تازہ تر ین

زرداری پر قتل، کرپشن کا الزام، اسے کون بچا رہا ہے: ممتاز بھٹو


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ نگار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں محمد نوازشریف کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ باتیں وہ منہ سے کہنا نہیں چاہتے جیسا کہ ان کے قریبی ساتھی اور خصوصاً ان کی بیٹی جن کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے وہ عدلیہ اور اس کے بعد پاک فوج ہے۔ آئین کے مطابق فوج پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی اس لئے وہ کچھ کہہ بھی جاتے ہیں کچھ چھپا بھی جاتے ہیں۔ ملک میں جو مہم اس وقت چل رہی ہے اس میں لوگ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ہیں اور ان کے مخالف بھی ہیں۔ لیکن ان پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ لوگوں کی پشین گوئی ہے کہ جنرل الیکشن میں پہلے والی پوزیش نہیں ہو گی۔ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد نوازشریف کی وہ پوزیشن نہیں رہی جو انہیں 2013ءکے انتخابات میں حاصل تھی۔ میں نے ملتان کا سفر دن کے وقت کیا جاتے وقت فٹ پاتھ پر 3 گاڑیاں چڑھی ہوئی تھیں ان حادثات میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ واپسی پر رات کا وقت تھا۔ دو گھنٹوں کا سفر ساڑھے سات گھنٹوں میں طے کیا۔ اس دوران چھ گاڑیاں الٹی ہوئی تھیں۔ نامعلوم کتنے لوگ اس میں ہلاک ہوئے ہوں گے۔ وزیرمواصلات، موصوف مولوی ہیں جنہیں بے شمار پیسہ سعودی عرب سے ملتا ہے اور ان کے بے شمار مدرسے ہیں۔ شاید اسی بنا پر انہیں وزارت دی گئی ہے۔ ان کی بلڈنگیں ہیں۔ مدرسے بنا رکھے ہیں۔ یونیورسٹی بنا رکھی ہے۔ مدرسے کے مولوی ہیں۔ شاید ان کا بجٹ 2000 ارب ہے۔ حال یہ ہے کہ این ایچ اے کے نہ تو سرکوں کے کنارے بورڈز موجود ہیں نہ ہی اشارے اور علامتیں موجود ہیں۔ شولڈرز پر مٹی کے ڈھیر بھی نہیں ہیں جگہ جگہ سڑکوں پر ٹول پلازے موجود ہیں۔ تارڑوں کا آج کل اقتدار ہے این ایچ اے کے چیئرمین اشرف تارڑ صاحب کو شرم آنی چاہئے۔ ہم نے ابھی تک 4 کے قریب غیرقانونی ٹول پلازے پکڑے ہیں بدمعاشی کے ذریعے اربوں روپے کما رہے ہیں۔ نیب کے چیئرمین کو کہوں گا کہ دیکھیں یہ لوگ زبردستی کے ٹول پلازے بنا کربیٹھے ہوئے ہیں۔ اورعدالت سے صرف اسٹے آرڈر لے کر کام کر رہے ہیں معلوم نہیں پیسے سرکاری خزانے میں جمع بھی کرواتے ہیںیا نہیں۔ سندھ میںہونے والے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے ڈرامے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اسٹیبلشمنٹ حکومت کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان، لندن سے ہدایات لیتی ہے۔ سندھ کی صورتحال پر تشویش ہو رہی ہے۔ کیونکہ جو تجزیہ ممتاز بھٹو نے کیا ہے اس کے مطابق وہی کرپٹ حکومت موجود ہے وہی لوگ، وہی افسران اور وہی پولیس ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ اندرون سندھ میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ ہو سکتا ہے کہکراچی میںکچھ تبدیلی آئے۔ شاید بڑے شہروں میں کچھ صورتحال بدلے لیکن وڈیرا شاہی کے چنگل میں جکڑا ہوا اندرون سندھ میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ ممتاز بھٹو کے تحریک انصاف میں جانے سے یقینا فرق تو پڑے گا۔ وہ سابق گورنر ہیں، سابق وزیراعلیٰ ہیں سابق وزیر رہے ہیں ان کے رابطے اندرون سندھ بہت لوگوں سے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ممتاز بھٹو نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی سیاست کا ہمیں کچھ پتا نہیں ہے۔ دونوں کا ایک دن سمجھوتا ہوا دوسرے دن ختم ہو گیا۔ اور اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا گیا۔ ہم تو اس ڈرامے پر حیران ہیں۔ شاید کراچی پر قبضے کا ڈرامہ ہو رہا ہے۔ اور کوشش کی جا رہی ہے کہ کراچی پر ایم کیو ایم کا قبضہ ہو جائے۔ لیکن وہ دور گزر گئے کہ یہ ڈنڈے کے زور پر بھتہ لیتے تھے۔ لوگوں کو قتل کر کے بوری میں بند کر دیا کرتے تھے۔ فاروق ستار اپنی ماں کو لے کر بیٹھ گیا اور میڈیا پر ڈرامہ کرتا رہا۔ نوازشریف کو پانامہ کے بعد استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا۔ لیکن انہوں نے عدالت سے ٹکر لے لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پوری فیملی اس میںشامل ہو گئی۔ کبھی لندن کبھی پاکستان ہر روز نئی نئی باتیں آ رہی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ ایسی حکومت راتوں رات تو علیحدہ نہیں ہو گی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ کافی لوگ انہیں چھوڑنے لگے ہیں الیکشن آنے تک صورتحال بدل جائے گی۔ مسلم لیگ سے اتحاد شخصی نہیں تھا۔ وہ ایک منشور پر کیا گیا تھا۔ دونوں جانب کمیٹیاں بنائی گئی تھیں ہمارے مطالبات مان لئے گئے تھے اس لئے اتحاد ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے۔ ممنون حسین نے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ میرے بیٹے کو مشیر بنایا گیا۔ مجھ سے بار بار پوچھا گیا کہ آپ کو کیا چاہئے انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اس وجہ سے ہم ان سے علیحدہ ہو گئے معاہدہ باقاعدہ تحریر کیا گیا تھا۔ اس کی کاپیاں ہمارے پاس موجود ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ بھی تحریری معاہدہ کیا ہے۔ ن لیگ والے معاہدے میں کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔ ہماری پارٹی پہلے سندھی، بلوچ فرنٹ تھا۔ جس میں عطاءاللہ مینگل جیسے لوگ شامل تھے۔ یہ اتحاد لندن میں ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے پاکستان بھیجا۔ 18 ویں ترمیم میں کچھ بات آگے بڑھی ہے لیکن ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ یہاں ایک یونٹی نہیں چل سکتی۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف سے اتحاد کیا ہے۔ میں نے بھٹو صاحب سے بار بار کہا کہ جس نعرے کے تحت پاکستان بنا ہے اِسے پورا کرو اس پر بھٹو نے کہا یہ کام مجھ پر چھوڑ دو۔ اور تم خاموش رہو۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ ضیاءالحق نے مارشل لا لگا دیا۔ لوگوں کو مارا گیا لٹکایا گیا۔ پی پی پی کا کیا حشر ہوا۔ میں نے بینظیر، پشتون اور سندھی لیڈروں سے یہ بات کی۔ اس پر انہوں نے مجھے پارٹی سے نکال دیا۔ بینظیر بھٹو نے بھی اپنی علیحدہ راہ اختیار کی۔ میں نے انہیں بہت منع کیا کہ تم نے بھٹو کے قاتلوں کو اپنے ساتھ بٹھایا ہوا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہر حالت میں اقتدار میں آنا ہے۔ میں نے سندھ، پشتون فرنٹ بنایا۔ انہوں نے مجھے نشانہ بنایا اور میرے ہر حلقے میں میرے خلاف تقریریں کرتی رہیں۔ میں تو قائداعظم کی بات کرتا تھا۔ سندھ سارا کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ بالخصوص آصف زرداری بہت کرپٹ ہے۔ بینظیر کے ساتھ شادی سے قبل یہ چھوٹے موٹے وارداتوں میں شمار ہوتا تھا نواب شاہ کے گاﺅں پولیس اسٹیشن میں آصف زرداری کے خلاف کئی کریمینل کیسز دائر ہیں۔ یہ پولیس سے چھپتا بھاگتا پھرتا تھا۔ اچانک بم پھٹا اور کسی بھٹو خاندان کے دشمن نے اس کی شادی بینظیر سے کروا دی۔ وہ سندھ کا بھی دشمن ہو گا۔ شریف فیملی پر تو منی لانڈرنگ یا پیسوں کی منتقلی کے مقدمات ہیں۔ جبکہ آصف زرداری پر بے شمار کریمینل کیسز، مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا کیس ہے نامعلوم کون سی قوت اسے تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ یہ پولیس اور بیورو کریسی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یہ بیورو کریسی سے الیکشن میں کام لیتے رہے ہیں۔ کیونکہ تمام پولنگ سٹیشن پولیس اور بیورو کریسی کے انڈر میں ہوتے ہیں۔ میں گواہ ہوں پولنگ اسٹیشن کے باہر سے پولیس ان کے مخالفین کو جوتے مار کر بھگا دیتی ہے۔ دروازے بند کر کے پولنگ عملہ ٹھپے لگاتا ہے۔ ہر طرف ان کے خلاف شکایت ہے۔ پچھلے الیکشنوں میں میں نے خود جا کر پکڑا۔ پولنگ بوتھ کے دروازے بند تھے۔ میرے ساتھیوں نے دروازے توڑے۔ اندر گئے تو دیکھا۔ وہ ٹھپے مار رہے تھے۔ زرداری پارٹی کے ٹھپے مار رہے تھے ہم نے پوچھا کیا کرتے ہو۔ انہوں نے کہا جناب ہم نے نوکری کرنی ہے۔ ہر جگہ ہر علاقے سے یہ شکایت آ رہی تھی۔ ہم کہاں کہاں جا کر دروازے توڑتے۔ زرداری پارٹی کے 15 ایم این ایز کی رکنیت الیکشن کمیٹی نے معطل کی ہے۔ لیکن وہ اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ان کے علاقوں میں سلیکشن ہوتی ہے۔ الیکشن نہیں ہوتے۔ نامعلوم ان کے خلاف کیوں نوٹس نہیں لیا جاتا۔ اگر ماضی کی دھاندلی جاری رہی تو اگلی باری زرداری کی آئے گی۔ منصفانہ الیکشن ہوں۔ رینجرز اور پولیس کو پولنگ بوتھ سے دور رکھا جائے۔ اگر منصفانہ الیکشن ہوئے تو ان کانام و نشان سندھ سے مٹ جائے گا۔ لوگ ان سے بہت تنگ ہیں۔ انہوں نے ادارے تباہ کر دیئے ہیں۔ لاڑکانہ کی گلیاں، گٹروں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ اندرون سندھ بہت بُرا حال ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار میں لوگوں کو اذیتیں دی ہیں۔ یہ لوگوں کو روپے دے کر پیچھے چلاتے ہیں۔ عورتوں کو انہوں نے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ علاقوں میں لکیریں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ سندھ کی حالت پہلے سے بہت خراب ہے۔ نئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ چند مہینوں میں کراچی کو صاف کراﺅں گا۔ دو سال گزر گئے کچرے کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سندھ کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv