تازہ تر ین

نواز شریف اور مریم نواز کا مستقبل بظاہر ختم ہو چکا :ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ تفصیلی فیصلہ آنے سے محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کا سیاسی مستقبل مکمل طور پر تاریک ہو گیا ہے۔ اگرچہ وہ پارٹی کے صدر بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس سے اظہار ہوتا ہے کہ نظرثانی کا باب اب بالکل بند ہو گیا میں نے ماہرین قانون سے مشورہ کیا ان کی رائے کے مطابق بھی اب کوئی چانس نہیں ان کی نااہلی پر سپریم کورٹ نے مہر لگا دی ہے۔ ہم نے شریف فیملی کے ذرائع سے لندن میں معلوم کیا تھا تو پتا چلا تھا کہ مسلم لیگ ن کے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے جبکہ مریم نواز پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھالیں گی۔ اس طرح خاندان کو پاور تقسیم کر کے بیلنس قائم رکھا جائے گا۔ تفصیلی فیصلے کے الفاظ ہیں کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ لندن فلیٹس کی بینفشری آنر مریم نواز ہیں۔ فلیٹس سے انہیں فائدہ پہنچا ہے۔ اس سے مریم نواز کے سیاسی کردار پر بھی سوال اٹھ گیا ہے۔ ان ریمارکس کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں ہو سکتی۔ اب مریم نواز کا سیاسی مستقبل ہی دکھائی نہیں دیتا۔ میرا خیال ہے کہ اب وہ پنجاب کی وزیراعلیٰ بھی نہیں بن سکیں گی۔ لندن میں صلح صفائی کی ایک کوشش ہو چکی ہے۔ جس میں مریم نواز کو وزارت اعلیٰ دی جانی تھی۔ تفصیلی فیصلے سے ایک تو ان کی وزارت اعلیٰ جاتی رہی۔ شہباز شریف ابھی تک منظر عام پر ہیں۔ شیخ رشید کی درخواست کے باوجود ابھی تک ان کے خلاف حدیبیہ پیپرملز نہیں کھلا ہے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ بھی کوئی ان پر ثابت ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ شریف فیملی کے ایک ہی سپوت دکھائی دے رہے ہیں جن کا نام شہباز شریف ہے وہ ابھی منظر پر موجود ہیں۔ اسحاق ڈار جو کہ نوازشریف کی غیر موجودگی میں تمام معاملات دیکھا کرتے تھے۔ کوئی خفیہ مفاہمت ہو، کسی سیاسی پارٹی سے رابطے کرنے ہوں۔ وہی کیا کرتے تھے۔ امتنان شاہد نے حتمی خبر دے دی ہے کہ ان سے استعفیٰ کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے اس کی جگہ مفتاح اسماعیل صاحب لے لیں گے۔ اسحاق ڈار بڑے طریقے سے طبیعت کے بہانے بہر نکل گئے اور استعفیٰ کا بہانہ ہی گیا اس طرح ان کی ”فیس سیونگ“ بھی رہے گی اور وہ علیحدہ بھی ہو جائیں گے۔ سیاستدان گرفتار ہونے کے بعد سب سے پہلے بیمار ہوتا ہے۔ کیونکہ ہسپتال میں اے سی والے کمرے موجود ہوتے ہیں۔ جو جیل میں نہیں ہوتے۔ اسی طرح کان، ناک اور دانت کے ماہر ڈاکٹر بھی جیلوں میں موجود نہیں ہوتے جو سیاستدان یہ تکلیف بتاتا ہے سمجھیں وہ توگیا جیل سے باہر۔ بینظیر بھٹو جب پاکستان سے باہر جانا چاہتی تھیں۔ شاید ضیاءالحق ان سے اکتا گئے تھے۔ انہیں کان کی تکلیف ہو گئی۔ پوری دنیا کے کسی ہسپتال سے ایک بھی خبر نہیں آئی کہ بینظیر کے کان کے درد کا کیا بنا۔ کسی سیاستدان نے کوئی بیان تک نہیں دیا۔ وزارت عظمیٰ کے چار امیدوار ہیں۔ نمبر ایک شہباز شریف، ملک میں ابھی تک مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہے اور کوئی گروپ علیحدہ بھی نہیں ہوا۔ لہٰذا اکثریتی پارٹی ابھی تک مسلم لیگ (ن) ہی ہے۔ دوسرے نمبر پر پی پی پی آتی ہے جس کی سندھ میں اکثریت ہے۔ اوباڑہ میں عمران خان نے جلسہ کیا جبکہ کچھ فاصلے پر گھوٹکی میں چند روز قبل بلاول بھٹو نے جلسہ کیا۔ وہاں کے نمائندگان کی رائے میں عمران خان کا جلسہ بلاول سے دو گنا تھا۔خبر چھپ چکی ہے کہ پی پی پی کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ ہو سکتا ہے عدالتی مراحل میں کسی جگہ عمران خان کو نااہل کر دیا جائے اور 2018ءکے الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا جائے۔ اگر پی ٹی آئی زیادہ سیٹیں لے جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جیسا کہ این اے 120 میں پی ٹی آئی کی امیدوار نے 43 ہزار ووٹ نکال لئے۔ لہٰذا عمران خان کا اسٹپنی شاہ محمود قریشی ہو سکتا ہے۔ وہ پارلیمانی پارٹی کا لیڈر بھی ہے۔ تیسرا نمبر بلاول بھٹو کا آتا ہے۔ وہ سندھ سے اچھی پوزیشن حاصل کر لیں گے اور کچھ پنجاب سے بھی سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔چوتھا اور آخری وزارت عظمیٰ کا امیدوار ایک متفقہ شخص ہو سکتا ہے۔ اگر تینوں سیاسی پارٹیاں برابر پوزیشن پر آ گئیں تو ایک یتیم سا متفقہ امیدوار بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فضل الرحمن کا نام بھی نکل سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا ”سٹف“ موڈرن خواتین ہر گز نہیں ہیں وہ سب کو درست کر دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کی پالیسی یہ ہے کہ ان کی کوئی پالیسی نہیں۔ انہیں جس طرف سے مفاد نظر آتا ہے وہ ادھر چل پڑتے ہیں۔ وہ ایک ذہین انسان ہیں۔ ان کی صلاحیتیں کمال کی ہیں وہ جسے چاہیں موم کر لیں۔ فاروق ستار اور مصطفی کمال دونوں ہی سے میری گپ شپ ہے۔ مصطفی کمال اور فاروق ستار کا کردار ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ یہ دونوں مل نہ جائیں اور مہاجر ووٹ کو ایک جگہ جمع نہ کر لیں۔ پانامہ لیکس کے بعد اب پیرا ڈائز لیکس ایک شدید قسم کا ہوا کا دوسرا جھکڑ ہے اس جھکڑ میں فاختہ اور چڑیوں کے گھونسلے اڑ جائیں گے۔ یہ تاریخ کی بہت بڑی کروٹ ہے کہ ملکہ برطانیہ کو اپوزیشن لیڈرنے قوم سے معافی مانگنے کو کہہ دیا۔ حالانکہ ملکہ برطانیہ پر ٹیکس بھی لاگو نہیں ہے۔ ٹرمپ اپنے وزیروں اور ساتھیوں کو جتنی بھی بچانے کی کوشش کرے۔ کہیں نہ کہیں ان پر ڈینٹ ضرور پڑے گا۔ آسٹریلیا کی وزیراعظم گو گئیں۔ باقی چار وزیراعظم جن میں شوکت عزیز کا نام بھی ہے۔ ان پر اتنا پریشر ہے کہ وہ متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں پائیں گے۔ سعودی عرب والا واقعہ بہت بڑا ہے تمام سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے کہ سعودیوں نے اپنے مخالفوں کو پکڑا ہے۔ وہ شہزادے ان کے مخالف تھے۔ مقرن کا ہیلی کاپٹر سازش کے تحت اڑایا گیا۔ ٹرمپ نے سعودی شاہ کی حمایت کی ہے۔ جن کا اپنا نام کرپشن میں آ گیا ہو ایسے شہزادے کا کیا ”کرائی ٹیریا“ ہو سکتا ہے۔ شاہ سلمان جو سب کو پکڑنے کا نعرہ مار رہا ہے اس کا اپنا نام آ گیا ہے۔ لوگ باتیں بنا رہے ہیں کہ ”اپنے بارے میں کیا خیال ہے“ پچھلے دنوں نوازشریف صاحب سعودی عرب گئے تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ اگر سعودی عرب پاکستان فوج، عدلیہ اور اداروں پر دباﺅڈالیں کہ این آر او کر کے انہیں رہا کریں۔ دو اہم واقعات جو رونما ہوئے ایک پیراڈائز لیکس جس کے بعد پاکستان میں کئی لوگوں کو نوٹ بھیج دیئے گئے ہیں۔ اس لیکس کے ذریعے پوری دنیا میں ”چھٹہ“ پھر گیا ہے۔ 99.99 فیصد کوئی سعودی حکومت اب اس پوزیشن میں نہیں کہ اداروں پر دباﺅ ڈال کر کہیں کہ ”نوازشریف نوں چھڈو“ شہزادے خود پھنسے ہوئے ہوں تو کون نوازشریف کی سفارش کرے گا۔ دوسرا واقعہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ہے۔ جس نے نوازشریف کے خلاف فیصلے کو حتمی قرار دے دیا ہے اور مریم نواز کو بینفشری آنر قرار دیا گیا ہے۔ اب وہ کس قانون کے تحت الیکشن لڑ سکیں گی۔ بین الاقوامی سنیریو کے تحت یہ سب ایک دفعہ ”رگڑے“ میں ضرور آئیں گے۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ تین مہینوںمیں جھاڑوں پھرنے والا ہے۔ اتنے مقدمات آئیں گے کہ لوگ گنتے گنتے تھک جائیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق جب وزیر خزانہ ہوتے تھے ایک ”ٹرپیکل ڈاﺅن تھیوری“ دی تھی جس کے تحت اوپر سے ڈوری پھرے گی کسی نہ کسی طرح نیچے آحر تک ضرور جائے گی۔ بڑے بڑے لوگ تو پکڑ میں آ گئے اس کے بعد وزیروں، مشیروں کی باری آئے گی اس کے بعد دیگر لوگ بھی پکڑ میں آ جائیں گے۔ لوگ بھولیں گے نہیں۔ سلیم سیف اللہ پارٹی کو کیسے رد کر دیں گے جس کی بیسویوں آف شور کمپنیاں ہیں۔ غزالی بٹ صاحب کے پاس ڈینگی ورکرز بھرتی کرنے کا ٹھیکہ ہے۔ میں نے دو غریب بتیوں کی سفارش کی تو وزارت ہیلتھ نے معذرت کر لی۔ وہ ایم پی اے ضرور ہیں 300 لیڈی ورکر رکھنے کا انہیں اختیار کس نے دیا ہے۔ پچھلے دس بارہ سال میں خالی اسامیوں کا ایک بھی اشتہارنہیں چھپا۔ ایم اے پلیس بچے، بچیاں بیٹھے ہوتے ہیں سفارش نہ ہونے کی وجہ سے وہ نوکری حاصل نہیں کر سکتے۔ کرپشن نے میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv