تازہ تر ین

ن لیگی کارکنوں نے نیب حراست میں کیپٹن صفدر (ر) کی گاڑی روکی کیا سب ٹوپی ڈرامہ تھا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔ تاہم کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بارے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ”ٹوپی ڈرامہ“ تھا۔ لگتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ تھا کہ مریم نواز کی گاڑی کو اتنی دیر روکا جائے گا اس لئے سب سکرپٹ پر عمل پیرا تھے۔ سابق بیورو کریٹ اور تجزیہ کار اوریا جان مقبول نے سوشل میڈیا پر اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حیرانگی ہے لوگ ہمارے ملک میں خواص کا احتساب بھی نہیں چاہتے۔

چکلالہ ایئربیس پر نیب کی گاڑی کو روک لیا گیا۔ اور لوگوں نے سرکاری گاڑی کو یرغمال بنائے رکھا۔ یہ علاقہ پنجاب میں آتا ہے۔ پنجاب حکومت نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ پولیس اپنا کام نہیں کر رہی تو رینجرز کو بلا لیا جائے۔ پونے گھنٹے بعد لوگ ایک جانب ہٹ گئے اور گاڑی فراٹے بھرتے ہوئے اسلام آباد روانہ ہو گئی۔ یہ کیا عمل ہے اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو سب لوگ ہی اس طرح احتساب سے بچنے کیلئے یہی عمل دہرائیں گے۔ احتساب عدالت میں یہ ریفرنس بھی بہت لمبے ہو جائیں گے۔ اور آہستہ آہسشتہ سب ہی یا تو کلیئر ہو جائیں گے یا اگلے الیکشن آ جائیں گے۔ میاں صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوں گے یعنی عمران خان ”آﺅٹ“ نہ ہی فیصلے عدالت میں ہوں گے یعنی سپریم کورٹ ”آﺅٹ“ اب فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں گے۔ منتخب لوگ ایوانوں میں فیصلے کریں گے۔ لہٰذا ارکان پارلیمنٹ سے اچھے تعلقات بنانے ہوں گے۔ پرویز مشرف کا دور آمریت کا دور تھا۔ انہوں نے قانون بنا دیا کہ سینٹ، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے امیدوار کا بی اے ہونا ضروری ہے۔ جمہوری نظام کے آتے ہی۔ ہمارے قابل ارکان نے فیصلہ کیا کہ نااہل کی اس شرط کو ہی ختم کریں۔ لہٰذاک انہوں نے شرط خط کر دی۔ حالانکہ دفاتر میں ایک چپڑاسی کے لئے میٹرک پاس شرط رکھی ہوئی ہے۔ لہٰذا انگوٹھا چھاپ اب ممبر صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سنیٹر بھی بن سکتا ہے اور چاہے تو وزیر مملکت بھی بن سکتا ہے۔ محترم وزیراعظم صاحب سے اعتراض ہے کہ ایسی ”مقدس گائیں“ کو ہم درخواست پیش کریں تو، پاکستان پینل کوڈ جو انگریزی میں کس طرح پڑھیں گے یہ تو اُردو بھی نہیں پڑھ سکتے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ سپیشل کوڈ کے انگریزی جملوں اور الفاظ کو ہی اصل فیصلوں میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ہمارے تمام ہی لیڈران بشمول دینی جماعتیں انگریزی سے بالکل ”نابلد“ ہیں۔ انہیں ووٹنگ کیلئے صرف ہاتھ اٹھانا ہوتا ہے۔ پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر یا علاقے جا سکتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ایسی خواتین کو اسمبلی میں بھیجتے ہیں کہ انسان کبھی ان کی شکل دیکھتا ہے کبھی اسمبلی کی طرف دیکھتا ہے۔ مریم نواز، بادشاہ کی بیٹی ہیں اگلی بادشاہ ہی وہ جو چاہیں کہہ سکتی ہیں ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں۔ بس چودھویں ترمیم کے تحت ووٹوں کے ذریعے کامیاب ہو کر اسمبلی میں آئیں اور پارٹی وفادار رہیں۔ ہمارے ممبران اسمبلی میں پہنچ جانے پر ہی خوش رہتے ہیں اور حاضری لگاتے رہتے ہیں۔ میاں شہباز شریف بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ سارے کام نوازشریف کے وہی کرتے ہیں۔ انہیں ڈپٹی وزیراعظم بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی ڈیوٹی بڑے بھائی نے لگا دی کہ آپ نے صوبے سے ووٹ نکالنے ہیں۔ ہم ان سے ہمدردی رکھتتے ہیں۔ ساری عمر خدمات کے باوجود ان کے ذمہ صرف ووٹ لینا آیا ہے۔ دوسرے صوبوں سے آنے والے اے پی این ایس ممبران ’ایڈیٹرز‘ حضرات تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب میں لا اینڈ آرڈر، کمیونیکیشن اور دیگر معاملات دوسرے صوبوں کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ میاں شہباز شریف صاحب مظلوم ہیں صبح شام میاں نوازشریف کی حکومت کو مضبوط کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بچوں کا نام لندن فلیٹس میں ہے نہ پانامہ میں ہے۔ نہ آف شور کمپنیوں میں ہے۔ شہباز شریف صاحب نے اپنے داماد کو ایک دکاندار پر تشدد کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ان کے کسی بیٹے کا بیرون ملک کام نہیں ہے۔ حمزہ شہباز نے الیکشن میں جان لڑا دی۔ ان کا رابطہ تمام اضلاع کے چیئرمین کے ساتھ ہوتا تھا۔ بادشاہ کی بیٹی (مریم) نے کان سے پکڑ کر انہیں باہر نکال دیا۔ حمزہ اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں بہت کوشش کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ان کے والد میاں شہباز شریف کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی اولاد اول درجے پر ہے اور شہباز شریف کی اولاد نچلے درجے پر ہے۔ ہمارے معاشی حالات اسحاق ڈار صاحب کے پاس ہیں۔ پی پی پی دور میں بھی ان کے پاس تھے۔ میاں شہباز شریف، نوازشریف کے سمدھی کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ پاکستان میں لیفٹیننٹ جنرل ایک شیر ہوتا ہے۔ باجوہ ببر شیر ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، کراچی میں ڈی جی رینجرز تھے۔ انہیں ترقی دے کر کراچی کا کور کمانڈر بنایا گیا۔ ان کے بعد راجیل شریف نے انہیں آئی ایس آئی کا چیف بنا دیا۔ وہاں انہوں نے دو سال گزارے اس کے بعد بڑی تبدیلی آئی۔ انہیں ن لیگ میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ پانامہ لیکس کے وقت یہ آئی ایس آئی کے چیف تھے۔ لہٰذا انہوں نے جو کام کئے وہ نوازشریف صاحب کو پسند تو نہیں آ سکتے تھے۔ اس کے بعد ڈان لیکس والے معاملے میں ان کی ”ڈیں پٹھاس“ ہو گئی۔ فاطمی صاحب نے انہیں ڈانٹ پلائی اور کہا کہ پوری دنیا ہمیں الزام دے رہی ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو آپ پال رہے ہیں اس کے بعد شہباز شریف نے ان کے بارے میں کہہ دیا ہم لوگوں کو پکڑتے ہیں آپ انہیں چھڑا لیتے ہیں یہی ڈان لیکس کی بنیاد ہے۔ شور مچا تو آرمی نے کہا کہ ڈان لیکس کی تحقیقات کروائی جائیں۔ یہ کس نے لیک کی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ یہ مریم نواز نے کی، کچھ کا کہنا تھا کہ یہ وزراءنے کی۔ کچھ نے پرویز رشید کا نام دے دیا کہ انہوں نے خبر نہیں رکوائی۔ یہ وجوہات تھی کہ رضوان اختر کے تعلقات مسلم لیگ ن کے ساتھ اچھے نہیں رہے۔ اچانک راحیل شریف صاحب کی چھٹی ہو گئی۔ اس کے بعد قمر باجوہ آ گئے۔ انہوں نے انہیں وہاں سے اٹھایا اور ”این ڈی یو“ کا سربراہ بنا دیا۔ انہیں شاید یہ قبول نہ تھا لہٰذا انہوں نے ایک سال قبل ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر ہمیشہ آرمی چیف کے ساتھ رہتے تھے۔ بیرون ملک بھی ایک ساتھ رہتے تھے۔ ماہر قانون جسٹس(ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت اس وقت یرغمال ہے۔ بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی پنجاب حکومت کی رٹ کو پامال کر رہے ہیں۔ وہ حکومت یا وزیراعلیٰ پنجاب کو کسی گنتی میں نہیں لاتے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ انہیں ان ہی وجوہات کی بنیاد پر نکالا گیا۔ آپ سیاسی، معاشی اور اخلاقی طور پر ”کلین“ نہیں ہیں۔ چکلالہ ایئربیس پر ہونے والا واقعہ کوئی نیا نہیں۔ وزیر داخلہ کو اگر رینجرز نے روک دیا تو کیا ظلم ہو گیا۔ وہ خود استغاثہ کے ہیڈ ہیں ان کا نیب عدالت میں کیا کام تھا۔ ایسا لگتا ہے پاکستان ویژن کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل(ر) زاہد مبشر نے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ رضوان نے خود کہا ہے کہ اندازے نہ لگائے جائیں۔ جنرل باجوہ نے اگر دو لوگوں کو سائیڈ لائن کیا ایک ڈی جی آئی ایس پی آر، جنرل عاصم باجوہ انہیں کور نہیں دیا گیا اور ایک یہ تھے انہیں کور میں بھیجنے کی بجائے انہیں این ڈی یو کا چیئرمین بنا دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ عاصم باجوہ کی تقرری ہوگئی ہے اور شاید انہیں بتا دیا گیا کہ ان کی تقرری نہیں ہونے والی اور انہیں یہی سے ریٹائرمنٹ لینی ہوگی۔ لہٰذا ان کی مراعات اور پنشن اپنی جگہ رہے گی۔ اس لئے ایک سال قبل انہوں نے لیوو لے لی۔ ہر چیف اپنی ٹیم خود بناتا ہے۔ جنرل عاصم باجوہ کے ساتھ قمرباجوہ صاحب کے کوئی خاص مراسم تو نہیں لیکن پھر بھی انہوں نے ٹیم کا حصہ بنایا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv