تازہ تر ین

فاطمہ بھٹو کا بڑا انکشاف ہے کہ زرداری ہی نہیں بینظیر بھٹو بھی کرپٹ تھیں:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ تاشقند میں پاکستان کا سودا ہو گیا تھا۔ ایوب خان نے انڈیا سے کوئی ساز باز کر لی تھی۔ میں تاشقند کا راز بتاﺅں گا۔ بھٹو راولپنڈی کے جلسے میں کہتے لاہور کے جلسے میں راز بتاﺅں گا۔ لاہور ہوتے تو کہتے کراچی کے جلسے میں بتاﺅں گا۔ اسی طرح انہوں نے اقتدار میں آٹھ سال گزار دیئے۔ بالآخر ضیاءالحق کے ہاتھوں معزول ہوئے اور پھانسی چڑھ گئے لیکن آٹھ سال کے عرصے میں انہیں موقع نہیں مل سکا کہ تاشقند کا راز فاش کر دیتے۔ سیاست دان کا یہ انداز ہوتا ہے کہ عوام کو کسی نہ کسی طرح مصروف رکھے۔ مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی (فاطمہ بھٹو) کی کتاب چھپ چکی ہے۔ انہوں نے اپنے والد کے قتل کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں آصف زرداری کا بھی ہاتھ تھا۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اس میں میری پھوپھو بھی شامل تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ میں نے جب بینظیر کو فون کیا تو زرداری نے ان سے بات نہیں کروائی اور کہا کہ وہ صدمہ میں ہیں فاطمہ بھٹو ایک لبرل خاتون لگتی ہیں۔ انہوں نے کہا بھٹو صاحب کی رہائی کے لئے جتنے پیسے سعودی عرب اور دیگر ممالک سے ملے تھے۔ وہ ان کے والد نے ایک یونانی ایکٹریس کو بخش دیئے تھے۔ وہ ان کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے۔ اس خاندان کے سارے ہی لوگ لبرل ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے بچے بہت بولڈ ہوتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ بلاول بھٹو کبھی آصف زرداری سے لڑائی نہیں کریں گے اس لئے امید ہے کہ وہ اپنے والد کے راز فاش نہیں کریں گے۔ پیسہ، دولت ساری آصف زرداری کے پاس ہے۔ ان کے بچے بلاول ہوں یا بیٹیاں ان سے لڑائی لے کر کیا کریں گے۔ تمام بینک اکاﺅنٹ، جائیدادیں اور سب کچھ ان کے پاس ہے۔ بچے ان سے کیسے لڑائی کر سکتے ہیں۔ صفدر عباسی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ لاڑکانہ، پیرس کیسے بن گیا۔ اور بھٹو خاندان اتنا لبرل اور ماڈرن کیونکر بن گیا؟ میرے دوست راجہ انور، بھٹو صاحب کے او ایس ڈی تھے۔ انہوں نے بعد ازاں جلاﺅ گھیراﺅ بھی کروایا۔ راجہ انور بعد میں افغانستان چلے گئے اور وہاں گرفتار ہو گئے۔ ڈبل چرغی جیل میں بند رہے۔ انہوں نے مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے ساتھ طویل عرصہ گزارا انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ”ٹیریرسٹ پرنس“ ہے۔ (دہشت گرد شہزادہ) اس میں انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ بھٹو کے صاحبزادہ کس طرح دہشت گرد بنے اور پھر پکڑے گئے۔ سلام اللہ ٹیپو جو جہاز لے کر گیا تھا کس طرح ان کے خلاف کارروائی ہوئی۔ فاطمہ بھٹو نے بینظیر پر جو الزام لگائے ہیں اس کے ثبوت ایک کتاب میں ملتے ہیں جو کلاسک لاہور والوں نے چھاپی تھی۔ ایک طویل انٹرویو ہے سابق صدر فاروق لغاری کا۔ جب انہوں نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو کرپشن کی بنیاد پر ”ڈسمس“ کیا تھا۔ اس کتاب میں ہر دوسرے تیسرے صفحے پر ایک نیا کیس ہے۔ انہوں نے اس پر ایک ایک نام اور ادارے کا نام لکھا ہے کہ آصف زرداری نے کس کس کی تعیناتی پر کتنے کتنے پیسے وصول کئے اور اس میں سے کتنا حصہ بینظیر بھٹو کو ملا۔ تاریخ کا حصہ ہے کہ ناہید خان، بینظیر بھٹو کیلئے منسٹروں اور وزیروں سے پیسے لیا کرتی تھیں۔ ناظم حسین شاہ صاحب ان کے ایک وزیر ہوتے تھے۔ وہ ملتان سے تھے۔ جنہوں نے نوازشریف کو بھی ایم پی اے کی سیٹ پر ہرایا تھا۔ ان کے پاس بلدیات کی وزارت تھی۔ وہ میرے ساتھ جاگنگ کیا کرتے تھے۔ ایک دن انہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ وہ ہسپتال میں تھے۔ جب صحت یاب ہو کر گھر آئے تو میں نے ان سے سوال کیا کیا پریشانی ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک رات میں وزارت بلدیات مجھ سے لے کر ممتاز کاہلوں کو دے دی گئی۔ وہ کہتے تھے کہ بینظیر بھٹو شریف اور دیانتدار خاتون ہیں۔ لیکن ناہید خان ان کے نام پر لوٹ مار کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مجھ سے انہوں نے 50 کروڑ روپے مانگے۔ انہوں نے بتایا کہ محصول چونگیوں کے ٹھیکے دیئے جاتے تھے۔ بینظیر نے ناہید خان سے کہا کہ ہمارا حصہ تو پہلے دے دو۔ ناظم حسین شاہ نے انہیں کہا کہ ذرا ٹھہر جاﺅ ہمارا پیسہ تو مل جانے دو اس پر وہ ناراض ہو گئیں اور اسلام آباد جا کر ان کی وزارت ختم کروا دی۔ اور کسی اور منسٹری میں بھیج دیا گیا۔ یہ سن کر انہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ اسلام آباد دھرنا تو ختم ہو چکا۔ لیکن اس کا دوسرا حصہ ابھی باقی ہے کہ تحقیق کر کے بتایا جائے کہ اس کا اصل ذمہ دار کون تھا اور اس طرح سازش کرنے والوں کو منظر عام پر لانا ابھی باقی ہے۔ رانا ثناءاللہ پر الزام تو لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کے بارے کبھی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ ان کا قادیانیوں سے کوئی واسطہ ہے۔ لاہور دھرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ رانا ثناءاللہ استعفیٰ دے۔ پہلے معلوم تو ہو کہ ان پر الزام ہے کیا۔ اگر ضرورت پڑے تو میں خود ان کے گھر چلا جاﺅں معلوم کرنے کے لئے کہ آپ پر یہ الزام کیوں لگے ہیں۔ اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ راجہ ظفر الحق پہلے بھی ایک کمیٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ ایک انتہائی شریف اور دیانتدار انسان ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں کہ معاہدے کے دوسرے حصے پرکب کب کام مکمل ہو جائے گا یا اس میں بھی لمبا عرصہ لگے گا۔ اسلام آباد دھرنے کے لئے فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت طلب کیا گیا۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعتراض اٹھایا ہے۔ جبکہ فوج کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ یہ ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتا ہے کیا راجہ صاحب آپ کا کیا ہوا کام ضائع چلا جائے گا۔ ایک قانون دان کی حیثیت سے راجہ ظفر الحق بتا سکتے ہیں کہ اس مسئلے کا اب حل کیا ہو گا۔ پنجاب میں بھی ایک مسئلہ اٹھا تھا اور رانا مشہود پر الزام لگا کہ اس کے لئے بھی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس دھرنے کیلئے بھی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے کیا رانا مشہود نے واقعی فیوچر ویژن والوں سے پیسے لئے تھے۔ اس کی تو ویڈیو بھی جاری ہوئی تھی۔ ایسا لگتا ہے جو معاملہ راجہ ظفر الحق صاحب کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے اس کی رپورٹ ہی سامنے نہیں آتی۔ صدر پی پی پی ورکرز کے صفدر عباسی نے کہا ہے کہ فاطمہ بھٹو نے اپنی پھوپھی بینظر بھٹو پر الزام ضرور لگایا ہے لیکن میری نظر میں انہوں نے کبھی کسی وقت بھی کرپشن نہیں کی۔ انہوں نے سوئس اکاﺅنٹس کیلئے بھی اوپن اینڈ فیئر لڑائی لڑی۔ آصف زرداری کی سیاست کی وجہ سے پی پی پی کو بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ بینظیر بھٹو صاحبہ کی سیاست مختلف تھی۔ وہ فوج کے آگے جب سرنڈر کر رہی تھیں زرداری صاحب امریکہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بھٹو خاندان کے بچے کافی عرصہ سے بیرون ملک سیٹل ہیں۔ وہ سیاسی طور پر بھی ایکٹو نہیں ہیں۔ ان کی بیرون ملک کیا سرگرمیاں ہیں نہیں بتا سکتا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے ان کے بچوں سے زیادہ ملاقات نہیں رہی۔ میں اور میری بیوی اپنے اوپر لگنے والے ہر الزام کی تردید کرنے کو تیار ہیں۔ ہم نے کبھی پیسے نہیں لئے۔ نہ ہی بی بی شہید کیلئے کوئی رقوم جمع کیں۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ دھرنا مظاہرین سے معاہدہ وزارت داخلہ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اس پر احسن اقبال اور ان کے سیکرٹری داخلہ کے دستخط ہیں۔ حکومت نے فیصلہ کرنا ہے کہ اگلے مرحلے کیلئے کوئی آل پارٹیز کمیٹی بنائی ہے۔ یا انہوں نے فیصلہ کرنا ہے۔ میرے سپرد یہ معاملہ نہیں ہے کہ میں انکوائری کروں کہ اس میں کون کون ذمہ دار تھے۔ ترمیم والا معاملہ سینٹ میں پاس ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں آیا۔ یہاں سے پاس ہونے کے بعد دوبارہ سینٹ میں گیا۔ وہاں حمداللہ صاحب نے اعتراض اٹھایا۔ اس پر میں نے ان کی تائید کی اور زاہد حامد صاحب کو بھی یہ کہا کہ آپ اس بات کو فوراً قبول کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ جب ٹینشن بڑھی تو قومی اسمبلی میں سپیکر صاحب نے سب کو اکٹھا کر کے اس بل کو دوبارہ پاس کروایا۔ دوبارہ سینٹ میں آیا اور وہاں بھی پاس ہوا۔ اس وقت میاں صاحب نے 3 رکنی کمیٹی بنائی جس میں مشاہد اللہ، احسن اقبال اور میں اس میں شامل تھے۔ مجھے کنوینئر بنایا گیا احسن اقبال امریکہ چلے گئے۔ میں نے میاں صاحب سے کہا کہ آپ 24 گھنٹوں میں رپورٹ پر اصرار کر رہے ہیں باقی ممبر تو موجود نہیں ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ اپنی رپورٹ دے دیں۔ یہ ایک لمبا معاملہ تھا جو 2014ءمیں شروع ہوا تھا۔ اور نومبر 2017ءتک گیا۔ متعلقہ افراد سے مشورہ کر کے ہم نے رپورٹ دے دی۔ ضمنی قسم کی رپورٹ دے دی۔ جو ڈیڑھ صفحے پر مشتمل تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جو فوج کے حوالے سے بیان دیا ہے اس کے بارے رائے نہیں دے سکتا۔ رانا مشہود کے کیس میں کمیٹی نے قریب سے اس کو دیکھا۔ اس میں موجودہ گورنر پنجاب بھی شامل تھے۔ وہ بھی کمیٹی کے رکن تھے۔ میں نے رانا مشہود کو اس میں بَری کر دیا تھا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv