تازہ تر ین

آرمی چیف نے سینیٹ کمیٹی میں کن اہم امور پر تفصیلی گفتگو کی۔۔۔؟

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پرمشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی گفتگو کے دو ذرائع ہو سکتے ہیں ایک براہ راست تقریر کے وقت پریس موجود ہوتا۔ دوسری آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور اس پر اظہار خیال کریں۔ ڈی جی نے کہا کہ تفصیلات چند دنوں بعد بتاﺅں گا۔ یقینا وہ بریفنگ کے بعد آرمی چیف سے اجازت لیں گے۔ اور قواعد کے مطابق آئی ایس پی آر کا بیان جاری کریں گے۔ بریفنگ میں ہونے والی گفتگو میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے کہا ہم سعودی عرب اور ایران میں جنگ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ہی بہت اہم ممالک ہیں۔ ان کے درمیان پاکستان کا کردار، جو کہ خود نیو کلیئر پاور ہے۔ جس کی فوج انتہائی ماہر اور قابل ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا اثرورسوخ بنتا ہے۔ مسلم ممالک بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے سابق آرمی چیف کو سعودی عرب بڑی محبت اور پیار سے اسلامی اتحاد کی فوج کی سربراہی کے لئے لے گیا ہے۔ ہمارے آرمی چیف نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا ہے کہ ہم یہ جنگ نہیں ہونے دیں گے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اگر ہم مسلم ممالک کی آپسی جنگ میں ہم فریق بن جاتے تو خطرناک ہوتا اس وقت ہم نے جرا¿ت مندانہ فیصلے کئے اور اس دلدل میں پھنسنے سے بچ گئے۔ پاکستانی حکومت اور فوج نے بالکل درست وقت پر فیصلہ کر کے ملک کو مسائل سے بچا لیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ملک میں ہی بنتی ہے۔ لیکن بعض لوگوں کے سامنے فوج کا ذکر ہی آ جائے تو ان کے منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں خارجہ پالیسی بناتے وقت فوج سے مشورہ بھی کیا جاتا ہے اور اعتماد میںبھی لیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں دہشتگردی بھی ہے۔ بارڈر پر خلاف ورزیاں بھی ہوتی ہیں اندرونی طور پر دیگر سکیورٹی مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں فوج کو بند کر کے تو نہیں رکھا جا سکتا ملکی حالات ایسے ہوں تو فوج کو تو ہر صورت خارجہ پالیسی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ بھارت 25، 30 سال سے مسلسل پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پالیسیاں حکومت کی بجائے فوج بناتی ہے۔ آرمی کے سربراہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ بریف بھی کیا اور سوالوں کے جواب بھی دیئے۔ یقینا وہاں سخت سوالات بھی ہوئے ہوں گے لیکن آرمی چیف نے خندہ پیشانی سے جوابات دیئے میڈیا پر دفاعی تجزیہ کار اکثر اوقات ریٹائرڈ فوجی ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں آرمی ایک کلب ہے۔ حاضر سروس والے لوگ تو مجبور ہوتے ہیں اور کھل کر بات نہیں کر سکتے لیکن تجزیہ کار اپنی رائے دے سکتے ہیں ریٹائرڈ فوجیوں کے رابطے حاضر سروس افسران کے ساتھ بھی ہوتے رہتے ہوں گے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ان تجزیہ کاروں کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ وہ ہمارے ترجمان نہیں فوج کا ترجمان ہمیشہ حاضر سروس ڈی جی، آئی ایس پی آر ہی ہوتا ہے۔ وہی ہمارا بیانیہ ہے ہمیں ڈی جی، آئی ایس پی آر کے بیانات کا انتظار کرنا چاہئے ”تک بندیاں“ اچھی بات نہیں۔ فوج کا ضابطہ کار ہوتاہے۔ یقینا ڈی جی، آرمی چیف سے اجامت لیں گے پھر میڈیا سے بات چیت کریں گے۔ میاں نوازشریف اس وقت غلط ”سٹانس“ لے رہے ہیں۔ جو معاملہ ”سب جو ڈی“ ہو۔ اس پر کائٹ فلائنگ نہیں کرنی چاہئے۔ تخمینے نہیں لگانے چاہئے۔ میاں نوازشریف نااہل ہو چکے۔ اب ان کے کیسز نیب میں ہیں۔لگتا ہے وہ کسی قانون کو نہیں مانتے۔ بینظیر نے کبھی عدالت پر کھل کر بیان نہیں دیا بلکہ گول مول بات کرتی رہیں۔ ہماری عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ میاں صاحب کے خلاف فیصلے آئے ہیں۔ بینظیر نے ایک اصطلاح نکالی کہ عدالتوں پر ”چمک“ کا اثر ہے۔ میاں نوازشریف واحد انسان ہیں جو عدالت میں پیش بھی ہوتے ہیں اور باہر آ کر ایسی کی تیسی بھی پھیرتے ہیں۔ یا تو عدالت میں پیش ہی نہ ہوں اور گھر بیٹھ جائیں۔ اب انہوں نے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو اب خود تعین کرنا ہو گا کہ آئین کا دائرہ اختیار کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ کہاں ختم ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف کو اگر تحریک چلانے کا اعلان کر رہے ہیں تو عدالتوں میں پیش نہ ہوں۔ اگر اداروں کے احترام میں پیش ہوتے ہیںتو ان کے فیصلوں کا انتظار تو کر لیں۔ چیف جسٹس آج میوہسپتال گئے۔ اچھی بات ہے لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ انہیں چاہئے کہ ایک لکیر کھینچیں کہ آئین کی خلاف ورزی کون کر رہا ہے اور کون آئین کے مطابق چل رہا ہے جج کا کوئی کام نہیں ہے کہ صفائیاں دے۔ جج کبھی پریس کانفرنس نہیں کرتے، کبھی ”ڈی فیسٹوو“ نہیں ہوتے۔ کبھی مدافعانہ لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے۔ جج کبھی نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ جس طرح نواز شریف نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں اسی طرح چیف جسٹس بھی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ بابے رحمے کی مثال ہم نے بھی سُنی ہے لیکن ہمارا ٹریک ریکارڈ مختلف ہے۔ کیا ہمارے جج نے بھٹو کو پھانسی نہیں دے دی تھی۔ پھانسی دینے والے جج صاحب نے اس وقت کہا کہ ہم نے فیصلہ بہت درست اور آئین اور قانون کے مطابق آزادی سے دیا۔ یہی جج صاحب کچھ سال بعد بیان دے رہے ہیں کہ میں اس پر شرمسار ہوں۔ اور ہم پر بہت دباﺅ تھا۔ چیف جسٹس صاحب ہم اپنی تاریخ کو کہاں لے کر جائیں۔ وزیراعظم صاحب سے ملاقاتکے دوران انہوں نے ہمیں بتایا کہ پانی کا مسئلہ ہم ورلڈ بینک میں لے کر گئے ہوتے ہیں یقینا وہاں سے ہمیں ریلیف ملے گا میں نے آبی وسائل کے وزیر جاوید صاحب کو دعوت دی ہے کہ وہ سی پی این ای کے اجلاس میں آئیں۔ ان سے مزید پوچھیں گے کہ ہم کب ”وائر“ کے مسئلے پر ورلڈ بینک میں گئے اور وہاں ہماری درخواست کہاں ہے اور اس پر کیا کارروائی ہو رہی ہے۔ جناب وزیراعظم صاحب درخواست ہے کہ آپ ”واٹر ٹریٹی“ پر ایک کمیٹی بنا دیں۔ جس میں انڈس کمشنر، اس محکمے کے افسران اور دیگر اہم لوگوں کو شامل کر دیں۔ اگر ٹریٹی کی شقوں کے تحت ہمیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے اور ان تین دریاﺅں کا پانی مل سکتا ہے۔ جو کہ یقینا مل سکتا ہے۔ وزیراعظم صاحب آپ چیف ایگزیکٹو ہیں ہم آپ سے ہی درخواست کر سکتے ہیں جن تین شقوں سے ایک فریق کو ریلیف مل سکتا ہے تو دوسرے کو کیوں نہیں مل سکتا۔ اگر ہم کشن گنگا کا کیس جیت سکتے ہیںتو ستلج اور راوی کے پانی میں بھی اپنا حصہ حاصل کر سکتے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv