تازہ تر ین

سلیمان داود نے واپسی کیلئے یو این اویا برطانیہ کی گاڑی مانگی :یوسف رضا گیلانی


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ ماننا پڑے گا آج مسلم لیگ (ن) اسمبلی میں اکثریت دکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے تھا کہ 70کا ٹولہ ان سے علیحدہ ہو چکا ہے ایسا ہر گز نہیں ہوا۔ میاں صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وہ مینڈکوں کو ایک گھڑے میں اکٹھا رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تناﺅ موجود ہے۔ کچھ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں کچھ گلے شکوے کر رہے ہیں۔ مجھے کسی صاحب نے لندن سے مٹھائی بھیجی ہے۔ انہوں نے کہا میرے لیڈر کامیابی سے نکل گئے ہیں اور دشمن ناکام رہے ہیں۔ دوسرے دوست نے مجھے فون کیا اور کہا کہ نااہل وزیراعظم کے لئے اتنے سارے پارلیمنٹیرین نے ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے کہا! معاف کرنا پاکستانی قوم میں غیریت نام کی کوئی چیز نہیں انہوں نے کہا! لفظ ذرا سخت ہیں لیکن پاکستان کی قوم بے غیرت ہے عدالت نے جس شخص کو نااہل کر دیا۔ اسے پھر چن رہے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ اس شخص کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔انہوں نے کہا اسی طرح اپوزیشن بھی بہت نااہل ہے جو اوپر سے مخالف ہیں اور اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ نوید قمر نے گنوائے کہ کتنے لوگ ہیں جو ابھی تک نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے تیسری بات بھی کہی اسٹیبلشمنٹ نااہل ہے۔ میں ڈرتا ہوں 1971ءکی طرح نابالغ اور نااہل اسٹیبلشمنٹ اپنا ایک اور ٹکڑا نہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ عمران خان نے پہلے سے گنتی کر لی ہو گی کہ میرے ایک ووٹ سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ اسی لئے وہ پارلیمنٹ میں نہیں گئے میں نے جب بھی انہیں فون کیا انہیں مشورہ دیا کہ پارلیمنٹ میں جانا چاہئے۔ جس سسٹم پر آپ یقین نہیں رکھتے پارلیمنٹ میں نہیں جاتے۔ تو کس طرح قوم کو راضی کریں گے کہ آپ کو چن کر اس میں بھیجیں۔ شاید عمران خان نے سمجھ لیا ہے کہ انہیں نااہل کر دیا جائے گا۔ اسی لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی تحریک جاری رکھوں گا۔ عمران خان کو پھر بھی پارلیمنٹ میں ضرور جانا چاہئے۔ ایک مرتبہ مغربی پاکستان کی پارلیمنٹ میں باقی بلوچ کو تو گولی مار دی گئی تھی۔ لیکن خواجہ محمد صفدر صاحب جن کے بیٹے یہ خواجہ صاحب ہیں۔ لیکن ان میں ان کے جیسی خوبیاں نہیں ہیں خواجہ صفدر بہت محنتی، مخلص پارلیمنٹرین تھے۔ وہ بہت محنت کرتے تھے۔ وہ رات کو ایک بجے بھی کتابوں میں الجھے ہوتے تھے۔ سیف اللہ خان، رحمت اللہ ارشد، افتخار احمد انصاری باقی بلوچ یہ لوگ اتنی محنت کرتے تھے کہ شاید 11 یا 13 بندوں کی اپوزیشن تھی لیکن وہ ایک ایک چیز میں بل روک لیتے تھے۔ اور کتنے کتنے مہینے بل رکوا لیتے تھے کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق غلط ہے۔ پارلیمانی پریکٹس کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ اس کے ساتھ جڑے رہیں۔ یہ ضیاءالحق کے دور میںہوا کہ ہاتھ اٹھا کر فیصلہ دےے دو۔ کوئی پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو۔ اب تعلیم کی شرط بھی ختم کر دی ہے دعوے سے کہتا ہوں 70 سے 80 فیصد پارلیمنٹیرین بجٹ کی انگریزی میں کاپی پڑھ ہی نہیں سکتے۔ ظفر اللہ جمالی کے ساتھ بڑے قریبی تعلق ہیں میں نے ان کے ساتھ دنیا کے مئی ممالک میں دورہ کیا۔ میری پہلی کتاب آئی تو وہ ڈیرہ مراد جمالی میں تھے۔ انہوں نے مجھے وہاں سے فون کیا اور اب میری نئی کتاب بھی وہ پڑھ کر مجھے بتاتے ہیں کہ تم نے کتاب میں فلاں واقعہ لکھا ہے۔ ولاں بات لکھی ہے۔ وہ پرانے پارلیمنٹیرین ہیں۔ وزیر، وفاقی وزیر، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سب رہ چکے ہیں۔ لیکن اس قسم کی سیاست کہبازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگےہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگےوہ پارلیمنٹ کو تماشا کہتے ہیں۔ عدالت کیا فیصلہ کرے کوئی اس بارے حتمی رائے نہیں دے سکتا۔ عدالت کیلئے مشکل بن گئی ہے اگر وہ الیکشن کے ترمیمی بل کو برقرار رکھتی ہے تو یہ ٹرینڈ بن جائے گا۔ آپ نے قتل کیا پھانسی کی سزا ہوئی آپ کو اکثریت حاصل ہے۔ اسمبلی اسی شق کو ہی اڑا دے جس کے تحت آپ کو سزا ہوئی ہے۔ آپ اس کو جمہوریت کی فتح کہہ سکتے ہیں آزاد عدالتیں کیا اس کو تسلیم کر لیں گے کہ بندہ پھانسی پانے والا تھا کہ اچانک فیصلہ کر دیا جائے کہ یہ شق کینسل اور 302 کے سب ملزم بری۔ میاں نوازشریف کو خیال آیا کہ ہم نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ آﺅ اس پر اب بات کو لو۔ لیکن اس کے شاید 50 فیصد چانسز نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی وہ آپس میں ایک ہیں۔ یہ ایک تھیوری اسلام آباد میں موجود کہا جاتا ہے کہ اندر خانے ان کے رابطے موجود ہیں۔ آصف زرداری کسی وقت بھی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ نوازشریف بڑے بھائی ہیں ان سے بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ 2018ءکے الیکشن کے لئے اپنی پہچان قائم رکھنے کیلئے نوازشریف سے بات نہ بھی کریں۔ میرے خیال کے مطابق پی پی پی کے پنجاب میں کوئی طاقتور شخصیت موجود ہی نہیں ہے سوائے قمر زمان کائرہ کے۔ شاید وہ اپنی سیٹ نکال سکیں۔ وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں تو پی پی پی کے پاس نمائندے ہی موجود نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار میرے بہت پرانے دوست ہیں کافی کوشش کے باوجود ان سے فون نہیں ہو سکا شاید وہ علیل تھے۔ پچھلے دنوں میں کوئٹہ گیا۔ وہاں کونسل آف ایڈیٹرز کی ملاقات ڈاکٹر مالک صاحب سے ہوئی۔ تمام اخباروں کے ایڈیٹرز وہاں چائے پر موجود تھے۔ انہوں نے عجیب بات بتائی۔ جب ہم نے پوچھا کہ باغی ارکان جنہیں آپنے منا کر لانا تھا کہاں گئے۔ انہوں نے انکشاف کیا۔ میں نے جنیوا، لندن سب جگہ براہمداغ بگٹی سمیت تمام بلوچ رہنماﺅں سے ملا ہوں اور وہ بغیر کسی شرط کے واپس آنے پر تیار ہوگئے تھے۔ جب میں نے وزیراعظم نوازشریف کو بتایا۔ اس پر انہوں نے کہا ہم سوچ کر بتاتے ہیں۔ اتنے عرصہ میں ان کی مدت ختم ہو گئی اور ن لیگ کے وزیراعلیٰ اقتدار میں آ گئے۔ کیا واقعی ایسی صورتحال تھی کیا غلطی نہیں کی کہ انہیں قومی دھارے میں نہیں لا سکے؟ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پی پی پی نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ انہوں نے سینٹ میں بھی بل پاس کروایا کہ نااہل شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا۔ ادھر بھی انہوں نے کوشش کی اور 98 ووٹ لئے۔ خدا نہ کرے کہ 1971ءکا واقعہ دوبارہ رونما ہو۔ مگر پارلیمنٹ آزاد اور خود مختار ہے وہ خود فیصلہ کرتی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو کافی اختیارات مل گئے تھے۔ اس لئے اپنے دائرہ اختیار سے باہر جانا اتنا آسان نہیں ہے کہ جو خدشات آپ کو نظر آ رہے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں۔ اس میں اسٹیبلسمنٹ کا کیا رول ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تو پارلیمنٹرین کے ووٹوں کا معاملہ ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رول نہیں ہے۔ جب میں وزیراعظم تھا۔ مجھے ڈی جی، آئی ایس آئی نے بریفنگ دی تھی بلوچستان کے بارے ان کے خیال کے مطابق وہاں انڈیا کی بہت زیادہ دخل اندازی موجود تھی۔ وہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں آپ اس کا کوئی حل نکالیں۔ ہم نے آعاز حقوق بلوچستان پر کام کیا۔ جتنے بھی قرارداد اس دن تک بلوچستان اسمبلی کے پاس کئے تھے ہم نے من و عن ان سب کو تسلیم کر لیا۔ اور ان کی رائلٹی کیلئے ان کی تمام تر ڈیمانڈز پوری کر دیں۔ ہم نے آغاز کر دیا تھا کہ مثبت قدم اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اتنے بھی حالات خراب نہیں کہ ہم بلوچستان کو سنبھال نہ سکیں۔ جب میں وزیراعظم بنا ہم نے بلوچوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ ڈاکٹر مالک اور نواب صاحب بھی میرے قریبی دوست ہیں میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ اس وقت ان بلوچ رہنماﺅں نے شرط رکھی تھی کہ ہماری گارنٹی یو این او، یا برطانیہ دے۔ ہم نے جواب دیا نہیں یہ ہمارے اپنے ملک کا مسئلہ ہے اس کی گارنٹی میں اپنے اداروں سے آپ کو معافی دلواتا ہوں آپ تشریف لائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت وہ بغیر کسی شرط کے واپس آنا چاہ رہے تھے تو یہ بہترین موقع تھا۔ حکومت نے اس پر کام نہ کر کے غلطی کی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv