تازہ تر ین

شہباز شریف نے تیز ترقی کے وژن سے خو د کو منوایا ،نواز شریف

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے صدر ہیں۔ وزارت عظمیٰ سے تو وہ فارغ ہو چکے ہیں اب عدالت کی بحالی کے بغیر ان کی واپسی ناممکن ہے۔ جس طرح انہوں نے پارٹی صدارت حاصل کی ہے اسے بھی عدالت میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے بھی فارغ ہو جائیں۔ الیکشن ہمیشہ بند مٹھی کی طرح ہوتا ہے۔ نتیجہ سے پہلے کچھ بھی کہنا ناممکن ہوتا ہے۔ نواز شریف 3مرتبہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ وزیراعلیٰ رہے، وزیر رہے۔ وہ تقریباً 30 سالوں سے ملکی سیاست میں ہیں۔ حالات نارمل رہے تو شاید پھر کامیاب ہو جائیں۔ لیکن حالات ایسے نہیں ہیں کہ انہیں کلین چٹ آسانی سے مل جائے۔ عدلیہ نے جب میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تو ان کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا کہ وہ اس سے علیحدہ ہو جائیں۔ پارٹی صدارت کے لیے ترمیم کرا کر صرف ان کی انّا کی تسکین ہوئی ہے۔ نواز شریف کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ان کے خلاف یہ فیصلہ آئے گا۔ اب وہ اپنی انّا کی خاطر ناجانے کیا کیا کہتے جا رہے ہیں۔ ان کے لئے معقول رویہ یہ تھا کہ مقدمات کے فیصلے آنے تک خود کو سیاست سے علیحدہ کر لیتے اور میاں شہباز شریف کے حوالے پارٹی اور حکومت کر دیتے اور انتظار کر لیتے کہ مقدمات کے فیصلے کس طرف آتے ہیں۔ اس طرح مقدمات کے فیصلے آنے تک حکومت ان کے گھر میں ہی رہتی۔ انہوں نے نثار علی خان کی بات نہیں مانی۔ وہ ایک بات کرتے ہیں پھر اس سے بدل جاتے ہیں۔ پہلے انہوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم کہا پھر مریم نواز کے کہنے پر فیصلہ واپس لے لیا۔ مریم کو سیاست میں ابھی محنت کرنی چاہیے۔ میاں نواز شریف کے پاس اب شہباز کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ شہباز شریف اگر وزیراعظم بن بھی گئے تو وہ عدالت کے اوپر ڈنڈا لے کر تو نہیں چڑھ سکتے۔ عدالتیں آزاد ہیں اور خودمختار ہیں۔ وزیراعظم کوئی بھی ہو وہ اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کروا سکتا۔ طلال اور دانیال نے جتنا نقصان پارٹی کو پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا۔ نواز شریف بڑی متوازن گفتگو کرتے ہیں ان کے منہ سے میں نے کبھی کسی کے خلاف غلط الفاظ نہیں سنے۔ ان دونوں آدمیوں میں صرف ایک خوبی ہے کہ گالیاں دے دیتے ہیں۔ مریم اور کلثوم دونوں ہی شائستہ خاتون ہیں انکی گفتگو میں مناسبت ہے مشرف دور میں کلثوم بہت بہادری سے سیاسی جنگ لڑتی رہیں۔ انہوں نے کسی کو ایک بھی غلط لفظ تک نہیں بولا۔ سیاست میں لوگ شائستگی اختیار کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی بڑے شائستہ مزاج انسان ہیں۔ کسی نے بھی ان کی زبان سے گالم گلوچ نہیں سنا ہوگا۔ طلال، دانیال، عابد شیر علی اور سعد رفیق بھی اس رو میں بہہ گئے ہیں جہاں تمیز نہیں ہوتی۔ سیاست میں رواداری، شائستگی کو قائم رکھنا بھی بڑی خوبی ہے۔ اگر یہ اسے اپنائیں گے تو مخالفین بھی اس کا خیال رکھیں گے۔ سعد رفیق کی ٹون اب بدل گئی ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف تو عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہیں پہلے یہ خیال کیوں نہ آیا۔ میاں نواز شریف نے ناجانے کیسے کیسے لوگ اپنے اردگرد جمع کر رکھے ہیں۔ یہ خود بھی اپوزیشن لیڈر رہ چکے ہیں۔ خواجہ آصف کے والد اتنے نفیس اور تحمل مزاج انسان تھے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہم سوڈنٹ لیڈر تھے اور سارا دن ان کے کمرے میں گھسے رہتے تھے۔ کبھی ان کے منہ سے کسی نے بھی ناشائستہ لفظ تک نہیں سنا۔ خواجہ آصف کبھی کسی کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیتے ہیں کبھی ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی“ کے کلام فرماتے ہیں۔ میاں شہباز شریف متوازن گفتگو کرتے ہیں اداروں کے خلاف بھی نہیں بولتے، آج بھی میں سمجھتا ہوں کہ شاہد خاقان عباسی کی جگہ وہ بہتر وزیراعظم ثابت ہوتے۔ انہیں سب سے بڑے صوبے کا تجربہ ہے جسے وہ انتہائی عمدہ طریقے سے چلا رہے ہیں۔ آج عطاء الحق قاسمی میرے پاس آئے اور ہم کافی دیر گپ شپ کرتے رہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نوازشریف نے جو تبلیغی اپنے اردگرد جمع کر رکھے ہیں وہ انہیں اور زیادہ کارنر کروائیں گے۔ سعد رفیق کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور نواز شریف گھر پر ”تحریک عدل“ کی تفصیلات بتا رہے ہیں۔ دانیال عزیز کو تو بالکل شرم ہی نہیں آتی۔ اس کو میں نے مشرف کے بوٹ چاٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ مشرف کے کمرے کے باہر دو کمرے ہوتے تھے ایک میں طارق عزیز اور دوسرے میں یہ موصوف بیٹھتے تھے۔ اور دن رات مشرف کی مدح سرائی کرتے تھے۔ انہوں نے یہی سیکھا ہے مسلم لیگ ن میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اس میں بہت سارے میرے اچھے دوست بھی ہیں۔ میں نے عمران خان کو خط لکھا۔ بنی گالہ جا کر اس سے ملاقات کی۔ صرف اس لیے گیا کہ انہیں مشورہ دوں کہ الیکشن کمیشن کا بائیکاٹ ختم کرو اور دہشتگردی کی عدالت میں بھی پیش ہوں۔ عدالت کا احترام کرو۔ اس کا ساتھی بھی جب غلط زبان استعمال کرتا ہے تو میں عمران کو میسیج کرتا ہوں کہ اس کی زبان دیکھو۔ میں آگ لگانے والا نہیں ہوں۔ میں ملک میں صرف جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اگر ملکی حالات ایسے ہی رہے اور ”پولورائزیشن“ قائم رہی تو بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ ادھر سے عدلیہ تحریک آتی ہے مخالفین عدلیہ کے حق میں جلوس لے کر آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ اور تحریک لبیک کے درمیان کشمکش بڑھتی رہی تو سب سے بڑا خطرہ جمہوریت کے لیے ہوگا۔ الیکشن سے پہلے ہر قسم کی کشمکش ختم ہونی چاہیے۔ سیاست کے تمام فریق ہی تحمل مزاجی کا ثبوت دیں۔ دھرنوں کی سیاست کی طرف نہ جائیں۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں جلوس نکالنے کی طرف نہ جائیں۔ اور اگلے 6,5 ماہ میں الیکشن کےلئے پرسکون رہ کر تیاری کریں۔ ورنہ آپ کی کاوشیں بے کار ہو جائیں گی۔ کیونکہ ان حالات میں الیکشن ہرگز نہیں ہوسکتے۔ زعیم قادری صاحب کل کہہ رہے تھے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کرنا کوئی غیرآئینی کام نہیں۔ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ مردم شماری کے نتائج فائنل ہونے کے بعد فائنل فیصلہ ہو چکا ہے الیکشن نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہی ہوں گے اور وقت پر ہونگے۔ اگر وقت پر ہوتے ہیں تو سب کی تیاری بھی مکمل ہونی چاہیے۔ ساری پریشانیاں اس وقت تک دکھائی دیتی ہیں جب تک الیکشن مکمل نہ ہو جائیں۔ دھرنے وغیرہ کے لیے بھی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ ہم انٹرنیشنل معاملات میں بھی اس لئے الجھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہمارا وزیراعظم کسی اور کی نمائندگی کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن وہ پہلے کی نسبت بہتر طریقے سے ملک کو چلا رہا ہے۔ عارضی ہو یا مستقل، جو اچھے طریقے سے معاملات چلائے وہی اصل کام کا آدمی ہے۔ اب کوئی ایسے برے حالات نہیں ہیں کہ قوم کی پریشانی کا سب بنیں۔ ایک مسئلہ جو سب کے لیے اہم ہے وہ اکنامی ہے۔ اس میں خرابی ہوتی ہے تو ”بزنس مین“ یہاں سے بھاگ جائے گا۔ ملک اب بہتری کی طرف جارہا ہے ورلڈ بنک نے بھی ایک بڑی رقم خاموشی سے دے ڈالی ہے۔ گھبرانا نہیں چاہیے کہ ٹرمپ نے یہ کہہ دیا ہے وہ کہہ دیا ہے۔ ہر ایک شخص الیکشن کے بعد ہی کوئی نئی امیدیں لگائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف کی بریفنگ کے بعد تمام خدشات ختم ہو چکے ہیں اور جو چھوٹے موٹے ہیں وہ بھی ختم ہو جانے چاہئیں۔ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم جمہوریت کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم انتخابات کو بہتر کرانے کی کوشش کریں گے تاکہ آنے والی پارلیمنٹ وہ کام کر سکے جس کی ملک و قوم کوضرورت ہے۔ ایسی بہترین فوج اگر الیکشن کی نگرانی کرتی ہے تو کسی قسم کا ابہام پیدا نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جس طرح سپریم کورٹ آگے بڑھی ہے اور ملکی معاملات کی نگرانی کر رہی ہے وہ بہت اہم ہے۔ ایسے معاملات میں کسی قسم کا ابہام قابل قبول نہیں ہے۔ عدلیہ کے خلاف تحریک چلانا بالکل غلط بات ہے۔ تنقید کرنا تو ایک الگ بات ہے اگر وہ عدلیہ کے فیصلوں کو لیکر الیکشن کمپین کرتے ہیں تو وہ درست نہیں ہے یہ ایک غیر آئینی عمل ہے۔ ماہر قانون دان جسٹس(ر) ناصرہ جاوید نے کہا ہے کہ عدلیہ کے خلاف تحریک چلانا غیرآئینی اقدام ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی نے فرمایا ہے کہ کسی کو غیرآئینی کام نہیں کرنے دونگا۔ تو وہ نواز شریف کو روکیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ ہی حکومت کے ستون ہیں۔ عدلیہ ایسا ادارہ ہے کہ جو مظلوموں کی دادرسی کرتا ہے۔ اگر یہ تحریک چلاتے ہیں تو مظلوموں کو انصاف سے محروم کریں گے۔ عدلیہ کے خلاف تحریک توہین کے زمرے میں آتی ہے۔ عدلیہ نے برداشت سے کام لیا ہے اور توہین نہیں لگائی۔ انہیں خود بھی خیال کرنا چاہیے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv