تازہ تر ین

شاہد خاقان نے فلسطین کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ اٹھایا ،مبارکباد:ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ خوش آئند ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے بیت المقدس اور کشمیر پر بہت کھل کر بات کی ہے سابق وزیراعظم نے غالباً امریکہ کے پریشر پر اپنے دورے میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے کھل کر او آئی سی پر زور دیا کہ مقبوصہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کا مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے۔ ہم اس پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ جرا¿ت مندانہ انداز میں مظلوم مسلمانوں بالخصوص کشمیری اور فلسطینیو ںکے حق میں آواز اٹھائی۔ مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے فوج کا کچھ کردار تو بنتا ہے لیکن آج کی فوج پرانے زمانے کی مسلح فوج نہیں ہے جو کسی بھی جگہ پر جہاد کے لئے نکل پڑتے تھے جب سے دنیا میں اسٹیٹ کرافٹ کا دور آیا ہے اس کے تحت ریاست میں ایک حکومت ہوتی ہے۔ جو اس قسم کے مشترکہ فیصلے کرتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ”کنٹروورسی“ کشمیر پر 1948ءمیں شروع ہوئی۔ جسے مذہبی نوعیت کی کہہ سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان ہم نے آزاد کروا لیا تھا۔ اس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ جبکہ کشمیر میں نان ریگولر آرمی نے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اپنے طور پر جہادی نکلے تھے۔ ہندوستان سے علیحدگی کے وقت یہاں انگریز فوج تھی۔ اس وقت انگریز آرمی نے معذرت کر لی تھی کہ ہم ہندوستان کی آرمی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔صوبہ سرحد کے مجاہدین شمالی علاقوں اور پنجاب کے شمالی حصے کے کچھ لوگ وہاں داخل ہو گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں۔ اس وقت مولانا مودودی کا فتویٰ آیا تھا کہ جب تک حکومت اعلان نہ کرے ہم اسے جہاد نہیں کہہ سکتے، فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ جو وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے۔ لہٰذا ہمارے فوجی حکومت کی مرضی کے بغیر خود سے جہاد کےلئے نہیں نکل سکتے۔ اسلامی اتحادی فوج کی ابھی باقاعدہ شکل نہیں بنی۔ اس میں تمام مسلم ممالک سے ہتھیاروں سمیت فوجی دستوںکو اس میں شامل کیا جاتا تھا۔ اس کی باقاعدہ میٹنگ پچھلے ماہ ہونی تھی۔وہ ابھی تک نہیں ہوئی۔ ملک میں اگر دھرنوں کی صورت ”پولرائزیشن“ اگر بڑھتی جاتی ہے تو ہمیںبہت نقصان ہوگا۔ ڈالر جس طرح سے مہنگا ہو رہا ہے۔ اس سے 130اشیاءبہت مہنگی ہو جائیں گی۔ اگلے بجٹ کےلئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اس کےلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اسی طرح چین سے قرضہ لیا جارہا ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں لوگوں کا کچومر نکلتا جا رہا ہے۔ اکنامی صورتحال کے پیش نظر ہم معاشی خود کشی کی طرف جا رہے ہیں۔ دھرنے کے دو فریق تھے۔ ایک ڈاکٹر طاہرالقادری، ان کے لوگ شہید ہوئے۔ بقول ان کے انہیں انصاف نہیں مل سکا۔ دوسرے فریق وزیرقانون پنجاب رانا ثناءاللہ تھے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ پر وہ قبول کر چکے ہیںکہ رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ ان کا تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ مار دھاڑ کا انہوں نے حکم نہیںدیا تھا۔ رانا صاحب استعفیٰ پر ڈٹے ہوئے ہیں ہم نہیںچاہتے کہ محاذ آرائی بڑھتی جائے۔ بات پھر دھرنوں، گلیوں اور سڑکوں پر آ جائیگی۔ یہ معاملات عدالتوں تک محدود رہیں تو اچھا ہے۔
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
لگتا ہے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے دونوں فریق یہی چاہتے ہیںکہ ان کے ساتھ ایک باری ہاتھ ہو ہی جائے۔
فاٹا جو کہ وفاق کے کنٹرول والا علاقہ کہلاتا ہے۔ یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ علاقے کسی صوبے کا حصہ بھی نہیں ہے۔ لہٰدا وہاں ایم پی اے کوئی نہیں ہوتا لیکن سنیٹرز اور ایم این ایز ہوتے ہیں۔ سنیٹرز ملکی قانون کے مطابق ووٹ بینک وہاں کے ایم این ایز ہوتے ہیں۔ یہ ایک اسٹاپ گیپ بندوبست ہے جو گزشتہ (10) سالوں سے چل رہا ہے۔ وہاں کے قانون کو سب ”کالا قانون“ کہتے تھے۔ کیونکہ وہاں عوام کو بنیادی حقوق حاصل نہ تھے۔ وہاں صوبوں کی مانند پولیس اور عدالتیں موجود نہیں تھیں۔ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں بنیادی حقوق دیئے جائیں۔ اب جھگرا یہ ہے کہ کچھ جماعتیں جسے تحریک انصاف جس کی حکومت وہاں موجود ہے کے پی کے کی آبادی تقریباً ساڑھے تین کروڑ ہے جبکہ فاٹا کی آبادی (50) لاکھ تک ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اسے کے پی کے میں ضم کروانا چاہتے ہیں تا کہ صوبے کا درجہ مل جائے جبکہ مولانا فضل الرحمن اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فاٹا کو اگر الگ صوبہ بناتے ہیں تو پھر ظاہر ہے آرٹیکل (ون) کے تحت تبدیل کرنا پڑے گی۔ یہ ایک آئینی ترمیم ہو گی جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کے پی کے میں ضم کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ رائے معلوم کرنے کا بہترین طریقہ ریفرنڈم ہے۔ پچاس لاکھ کی آبادی کا الگ صوبہ بنتا نہیں۔ وکلاءقانون کے محافظ ہوتے ہیں۔ قانون ان کی جیب میں ہوتا ہے۔ وہ جب چاہیں ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔وہ تگڑے ہیں۔ کوئی ان سے ٹکر نہیں لے سکتا، ملتان میں جو کچھ ہوا وہ درست نہیں ہے۔ سابق وزیرخارجہ، خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ او آئی سی کی میٹنگ ایک خوش آئند عمل ہے۔ بدقسمتی سے یہ ادارہ تنازع کا شکار ہے بالخصوص سعودی عرب اور ایران کے آپس کے تنازعات کی وجہ سے مسلم امہ جس کردار کی اس سے توقع کر رہی تھی۔ وہ ادا نہیں کیا۔ بڑے اسلامی ممالک نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ پاکستان اور ترکی کی پوزیشن ذرا مختلف ہے۔ ہمارے اندر کے مسائل بہت الجھے ہوئے ہیں جس کی بناءپر ہماری حکومت وہ موقف نہیں اپنا رہی جو اسے اپنانا چاہئے۔ ہمارے دور میں ہم نے یورپی یونین کو ساتھ ملا لیا تھا، اس طرح ترکی نے سپین کے ساتھ مل کر ڈائیلاگ شروع کئے۔ ترکی کے مسائل ایسے نہیں جیسے ہمارے ہیں اس لئے اسلامی دنیا کے اتحاد کے لئے ترکی جو رول ادا کر سکتا ہے وہ ہم نہیں کر سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے زعیم قادری نے کہا ہے کہ محترم ضیا شاہد صاحب پورا پاکستان آپ کی محب الوطنی کا شاہد ہے اور یقینا تاریخ میں بھی آپ کے کردار کو یاد رکھا جائے گا۔ لوگ آپ کو جانتے ہیں کہ آپ اپنے اخبار اور جریدوں کے ذریعے پاکستانیت کی حمایت کرتے ہیں موجودہ سیاسی تناظر میں ”میکرو اکنامک اینڈی کنٹینرز“ کو اگر دیکھا جائے جو کہ کسی بھی ملک کے لئے روح کی غذا سمجھی جاتی ہے اس میں سیاسی عنصر کی مضبوطی سب سے اہم ہے۔ آپ کی کاوش پر لوگ معترف بھی ہیں اور شکر گزار بھی۔ ہم عدالتوں کے رخ کو اور ”کورس آف لائ“ کو کبھی بھی ”ڈائیورٹ“ نہیں کر رہے۔ ہم اس پر کلیئر ہیں ہم نے نا چاہتے ہوئے بھی عدالتوں کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کیا۔ عدالت سے ہارڈ کاپی ملنے سے قبل ہی میاں نوازشریف استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر ہم رپورٹ کو روک سکتے تھے۔ اوراسے لے کر سپریم کورٹ جا سکتے تھے۔ اس سے ہائیکورٹ کا فیصلہ رک جاتا۔ پھر اس میں 30 دن لگتے یا 30 سال اس میں ہماری ذمہ داری نہ تھی۔ لیکن اگر اب یہ رپورٹ چیلنج کی جاتی ہے تو ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ طاہر القادری نے کہا کہ میں اسے ”ڈلے“ کرواﺅں گا تا کہ آنے والی حکومت ہمارے حق میں فیصلہ دے دے۔ ہم نے اس فیصلے کو ”کنکلوسوو“ بنانے کے لئے انتہائی ماہر جج صاحب کو متعین کر دیا کہ آپ بتائیں اسے کس طرح کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ طاہر القادری جسٹس نجفی کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے بلکہ وہ اس کے خلاف کورٹ میں چلے گئے۔ لہٰذا جواب الجواب میں ہمیں خود ہی جواب دینا پڑا۔ کیونکہ مدعی موجود ہی نہ تھا۔ جے یو آئی (ف) حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ فاٹا کے پس منظر پر آپ کی نظر تو ہے ہی۔ 70 سال سے یہاں کالے قانون کا راج ہے اس کالے قانون کو ختم کرنے کے لئے فاٹا اصلاحات کے نام سے ایک جدوجہد جمہوری حکومت نے شروع کی ہے۔ اس کی تین صورتیں تھیں ایک یہ کہ ایف سی آر برقرار رہے۔ یا فاٹا، کے پی کے میں ضم ہو جائے۔تیسری صورت اس کو علیحدہ حیثیت دیتا ہے فاٹا کے عوام کیا چاہتے ہیں یہ کسی نے نہیں پوچھا۔ جے یو آئی (ف) نہیں چاہتی کہ ایف سی آر مسلط رہے۔ علیحدہ صوبے کو بھی عوام پر مسلط کرنا درست نہیں۔ البتہ ہم چاہتے ہیں۔ اتنے بڑے فیصلے سے قبل عوام سے ضرور رائے لی جانی چاہئے۔ فاٹا کے عوام کی رائے ایک نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی بھی رائے اس پر ایک نہیں ہے۔ اس صورت میں انضمام کا فیصلہ درست نہیں۔ فاٹا پر فیصلہ مسلط کیا گیا تو انتشار بڑے گا اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے گا تو امن قائم رہے گا ہم اپنی رائے کسی پر بھی مسلط نہیں کرنا چاہتے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv