تازہ تر ین

چیف جسٹس سپریم کورٹ عدالتوں پر حملے روکنے کیلئے فوج بلائیں :ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کوئٹہ دھماکے میں شہادتوں پر افسوس ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بارڈر انتہائی حساس ہو چکے ہیں، ہمارے پڑوس ممالک اور ان کی ایجنسیاں بھی یہاں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہیں کیونکہ ان کے علاقوں سے یہ دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوئے اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشتگردی کے واقعہ کے بعد حکام کی جانب سے ایک ہی طرح کے مخصوص جملے سننے کو آتے ہیں کہ ”دہشتگرد ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے، دہشتگردی کی اجازت نہیں دیں گے“ ایسے جملے سن سن کر قوم کے کان پک چکے ہیں۔ اس طرح کی فضول باتیں کرنے کے بجائے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا کہ ہماری مغربی سرحدیں انتہائی غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔ نیشنل سکیورٹی پلان بارے کوئی خبر نہیں آتی وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری کہتے ہیںکہ دہشتگردی کی اطلاع تھی اگر انہیں اطلاع تھی تو ان کے خلاف دھماکہ میں ہلاک افراد کے قتل کی ایف آئی آر کاٹنی چاہئے کہ آپ اطلاع کے باوجود حملہ رکوانے میں کیوں ناکام رہے سینئر صحافی نے کہا کہ بڑی ذمہ داری سے بات کروں گا کہ کسی بھی ملک میں عدالتوں کا قیام اور پرامن طور پر مقدمات کا چلنا ضروری ہے۔ میں جمہوریت کا حامی ہوں۔ چیف جسٹس سے استدعا کرتا ہوں کہ آرمی چیف کو خط لکھیں کہ تمام چھوٹی بڑی عدالتوں میں جہاں حساس مقدمات کی سماعت پر سکیورٹی کیلئے فوج بھیجی جائے۔ ملک میں جو صورتحال ہے آرمی چیف اور چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں۔ چیف جسٹس اگر سمجھتے ہیں کہ وہ عدالتوں کو سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتے تو آئین کے مطابق فوج کے سکیورٹی کیلئے بلائیں۔ عدالتوں کو مکمل سکیورٹی فراہم نہ کی گئی تو وہ کام نہیں کر سکتیں اور جس ملک میں عدالتیں غیر فعال ہو جائیں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کسی بھی دہشتگرد تنظیم کے سربراہ کا مرنا اچھی خبر ہے تاہم ابھی عمر خالد خراسانی کی موت کی تصدیق نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ میں اہم نشست پر پاکستان کی کامیابی خوش آئند ہے، مستقبل مندوب ملیحہ لودھی کو چاہئے کہ وہاں جمع کرائے گئے بھارت کے خلاف ڈوزئیر دیگر ممالک کو بھی بھجوائیں تا کہ بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کراچی میں آرمی چیف نے ملک کی خراب معاشی صورتحال پر بات کی جس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان آیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر فوج کی نمائندگی کرتا ہے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کر سکتا۔ وزیر داخلہ نے اس پر ایک ایس ایچ او کی طرح ڈانٹ پلائی کہ آپ کو معیشت پر بات کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ فوج کی جانب سے پھر وضاحت دی گئی۔ صورتحال ایسی بن گئی کہ حکومت اور فوج آمنے سامنے کھڑے نظر آئے جس کے بعد حکومت کی جانب سے اقدام اٹھایا گیا کہ منی بجٹ آ گیا اور درآمد کی جانے والی کئی اشیاءپر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ اسحاق ڈار کو مشورہ دیا ہے کہ تمام اخبارات کے ایڈیٹروں اور الیکٹرانک میڈیا کے سینئر نمائندوں کو بلا کر حقیقی درپیش مسائل اور خطرات کو ان کے سامنے رکھیں تا کہ ان پر بات چیت ہو اور کوئی حل سامنے آئے کیونکہ چند اشیاءپر بھاری ڈیوٹی لگا دینے سے معیشت کو درپیش خطرات نہیں ٹل سکتے۔ آصف زرداری اس وقت گھوم پھر کر دیگر جماعتوں کے ناراض رہنماﺅں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ بااثر منتخب ہونے والے لوگوں کو پارٹی میں لائیں۔ ذوالفقار کھوسہ پچھلے چار سال سے فارورڈ بلاک کی باتیں کر رہے ہیں، ان کی یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ 30 لیگی رہنما ان کے ساتھ پیپلزپارٹی میں آ جائیں گے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسین نے کہا کہ ہر وزیرخزانہ یہی کہتا ہے کہ معیشت بڑی اچھی چل رہی ہے چاہے صورتحال کتنی ہی دگرگوں ہو پاکستان کی معیشت کی اصل صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے 10 نوبل انعام یافتہ ماہرین معیشت بھی بلا لیں تو اسے ٹھیک نہیں کر سکتے۔ معیشت کی بہتری کیلئے بڑے سخت اقدامات سنجیدگی کے ساتھ اٹھانا ہوں گے۔ صرف درآمد ہونے والی 97 اشیاءپر بھاری ڈیوٹی لگا کر بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔ حکومت کو 5 سے 6 بلین ڈالر تک کی درآمدات کم کرنا ہوں گی۔ پوری قوم کو مشکل سے گزرنے پڑے گا کوشش کی جانی چاہئے کہ امیر طبقہ پر براہ راست ٹیکس لگائے جائیں اور غریبوں کو بچایا جائے۔ حکومت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کا بھی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی اور تیل کی درآمد دگنا ہو گی۔ ظلم یہ ہے کہ ایک زرعی ملک میں جہاں پر پھل اگتا ہے سیب چین اور نیوزی لینڈ سے، ناشپاتی افریقہ سے انگور ایران سے اور کیلا بھارت سے منگوایا جا رہا ہے اس طرح تو زرمبادلہ ضائع ہو گا۔ ایڈیٹر مشرق کوئٹہ کامران ممتاز نے کہا کہ ثناءاللہ زہری نے کوئی نئی بات نہیں کی دو روز قبل ہی اخبارات میں خبر شائع ہوئی تھی کہ دہشتگرد کوئٹہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ دہشتگردوں کی آمد کی خبر تو آ جاتی ہے تاہم بدقسمتی سے سکیورٹی ادارے انہیں حملہ کرنے سے روکنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بھارتی ”را“ بلوچستان میں پوری طرح سرگرم ہے۔ کوئٹلہ دہشتگردوں کے لئے کھلا بارڈر ہونے کے باعث آسان ٹارگٹ ہے، دہشتگرد شہر میں آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں حکام سے بارڈر کی سکیورٹی بارے بات کریں تو وہ وسائل سمیت مختلف مشکلات کا رونا روتے ہیں۔ بلوچستان میں پچھلے 10 سال میں ہزاروں لوگ دہشتگردی میں مارے جا چکے ہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv