تازہ تر ین

امریکہ ناموس رسالت قانون بدلنے کے در پے ،ضیا شاہد کے پروگرام میں اہم انکشافات


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے صرف حکومت ہی نہیں ہم سب ہی اسلام کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن پاک تو انسان کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے گائیڈ بگ ہے، اسمبلی کارروائیوں، جلسوں و دیگر تقریبات میں تلاوت قرآن محض ایک خانہ پری کے طور پر کی جاتی ہے کوئی اس کے معانی پر غور نہیں کرتا۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی اسلام کو ووٹ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں ایک جماعت کا انتخابی نشان کتاب ہے وہ اسے اللہ کی کتاب بنا کر ووٹ مانگتی ہے۔ اسحاق ڈار کو دوستانہ مشورہ ہے کہ استعفیٰ دیدیں۔ وزیر قانون زاہد حامد کو بھی استعفیٰ دے دینا چاہئے کیونکہ غلطی کسی کی بھی ہو وزیرقانون تو وہی تھے جنہوں نے ترمیم منظور کرائی۔ 14 ویں ترمیم کے تحت ارکان اسمبلی اپنی قیادت کی جانب سے کی گئی ترامیم کو ماننے پر مجبور ہیں تاہم دینی معاملات میں انہیں احتیاط سے کام لینا چاہئے کہ کہیں الفاظ کی ہیرا پھیری کے ذریعے کوئی ایسا مطلب پوشیدہ نہ ہو جس میں شرارت ہو۔ اس معاملہ پر ایاز صادق اور راجہ ظفر الحق سے وضاحت لینی چاہئے۔ راجہ ظفر الحق بڑے دینی اور سنجیدہ رہنما ہیں ان کا فرض ہے کہ قوم کو آگاہ کریں کہ انہوں نے معاملہ پر کیا کہا، مذاکرات کا خلاصہ کیا نکلا، اصل حقائق کو قوم کے سامنے لائیں۔ موجودہ وقت میں دینی معاملات میں انتشار پیدا کرنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ ہم پہلے ہی بڑے مسائل کا شکار ہیں۔ اس وقت ایسا انتشار حکومت اور ریاست دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ دھرنے کو ختم کرنے کا ٹاسک آئی جی پنجاب کو سونپ دیا گیا، اسلام آباد میں دھرنے کا پنجاب حکومت سے کیا تعلق ہے۔ یہ معاملہ تو وزارت داخلہ کے تحت آتا ہے۔ نوازشریف کے معاملات جب تک عدالت میں ہیں اور حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا کسی بھی خبار یا میڈیا کو اس پر رائے نہیں دینی چاہئے کیونکہ یہی جرنلزم کا اصول ہے اور قانون ہے۔ نوازشریف عدالت کے اندر جو بیان دیتے ہیں وہ اخبارات والے من و عن شائع کرنے کے پابند ہیں۔ نوازشریف عدالت کے باہر جو اس کیخلاف بیان دیتے ہیں وہ قانونی طور پر غلط ہے۔ قانون، ضابطہ اخلاق اور جرنلزم کے قانون اس کی ہر گز اجازت نہیں دیتے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے چاہے وہ وزیراعظم ہو یا عام آدمی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قانون علط ہے تو اس میں ترمیم کے لئے قانونی و آئینی راستہ استعمال کرے ورنہ جب تک قانون موجود ہے سب اس کو ماننے کے پابند ہیں۔ تحریک لبیک کے روح رواں حافظ خادم حسین رضوی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ہمیں مشورہ نہ دیں، جب آپ کے ارکان اسمبلی میں موجود اور بل پاس کرا کر تالیاں بجا رہے تھے تو آپ وہاں سے غائب تھے۔ جب آپ کا کوئی کردار ہی سارے معاملے میں نہیں ہے تو آپ ہمیں مشورہ دینے والے کون ہیں آپ کو مشورہ دینا اس وقت زیب دیتا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ڈی چوک میں خیمے میں بیٹھے ہوتے۔ اگر کوئی شخص چوری کر کے یا کسی کو اغوا کر کے پھر واپس کر دے اور معافی مانگے تو کیا اس کو معافی ہو جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن کو تو اسلام اور نظام مصطفی صرف ن لیگ میں نظر آتا ہے وہ اپنے مشورے پاس رکھیں ہم معاملے کو سمجھتے اس کی حساسیت کو جانتے اور قربانی دینا بھی جانتے ہیں۔ مولانا اپنا موقف اپنے پاس رکھیں ہمیں بہتر پتہ ہے ہم کیوں بیٹھے ہیں اور کب اٹھنا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ ختم نبوت معاملہ پر راجہ ظفر الحق کی تیار کردہ رپورٹ منظر عام پر لائی جائے۔ اگر وزیر قانون نے یہ کام نہیں کیا تو کسی نے تو کیا ہے۔ حکومت تو جانتی ہے کہ ذمہ دار کون ہے تو اس کو چھپانے اور پردوں میں رکھنے کے بجائے سامنے لائے، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چار روز قبل امریکہ نے بھی پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ناموس رسالت قانون میں ترمیم کرنی چاہئے۔ امریکہ عرصے سے اس قانون کو بدلنے کی کوشش میں ہے۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ آئندہ پاکستان کے قرضے کو بھی اس قانون کے ساتھ مشروط نہ کر دیا جائے۔ قانون پر تو سارے مطمئن تھے اس کے طریق کار بارے بات ہو سکتی ہے لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ حکومت نے اتنا بڑا کام کر دیا کہ حلف نامے کو ہی بدل دیا اور سات پردوں میں چھپا کر ارکان اسمبلی سے پاس کرانے کی کوشش کی۔ ترمیم کو واپس بحال کرنے پر خوش ہوں، قانون اسمبلی میں پیش ہوا تو جماعت اسلامی کے ہی رکن نے سب سے پہلے نشاندہی کی جس سے پتہ چلا کہ سازش ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ پنڈی میں موجود دوچار ہزار لوگوں کا نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کا ہے۔ اس معاملے میں جو کوئی بھی ملوث ہے خواہ وہ سرکاری ہے یا عیر سرکاری اسے بلا امتیاز سامنے لایا جائے حکومت اگر چھپانے کی کوشش کرے گی تو اس کی اپنی پوزیشن مشکوک ہو گی۔ راجہ ظفر الحق ایک معتبر شخصیت ہیں ان کو جب چھین بین کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تومطمئن تھے کہ حقیقت سامنے آ جائے گی لیکن افسوس ہے کہ حکومت خود ذمہ داروں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو سامنے لایا جائے کس نے یہ آئیڈیا دیا اور کس نے تحریر کیا سب ملوث افراد سامنے لائے جائیں۔ مفتی منیب نے کہا کہ مجھے ثالثی کی کسی نے پیش کش نہیںکی۔ علماءکے اجلاس میں شرکت کا کہا گیا جس پر میں نے معذرت کر لی۔ ثالثی تو تب ہو کہ دونوں فریق حامی بھریں کہ آپ کا فیصلہ قبول ہو ہو گا۔ جب حکومت خود ہی اس کے لئے تیار نہیں توثالثی کیسی۔ حکومت اور پارلیمنٹ نے خود مصیبت کو دعوت دی ہے۔ قانون بند کمرے میں نہیں بنتے۔ تمام ارکان پارلیمنٹ ذمہ دار ہیں۔ قانون میں تبدیلی کی مخالفت کرنے والے بھی تھے وہ اصل حقیقت کو قوم کے سامنے لائیں کیونکہ معاملہ اب بڑا حساس ہو چکا ہے اسے پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔ پارلیمانی کمیٹی کے ممبر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ کئی لوگوں نے اختلاف کیا تو کیا عوام کو اس سے پوچھنے کا حق حاصل نہیں کہ اندر کیا ہوا۔ لبرل میڈیا نے عرصہ سے مذہبی طبقات کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمن وفاق المدارس العربیہ کی نمائندگی نہیں کر سکتے صرف اپنی پارٹی کی پالیسی بیان کر سکتے ہیں۔ ایک خاتون اینکر کہتی ہیں کہ زاہد حامد کو استعفیٰ دینے پر قتل کیا جا سکتا ہے ان سے کہتا ہوں کہ پرویز رشید نے بھی تو مدارس کو جہالت کی یونیورسٹیاں کہا تھا انہیں تو کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔ مذہبی طبقات بارے جنونی ہونے کا تاثر دینا غلط ہے۔ خصوصاً اہلسنت کا تو کبھی بھی تشدد سے تعلق نہیں رہا ان پر کبھی کسی نے تشدد کا جھوٹا الزام تک نہیں لگایا۔ امریکہ کے کہنے پر ناموس رسالت قانون پر نظرثانی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان کا حصہ ہے۔ خادم حسین رضوی تعصب کے باعث نہیں بلکہ تصلب کے ساتھ آئے ہیں جو مسلک میں عیب نہیں خوبی ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv