تازہ تر ین

پاکستان مخالف مہم میں را، باغی بلوچ، امریکن سی آئی اے،ایم کیو ایم لندن ملوث:ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ سیاسی اختلافات تو ہوا کرتے ہیں لیکن مریم نواز نے جس انداز میں میڈیا جنگ لڑی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ مخالفین بتاتے ہیں کہ مریم نواز کے میڈیا سیل میں کوئی ساڑھے تین سو نمائندے ہر وقت ایکٹو رہتے ہیں۔ جو ہر وقت فوری ری ایکشن دے دیتے ہیں۔ وہ خود نہ سہی ان کا میڈیا سیل تو انتہائی چست ہے۔ عمران خان کو دو کریڈٹ جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی سیاستدان ہو جو 18 سال سے لگاتار کوشش میں ہو اور کامیاب نہ ہوا ہو پھر بھی لگتا ہے ایک کرکٹر ہی آخری گیند تک کھیلتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں عمران کو نااہل بھی قرار دے دیا جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس نے جو کام کرنا تھا وہ کر دیا ہے۔ سو خرابیاں صحیح لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ نااہل ہو بھی جاتا ہے تو اس کی موومنٹ جاری رہے گی۔ یہ بات انہیں دوسرےے سیاستدانوں سے مختلف کرتی ہے۔ وہ کہتا ہے میں باہر بیٹھ کر بھی تحریک چلاتا رہوں گا۔ اگر وہ نااہل ہوتا ہے یا وزیراعظم نہیں بھی بنتا تو اس نے جو کام شروع کیا وہ جاری رہے گا۔ نیب میں بہت فائلیں ایسی ہیں جن پر پچھلے دور میں کام روک دیا گیا انہیں کھولا جا رہا ہے۔ میری معلومات کے مطابق نوازشریف کابینہ کے 5 پیاروں میں سے تین کے مقدمات بہت جلد کھلنے جا رہے ہیں۔ کچھ اطلاعات تو ذرائع سے آتی ہیں۔ کچھ کا تجزیہ کر لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ پانی کے بہاﺅ کو دیکھ کر انسان بتا سکتا ہے کہ یہ کس جانب جائے گا۔ میں کسی ایجنسی کی منت خوشامد نہیں کرتا کہ وہ مجھے خبر دے دیں۔ شیخ رشید سے میری گہری دوستی رہی۔ میں انہیں کہتا تھا کہ تاریخیں بہت جلد دے دیتے ہو، اس کے برخلاف میں ہفتے کہہ دیتا ہوں جیسے وفاقی وزراءکے بارے میں نے پہلے بھی کہا۔ مریم جب کہتی ہے کہ ہم ہی کیوں؟ اس لئے وہ دوسروں کی طرف بھی رخ کر لیتے ہیں میں نے بہت دن پہلے بتا دیا تھا کہ نیویارک میں، سوئٹزرلینڈ میں اینٹی تحریکیں بہت تیز ہو گئی ہیں۔ اس کے لئے بہت پیسہ پھینکا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے خلاف یہ کام سب سے پہلے سوئٹزرلینڈ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد باری آئی نیویارک کی۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے دو مرتبہ وہاں احتجاج کیا ہے۔ ”فری بلوچستان“ کے بڑے بڑے ہورڈنگ اور بسوں پر نعرے لکھے جا رہے ہیں۔ اس کام کے لئے بہت پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ لندن کے کاروبار میںبہت کشمیری موجود ہیں۔ جب منگلا کی بات آئی تو کافی تعداد میں برطانیہ نے کشمیریوں کو ویزے جاری کئے تھے۔ وہ اچھے خاصے امیر بھی ہیں مقبوضہ کشمیر میں جتنی حقوق کی پامالی ہوئی ہے اس پر اس کمیونٹی کی جانب سے اتنا ایکشن نظر نہیں آتا جتنا نظر آنا چاہئے۔ امریکی حکومت بلوچ علیحدگی پسندوں کو کیوں اتنی ہوا دے رہی ہے۔ کیا اس میں سیآئی اے ملوث ہے۔ کیا حکومت ان لوگوںکو سہولتیں دے رہی ہے۔ تیسرا عنصر اس تحریک کا ”متحدہ“ ہے۔ الطاف کی سربراہی میں متحدہ جو کام کر رہی ہے۔ وہ انتہا ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر ایسی ایسی شرمناک گالیاں پاکستان کو پاکستانی فوج کو دی جا رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے مودی کا ہراول دستہ ان کے روپ میں کام کر رہا ہے۔ اس اینٹی پاکستان تحریک کے کئی عناصر ہیں۔ امریکہ، ورلڈ وائڈ وہ طاقتیں جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ ”را“ بھی ملوث ہے اس میں ہماری ”متحدہ“ بھی ہے تھوڑے بہت بلوچ بھی ہیں۔ جو بلوچ یہاں سے گئے ہیں ان کے پاس بہت دولت ہے۔ کامن ویلتھ، یو این او کا ممبر ہونے کے باوجود، برطانیہ میں ہمارے خلاف ایسے احتجاج حالانکہ ہم برطانیہ کو درست ملک تصور کرتے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایسے اقدامات کے خلاف کیا ہو سکتا ہے؟ ترجمان وزارت خارجہ نے قبول کیا ہے کہ ہم نے ماضی میں یہ احتجاج رکوائے تھے لیکن اب کسی اور ادارے کسی اور تنظیم نے یہ دوبارہ کیا ہے ہم اسے بھی رکوائیں گے۔ وزیر داخلہ بلوچستان بتائیں گے کہ بلوچستان کے کن رہنماﺅں کا ہاتھ برطانیہ میں ہونے والے احتجاج کے پیچھے ہیں۔ بلوچستان کی نام نہاد تحریک کا معاملہ ہو۔ یا کشمیر ایشو کے لئے مجھے تین وجوہات دکھائی دیتی ہیں پہلی یہ کہ ہمارے اس انٹرنیشنل میڈیا میں 95 فیصد انگریزی زبان مستعمل ہے۔ ڈان نیوز ہمارے یہاں انگریزی میں شروع ہوا لیکن اسے اُردو میں کر دیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ جب تک کسی بابے کو خوش کرنے کے لئے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا جاتا رہے گا۔ نصراللہ (مرحوم) صاحب جب پی پی پی میں گئے اس سے قبل انہوں نے تین مرتبہ کہا کہ بینظیر اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے؟ کچھ دنوں بعد وہ پی پی پی کو پیارے ہو گئے جس نے انہیں اعزازی کمیٹی برائے کشمیر کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ نہ وہ انگریزی جانتے تھے۔ نہ کوئی تعلق ان کا باہر تھا نہ لابی کر سکتے تھے۔ بس موجیں لگ گئیں۔ تیسری بات یہ کہ اب مولانا فضل الرحمن کو اس کا چیئرمین لگا دیا گیا ہے۔ وہ دینی مدارس کے لئے چندہ تو جمع کر سکتے ہیں لیکن وہ منتخب ارکان سے بات چیت کر سکتے ہیں؟ لابنگ کر سکتے ہیں؟ چوہدری سرور واحد شخص دکھائی دیتا ہے جس کے بین الاقوامی رابطے اور لابنگ کیلئے سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ لندن سے خبریں کی تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا ہے کہ ہم نے یہاں پاکستان کے ہائی کمیشن سے بھی بات کی اور دیگر اتھارٹیز سے بھی بات کی میئر، ساجد خان سے بھی بات کی۔ ہم نے ان تحریکوں کے پیچھے لوگوں کے نام تک نہیں لئے یہ اینٹی تحریک پہلے سوئٹزر لینڈ سے ابھری۔ پھر نیویارک میں گئی۔ اب انہوں نے ”ٹرانسپورٹ فار لندن“ ٹی ایف ایل کی بسوں پر جس طرح لکھا ہوا ہے اس پر ہماری حکومت کو احتجاج کی بجائے پوچھنا چاہئے کہ ہماری خود مختاری میں کیوں مداخلت کی جا رہی ہے۔ پہلے یہ پرائیویٹ سیکٹر تک محدود تھی اب گورنمنٹ ٹرانسپورٹ پر نفرت انگیز مواد لگانا قوانین کی خلاف ورزی ہے نفرت انگیز مواد چھاپنا تو یہاں کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ہم نے پاکستانی حکام سے بات کی ہے کہ اس کے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیتے۔ اس طرح اگر کشمیری بھی اپنے حقوق کے لئے نکلتے ہیں تو پھر کیا ہو گا۔ حکومتی حکام کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے احتجاج کیا تو پھر یہ بات پھیلے گی۔ لہٰذا خاموشی بہتر ہے۔ برطانیہ میںپاکستان کمیونٹی کی بجائے، برادری ازم زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ جتنی تقسیم یہاں ہے اتنی کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر 5 لوگ جمع ہیں تو ان میں سے 4 کے نظریات مختلف ہوتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ جس دن لندن میںیہ احتجاج ہوا تھا سیکرٹری صاحبہ نے ہائی کمشنر کو بلا لیا تھا اور انہیں بتا دیا تھا کہ یہ ہمارے لئے بہت خطرناک ہیں۔ انہوں نے اگلے ہی دن کیب سے یہ بینر اور ہورڈنگ اتروانے شروع کر دیئے تھے۔ اگلے دن تمام اتر چکے تھے۔ اب کچھ اور بسوں پر پھر کوشش کی گئی ہے ہم جانتے ہیں جس ملک کی طرف سے یہ کی جا رہی ہے بہت جلد اسے بھی ختم کر دیا جائے گا۔ ہم کسی صورت اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بہت جلد اسے کنٹرول کر لیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے 193 ممالک (ارکان) کے اندر یہ بات لکھا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ یہ معاملہ ہم نے ان کے سامنے اٹھایا تھا۔ اسیچارٹر کے نیچے ہم نے یہ معاملہ اٹھایا تھا جس کی بدولت سوئٹزر لینڈ اور جنیوا میںیہ معاملہ ختم ہوا تھا۔ وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ”فری بلوچستان“ کی تحریک تو کل برطانیہ میں منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے پیچھے وہ لوگ ہیں جو گراﺅنڈ پر اپنی حقیقت کھو چکے ہیں۔ وہ اپنی ہر کیپسٹی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اب ان کے پاس خبروں میں رہنے کے لئے کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ہا سٹائل ایجنسیوں کے ذریعے باہر کی دنیا میں کوئی ایسی تصویر بنانے میں کامیاب ہو جائیں جس سے یہ خبروں میں زندہ رہیں۔ ان کی نمائندگی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ ان کی موجودہ چالاکیاں بھی بہت جلد ختم ہو جائیں گے۔ نمائندہ لندن وجاہت علی خان نے کہا ہے کہ لندن میں پچھلے دس بارہ دنوں سے بڑے بڑے ہورڈنگز اور بینر دکھائی دے رہے ہیں۔ جہازی قسم کے بینر آویزاں ہیں اس کے علاوہ بلیک کیب ٹیکسیوں پر ”فری بلوچستان“ کے نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ ٹیکسیاں اب بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہائی کمشنر پاکستان نے یہاں کوئی ایکشن نہیں لیا نہ ہی صحافیوں کو بریفنگ دی ہے۔ نہ ہی کوئی لیٹر لکھا ہے۔ اس بارے میں ہمیں کسی نے بھی بتایا کہ یہ سلسلہ کب ختم ہو گا یا روکا جائے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv