تازہ تر ین

کے پی کے ،سندھ ،بلوچستان اسمبلیاں توڑنے پر غور

کراچی، سرگودھا ،ملتان (نیا اخبار رپورٹ) آئندہ حکومتی سیٹ اپ کے حوالے سے حکمت عملی طے کرلی گئی ہے اور 2فروری کے فوری بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے استعفے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق 2فروری کے بعد تاریخ اس لئے رکھی گئی ہے کہ اگر اس سے قبل کوئی رکن اسمبلی مستعفی ہوتا ہے تو الیکشن میں 120 دن سے زائد کا عرصہ بنتا ہے اور اس طرح الیکشن کمشن ضمنی الیکشن کا اعلان کرنے کا پابند ہوتا ہے جبکہ اگر اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں 120 دن باقی رہ جائیں تو انتخابی قوانین کے تحت ضمنی انتخابات نہیں ہو سکتے اس لئے وہ تمام اراکین جو اگلے سیٹ اپ کے لئے مستعفی ہونے کے لئے گرین سگنل دے چکے ہیں وہ 2فروری کے فوری اور ایک ہفتے کے اندر اندر مستعفی ہو جائیں گے اور اس سلسلے کا آغاز شیخ رشید کریں گے جبکہ اس کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی غالب اکثریت قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے گی اور ساتھ ہی پیپلزپارٹی کے بعض اراکین بھی مستعفی ہونے والوں کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ انہی ذرائع کے مطابق بلوچستان سے اراکین قومی اسمبلی بھی 2فروری کے بعد مستعفی ہونے والوں میں شامل ہوں گے اور اس حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 90فیصد اراکین اسمبلی آن بورڈ ہوگئے ہیں۔ اس طرح 2فروری کے بعد سینٹ کے الیکشن کا انعقاد کسی طور پر بھی ممکن نہیں رہے گا کیونکہ کے پی کے سے اراکین صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد کے مستعفی ہونے کی صورت میں سینٹ کے الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔ 2فروری کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے نوازشریف نے وزیراعظم عباسی سے طویل صلاح و مشورہ کیا تاہم ذرائع کے مطابق وہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے سینٹ الیکشن سے قبل اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کےلئے مشاورت کا عمل تیز کرنے اور 15 فروری تک اسمبلیوں سے مشترکہ طور پر استعفے دینے کےلئے لائحہ عمل تیار کرنے کےلئے حکمت عملی وضع کرنا شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی میں ن لیگ کی اکثریت ہونے کے باعث آئندہ سینٹ کے الیکشن میں ن لیگ کی واضح برتری کے پیش نظر پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف اور آزاد امیدواروں کیساتھ ساتھ مختلف اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کےلئے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے جو 15 فروری سے قبل اسمبلیوں سے استعفے دینے کیساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ اور سندھ اسمبلیاں توڑنے پر بھی غور کیا جائیگا تاکہ ضمنی الیکشن کی گنجائش ہی نہ رہے اس لئے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو باہمی مشاورت کےلئے بھی آمادہ کیا جائیگا اگر پی ٹی آئی خیبر پختونخواہ اور پیپلز پارٹی سندھ کی اسمبلی تحلیل کرتی ہے تو بلوچستان میں ق لیگ کے وزیر اعلیٰ بھی اسمبلی توڑنے کا اعلان کرسکتے ہیں جس سے سیاسی بحران پیدا ہوگا اور مجبوراً آئندہ الیکشن کےلئے سینٹ سے قبل حکومت کو اعلان کرنا پڑیگا جس کےلئے اپوزیشن جماعتوں نے باقاعدہ مشاورت شروع کردی ہے اور شیخ رشید کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفیٰ ہونے کے اعلان کے بعد عمران خان نے بھی ان کی تائید کرنے کا عندیہ دیدیا ہے جس سے یہ امکان ہے کہ خیبر پختونخواہ اسمبلی توڑنے کیساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفیٰ ہونگے جبکہ ن لیگ کے ارکان اسمبلی جن میں غلام بی بی بھروانہ کے سمیت 5 قومی و صوبائی اسمبلی اراکین پہلے ہی مستعفیٰ ہونے کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ ن لیگ کے ہی ریاض پیر زادہ کی جانب سے بھی عَلم بغاوت بلند کرنے کی خبریں ہیں ان کے ہمراہ جمشید دستی بھی مستعفیٰ ہوسکتے ہیں ان حالات میں ن لیگ کےلئے سینٹ کا الیکشن جیتنا مشکل ہوسکتا ہے۔پاکستان کی 70سالہ سیاسی تاریخ میں دوسرے بڑے اپوزیشن اتحادکے مشترکہ انتخابی جلسے میں شیخ رشیدکے استعفی اورعمران خان کے خطاب مےں ان قباس آرائیوں کوتقویت بخش دی ہے کہ آنے والے دنوں مےں پاکستان تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی پارلیمنٹ سے استعفے دے سکتے ہیں اس بات کاقومی امکان ہے کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری دوسراپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کااعلان کریں گے بلکہ سندھ اورکے پی کے اسمبل کوتحلیل کرکے سینٹ کے انتخابات رکوانے کی کوشش کریں گے ڈاکٹرطاہرالقادری آئندہ ایک دوروزمیں اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعدآئندہ کالاتحہ عمل کے بارے میں اعلان کریں گے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالے سے دوآراءپائی جاتی ہیں حکومت متحدہ اپوزیشن کی اس تحریک کوجمہوریت کے خلاف سازش قراردے رہی ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن اپنی تحریک کوآئین اورقانون کے مطابق جمہوریت کے دائرے میں ہے بلکہ حکومت کاخاتمہ بھی جمہوری وآئینی طریقے سے ہوگاکچھ سیاسی قوتیں اس تحریک کوبلوچستان میں ہونے والی حالیہ سیاسی تبدیلی سے منسلک کررہی ہیں کھ لوگ موجودہ حکومت کوہٹاکرٹینکوکرپٹ سیٹ کی تین سال کے لئے عبوری حکومت کی قباس آرائیاں کررہے ہیں پاکستان میں اس وقت سیاسی صورتحال ایک نیاموڑاختیارکرتی نظرآرہی ہے ملک بھرمیں جلسے دھرنے احتجاج سیاسی ملاقاتیں نئے اتحادوں کی تشکیل اطلاعات کے مطابق گدی نشین سیال شریف خواجہ حمیدالدین سیالوی نے اپنے مطالبات کے حق میں 20جنوری کو داتادربارکے باہردھرنے کااعلان کیاہے جبکہ تحریک لبیک کے علامہ خادم حسین رضوی نے بھی جیل بھروتحریک کااعلان کیاہے جہاں تک دیگرسیاسی جماعتوں کاتعلق ہے وہ بھی عمومی طورجمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویوں کو اختیارکئے ہوئے ہیں، الفاظوں کی حدتک ملک کی ہرسیاسی، مذہبی جماعت جمہوریت کی نام لیواہے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ احتجاج مخالفت براکے مخالفت اورحصول اقتدارکی کشمکش میں بھیانک نتائج بھگتنے کے باوجوداپنے طرزعمل میں معیاری ومعیشت تبدیلی پیدانہیں کرسکتی، تدبر اور دوراندیشی سے عادی سیاست دانوں کو کئی فائدہ ہونے نہ ہو پاکستان اور پاکستان کے عوام کواس سے ضرورنقصان پہنچاہے 70سال سے اس وقت ملک میں جوحکومتیں برسراراقتدارہیں ان کاتعلق عوام سے ہمیشہ حصول ووٹ پارسمی رہاہے ان کے مسائل حل کرناحکمراں جماعتوں کے منشورکاحصہ نہیں بلکہ یہ اشرافیہ کے مفادات کی نگہبان ہی رہی ہماراسیاسی نظام اورجمہوریت اشرافیائی کررہی ہے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے اندرجمہوریت قائم کرتے ہیں ناکام رہی ہیں سیاسی جماعتوں کے اندرکی آمریت نے کہیں نہ کہیں ملک میں آمریت کے لئے بھی راہ ہموارکی ہے یہ سوچ غیرجمہوری ہے کہ سیاسی جماعت کاووٹ بینک سیاسی حمایت کانہیں بلکہ فرد واحد کی ملکیت ہے فقط اسی ایک سوچ کی وجہ سے نظریاتی سیاست کاخاتمہ ہوتاجارہاہے، ڈاکٹرطاہرالقادری کی جانب سے بلائے گئے اے پی سی اجلاس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے پراتفاق ہواتھااس کے تناظرمیں 17جنوری سے تحریک کے آغازکااعلان کیااے پی سی میں ویسے توتقریبا40جماعتوں نے شرکت کااعلان کیاتھالیکن اس تحریک میں جن جماعتوں نے شرکت کی ان کی تعدادکئے گئے اعلان سے کم تھی اس تحریک میں وہ جماعتیں بھی شامل تھیں جوایک دوسے زیادہ آگے جانے کوتیارہیں ان میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہے اس وقت اپوزیشن جماعتیں کوشش میں ہیں کہ مارچ سے قبل حکومت ختم کردی جائے تاکہ سینٹ میں مسلم لیگ ن کوبرتری نہ مل سکے اس وقت ملک کوجن داخلی وخارجی خطرات کاسامناہے ان میں تمام اپوزیشن جماعتوں کوسنجیدہ وفہمیدہ حکمت عملی بناتے ہوئے مفاہمت کاراستہ اختیار کرنا چاہیئے تصادم ،کشیدگی محاصمت کی فضاتخلیق کرنے سے سیاسی وجمہوری عمل کو نقصان پہنچ سکتاہے ماضی میں بھی ملک کوسیاسی کو کشیدگی اورانتشارسے ناقابل تلافی معاشی وسیاسی نظام کو نقصان پہنچ چکاہے اب ملک مزیدکشیدگی کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتاسیاسی جماعتوں کے قائدین کو کشیدگی اورتناﺅکی سیاست سے اجتناب برتنا چاہیئے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv