گھر لے کر پہنچتا ہے وہاں اس کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ اس کی ویڈیو فلم بنتی ہے۔ استاد بھی وہاں موجود ہے۔ شاگرد بھی موجود ہے۔ اس کے بعد بچی وائس چانسلر کو درخواست دیتی ہے۔ انہوں نے کتنے ہی دن یہ درخواست دبائے رکھی۔ پھر وہ لڑکی گلگشت کالونی ملتان کے ایس پی عمران جلیل کے پاس جاتی ہے اور وہاں پولیس کو درخواست دیتی ہے۔ وہ بھی اسے درگزر کر دیتا ہے ہر شخص اس کے چچا کا نام سنتے ہی خاموش ہوتا رہا۔ پولیس کو یہاں سے آمدن زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اس قسم کے کیسوں سے خوش پھرتی ہے۔ ایس پی نے ضرور اس لڑکے کے چچا کو فون کیا ہو گا اور مال متا بھی لیا ہو گا۔ ہمارے وہاں کے فوٹوگرافر کو اس کی ویڈیو فلم مل گئی۔ لوگوں نے ثبوت دکھائے اور پولیس سے کہا کہ ایکشن کیوں نہیں لیتے۔ تو پولیس نے لڑکے کو گرفتار کر لیا ابھی تک ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی۔ ایسے وائس چانسلر پر لعنت ہے جس نے اس استاد کے خلاف ایکشن نہیں لیا، پولیس نے بھی معاملہ دبانے کی کوشش کی۔ میرے پاس اس قسم کی تین ویڈیوز موجود ہیں۔ جس میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ کام لڑکیوں کی مرضی سے نہیں ہو رہا۔ جب یہاں خاتون محتسب بنی۔ ہم نے ان کا انٹرویو بھی کیا۔ تین کیسز میرے پاس آئے۔ ایک لڑکی ملتان سے ریڈیو پاکستان سے آئی تھی۔ اسے وہاں کے انچارج سے شکایت تھی ایک لڑکی گوجرانوالہ کی اور ایک لاہور کی لڑکی شکایت لے کر میرے پاس آئی تھی۔ میں تینوں کیسز میں اس خاتون محتسب سے پوچھتا رہا۔ جواب ملا۔ آج خط لکھا ہوا ہے آج پوچھا جا رہا ہے۔ وغیرہ ادارے کو ایسے ہونے چاہئیں کہ ایسی درخواست پر فوری ایکشن ہونا چاہئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب صاحب ذرا دیکھ لیں ان کا یہ ادارہ کس طرح کام کرتا ہے۔ اس واقعہ پر میں گورنر پنجاب، آئی جی پولیس اور ترجمان پنجاب حکومت سے ضرور بات کروں گا کہ آپ نے کسی قسم کے لوگ پال رکھے ہیں۔ جن سے پولیس بھی خوفزدہ ہے۔ سرگودھا میں 600 بچوں کی ویڈیو بنی۔ اس کا ملزم کمپیوٹر انجینئر تھا۔ میں نے ترجمان پنجاب حکومت سے کل بھی سوال کیا تھا آج بھی فون کروں گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کی رپورٹ پر ضرور ایکشن ہو گا۔ لیکن ابھی تک سرگودھا میں کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ میں کل رانا ثناءاللہ سے بھی پوچھا تھا کہ جناب وہاں سے رپورٹ منگوائیں پولیس نے یہ رویہ پکڑ رکھا ہے کہ جناب یہ علاقہ ہمارا نہیں ہے جہاں وقوعہ ہوا ہے۔ وہ علاقہ ہمارا نہیں ہے۔کیا چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا تعلق کسی بھی پولیس افسر کے علاقے سے نہیں ہے کیا ان مجرموں کو پکڑنا صرف ایف آئی اے کا کام ہے۔ ایک جرم جہاں سرزد ہوا ہو وہ پولیس کے کسی نہ کسی تھانے کے علاقے میں آتا ہے ڈی پی او صاحب سے پوچھنا چاہئے انہوں نے کون سا قانون پڑھ رکھاو¿ مجرم آپ کے پاس ہے ویڈیو کی صورت میں ثبوت بھی موجود ہے۔ کیوں پولیس اور ڈی پی او ایکشن لینے سے قاصر ہے۔ راﺅ انوار کے معاملے میں شاید کوئی جن وغیرہ تھے جو نظر نہیں آتے تھے۔ اس سلسلے میں جو لوگ تردید کرنے والے ہیں۔ وہی ان کے پیچھے بھی ہوں گے۔ مثال ہے کہ ”لڑکا بغل میں ڈھنڈورا شہر میں“۔ نمائندہ خبریں ملتان میاں غفار نے کہا ہے کوئی بھی پولیس افسر گلگشت کالونی واقعہ پر سامنے آ کر بتانے کو تیار نہیں ہے۔ اختر عالم قریشی وہ انجمن تاجران کا نائب صدر ہے۔ یہ تاجروں کا ایک بڑا گروہ ہے یہ لوگ باقاعدہ ملتان کا قبضہ مافیا، بھتہ مافیا اور بدمعاش ہیں اس کا بھائی شاہد عالم قریشی بھی اس کے ساتھ شامل ہے۔ غلہ منڈی میں انہوں نے مسجد کا دروازہ بند کر رکھا ہے اور وہاں قبضہ کر رکھا ہے۔ فوڈاتھارٹی کے اہلکاروں پر بھی انہوں نے حملہ کیا تتھا۔ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کا پروفیسر اجمل مہار سے بھی یونیورسٹی کی حدود میں ایک عورت کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ لیکن ٹیچر یونین نے اسے بچا لیا۔ یہ اتنا ہوشیار ہے کہ گھر میں ملازم گونگے بہرے رکھتا ہے پروفیسر کا گھر اڈا بنا ہوا ہے۔ اس لڑکی کو بھی یہ بہانے سے وہاں لے کر گیا تھا۔ اختر عالم قریشی وغیرہ ایک مافیا ہے جو ملتان میں غنڈہ گردوں کی منشیات فروشوںکی سرپرستی کرتا ہے۔ پولیں یہاں بے بس ہے۔ ابھی تک اس نے پرچہ نہیں کاٹا۔ سہراب گوٹھ کو ایجنسیاں بھی خطرناک علاقہ کہتی ہیں۔ لیکن یہاں کارروائی نہیں کرتے۔ ملزم پولیس کی تحویل میں ہے اب پروگرام کے بعد پرچہ کٹ جائے گا۔ لیکچرار کے پیچھے تنظیم آ کر کھڑی ہو جاتتی ہے۔ اجمل مہار 2010ءمیں عورت کے ساتھ پہلی مرتبہ پکڑا گیا تھا۔ 8 برسوں میں کئی لوگ بولے لیکن اسے کسی نے نہیں پکڑا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv