تازہ تر ین
mufti abduk qavi and qandeel baloch

9ویں جماعت سے بھاگنے والی فوزیہ المعروف قندیل بلوچ کے اشاروں پر کٹھ پتلی بنی ،ملبہ مفتی عبدالقوی پر کیوں ڈالا گیا،تہلکہ خیز حقائق آگئے

ملتان(انویسٹی گیشن سیل)ایک مرتبہ پھر مفتی قوی کے تھوڑے کو بہت زیادہ سمجھ لیا گیا اور ایان علی کیس میں قتل ہونے والے ایف آئی اے کے انسپکٹر کے بہت بڑے واقعہ کو معمولی قرار دیکر داخل دفتر کردیاگیا۔ ایک بار پھر مولوی زیرعتاب آگیا اور پلیٹ میں رکھ کر دینی عناصر کی مخالف لابی کو کردارکشی کا موقع مل گیا۔ قندیل بلوچ جس کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا۔ ڈیرہ غازیخان کے آبائی علاقے میں رہنے والی فوزیہ عظیم نویں جماعت سے بھاگ گئی تھی اور پھر واپس گھر کا راستہ نہ دیکھا۔ وہ پیسے بھیجتی تھی خود گھر نہیں جاتی تھی اور جاتی بھی تھی تو رات کے اندھیرے میں پھر اس نے فوزیہ عظیم کو دفن کرکے قندیل بلوچ کے نام سے شہرت پائی۔بدنامی قندیل بلوچ کے کھاتے میں پڑتی رہی اور پردہ فوزیہ عظیم پر پڑتا رہا۔ تب اس کے گھروالوں کو احساس نہیں تھا کیونکہ قندیل بلوچ کا کوئی بیک گراﺅنڈ نہیں جانتا تھا۔ اس کی کمائی جیسی بھی تھی مگر اس کے گھروالوں کیلئے حلال تھی۔ اس نے بھائیوں کو بھی کاروبار کرواکردیا۔ ماں باپ کے گھر کی بھی اس نے تزئین وآرائش کرائی پھر اچانک جب وہ سوشل میڈیا پر چند صحافیوں اور فوٹوگرافروں کے کہنے پر بولڈ ہوئی کیونکہ اسے بھارتی چینل سے شروع ہونے والے بگ باس جیسے ایک پروگرام کا حصہ بننا تھا اور اس کا حصہ بننے کیلئے فحاشی اور بولڈ سین اولین شرط تھی لہٰذا ایک منصوبے کے تحت اس نے سوشل میڈیا پر خود کو ایکسپوز کیا پھر ایک ٹاسک کے تحت مفتی قوی کو ٹریپ کیا پھر ”کاریگروں“ نے اس کو میڈیا پر ”ان“ کرنے کیلئے سیلیبریٹی قراردیا اور چھپڑ میں نہاکر زندگی کی ابتدا کرنے والی قندیل بلوچ کو لاہور کے پانچ ستارہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں نہلوادیا۔ اس وقت تک بھی اس کے بھائیوں کی غیرت نہیں جاگی کیونکہ بدنامی تو قندیل بلوچ کے کھاتے میں پڑرہی تھی فوزیہ عظیم پر تو بدستور پردہ پڑا ہوا تھا۔اس دوران ملتان سے شائع ہونے والے ایک اخبار کی تحقیقاتی رپورٹ میں فوزیہ عظیم سے لیکر قندیل بلوچ کے سارے سفر کو بے نقاب کردیا گیا کہ وہ کیسے گھر سے بھاگی، بس ہوسٹس بنی اور کہاں کہاں گئی۔ یہ وہ رپورٹ تھی جس کی اشاعت کے بعد قندیل بلوچ کے سارے نقاب اتر گئے۔ خبر کی فوٹوکاپیاں اس کی بستی میں تقسیم کی گئیں اور قندیل بلوچ کے سگے بھائی جن کی غیرت سالہا سال سے سو رہی تھی، بدنامی کا ”انجکشن“ لگتے اور پردہ چاق ہوتے ہی جاگ پڑی، اس کے بھائی طعنہ زنی برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے اس کے قتل کا منصوبہ بنا لیا، جس چارپائی پر قندیل بلوچ کی لاش پائی گئی اس کے مردہ جسم کے نیچے جس قسم کی چادر بچھی ہوئی تھی جس کمرے میں اس کا قتل کیا گیا یہ سب چیزیں قندیل بلوچ کی ”امارت“ اور لاہور کے پانچ ستارہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں نہانے کی فرضی کہانیوں کو بے نقاب کرگئی۔ جس کمرے میں اسکی لاش پڑی تھی وہاں اے سی تک نہیں تھا۔ ایک پیڈسٹل فین تھا اور اس گھر کی حالت اور مظفرآباد کی دور دراز غریب آبادی کے ایک مکان نے قندیل بلوچ کے سارے پردے چاک کردیئے مگر پھر کسی نے بھی ان عوامل پر غور نہیں کیا۔ کسی نے قندیل بلوچ کے ٹیلی فون ریکارڈ سے ان صحافتی مشیروں سے پوچھ گچھ نہیں کی جو اسے بھارتی پروگرام میں شرکت کے لئے بے باکی کے نام پر بے حیائی کے گڑھے میں دھکیلتے رہے اور بالآخر ملبہ مفتی قوی پر آگیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv