تازہ تر ین
Zia Shahid ky Sath

پاکستانی سفارتی ٹیم کمزور، نیویارک، واشنگٹن، لندن کے سفیر واپس بُلائے جائیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کے لئے سب نے ہی نیک تمناﺅں کا اظہار کیا ہے چیف آف آرمی سٹاف نے بھی ان کے ہمدرد کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے ان کی اہلیہ کی خیریت دریافت کی ہے۔ اسی طرح تمام سیاستدانوں نے ان کی خیریت کی دعا کی ہے۔ سیاسی مخالفت ایک طرف یہ ہم سب کا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے کہ بیمار کی بیمار پرسی کی جائے۔ آرمی چیف کے فون سے لگتا ہے کہ وہ کچھ بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ امید ہے وہ آئین اور قانون کی سربلندی ہی کیلئے کام کریں گے۔ مخالف سیاستدانوں کو بھی چاہئے تھا کہ فون کر کے خیریت دریافت کرتے۔ سیاست کو نظراتی لڑائی تک محدود رکھنا چاہئے۔ آصف زرداری، فضل الرحمن، عمران خان اور دیگر سیاستدانوں کو بھی فون کرنا چاہئے تھا۔ نیب کے بارے سپریم کورٹ نے کہا تھا یہ ”ڈیڈ ہارس“ ہے۔ میاں نوازشریف کے معاملے میں بھی یہ کچھ ڈھیلی دکھائی دیتی ہے۔ میں تو یہی مشورہ دے سکتا ہوں کہ عمر کے آخری حصے میں ہی مسلمان ہو جائیں۔ ٹرمپ کے بیان پر وزیرخارجہ کا بھی شاید وہی موقف ہے جو وزارت خارجہ نے دیا ہے۔ بہتر تھا وہ پریس کانفرنس کرتے اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے۔ ٹرمپ کی تقریر سے عیاں ہو رہا تھا کہ یہ ”مودی صاحب“ بول رہے ہیں۔ تقریر صبح 6 بجے ہوئی۔ ہماری کابینہ رات دس بجے بیٹھی۔ پوری قوم تمام دن انتظار کرتی رہی کہ پاکستان کا اس پر کیا ”ری ایکشن“ آتا ہے۔ آصف زرداری کھل کر بولے، عمران خان بولے۔ حتیٰ کہ چین نے بڑے سخت الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اگر کسی نے بات نہیں کی تو حکومت پاکستان کے ”آفیشل“ بات نہیں کی۔ نان نیٹو اتحادی کا پورٹ فولیو ختم ہونے سے پاکستان کو ملنے والی اسلحہ کی امداد متاثر ہو سکتی ہے۔ پچھلے 4 سالوں کے دوران ہم اپنی خارجہ پالیسی کی کمزوریوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ یو این او میں ہمارے مندوب ملیحہ لودھی بیٹھی ہوئی ہں۔ وہ پہلے امریکہ میں سفیر رہی ہیں۔ وہ پچھلی تمام حکومتوں کی چہیتی تھیں۔ اس لئے سیٹ پر بیٹھی رہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے انہیں تبدیل کر دینا چاہئے۔ ان کی وجہ سے ہم خارجہ پالیسی میں پیچھے سے پیچھے جاتے جا رہے ہیں۔ نوازشریف صاحب یو این او گئے تو امریکی صدر ان سے نہیں ملے۔ سعودی عرب گئے تو بھی امریکی صدر نے ان سے ملاقات نہیں کی۔ یہ ایک دن کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ اسے وقت لگا ہے۔ امریکی سفیر کو بھی وہیں بلا لینا چاہئے۔ شاید وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی تقریر سے پہلے ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ ایسا بیان سامنے آنے والا ہے ہم نے وہا کوئی لابنگ نہیں کی۔ ہم نے وہاں کوئی کام نہیں کیا۔ ملیحہ لودھی نے بڑی بڑی تنخواہ اور مراعات لینے کے باوجود پاکستان کے لئے کچھ نہیں کیا یہ ایک دن کا نتیجہ نہیں ہے۔ امریکہ میں لابنگ کرنا کس کا کام تھا۔ ہم نے دو سفید ہاتھی رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں ذرا برابر بھی کام نہیں کیا۔ امریکی صدر نے آتے ہی تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے تھے۔ ہمارے سفیر اور ہماری مندوب وزیراعظم کی ملاقات ہی سیٹ نہیں کروا پائے۔ پاکستان خود سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ہے۔ ہم 70 ہزار افراد کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ یہ لوگ بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں۔ لیکن ملک کے لئے کچھ نہیں کر رہے۔ وہ الزام لگا رہے ہیں کہ یہاں محفوظ پناہ گاہیں ہیں آئیں مجھے دکھائیں کہاں ہیں ایسی پناہ گاہیں۔ ہمارے شہر، قصبے، ادارے، عوام، حتیٰ کہ جے ایچ کیو تک دہشتگردوں کے نشانوں پر نظر آتے ہیں ہم نے کہاں سے پناہ گاہیں دے رکھی ہیں۔ ہمارا دماغ خراب ہے کہ محفوظ پناہ گاہیں دے کر انہیں کہیں گے کہ ہمارے لوگوں ہمارے سکولوں کو نشانہ بناﺅ۔ امریکہ کی اس خود ساختہ کہانیوں میں بھارت کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ تین روز قبل ”کانگرس مین“ الطاف حسین کے پاس آیا تھا۔ اس میں سلمان داﺅد بھی تھا۔ یہاں انہوں نے پاکستان کے خلاف بہت سحت باتیں کیں۔ الطاف حسین کوئی وقت ضائع نہیں کرتا پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں۔ لندن میں ہمارے ہائی کمشنر کا کیا کام ہے۔ اس کا کام صرف لوگوں کو کھانا کھلانا ہے یا کلچر تقاریب کروانا ان کا مقصد ہے۔ ان سب کو روکنا ان کا کام ہے۔ لگتا نہیں شاہد خاقان عباسی کوئی قدم اٹھائیں گے۔ لندن پوری دنیا کے لئے معلومات کا گڑھ ”سینٹر“ ہے۔ دنیا بھر کی اطلاعات کا مرکز بن چکا ہے۔ نوازشریف صاحب کے ساتھیوں سے اب سوال کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر مالک بتائیں کہتے تھے کہ ناراض بلوچ واپس آ رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے پیچھے ایک مستقل کاوش ہوتی ہے۔ پاکستان میں آئین اور قانون ”موم کی ناک“ ہے جسے جو اپنے حق میں لگتا ہے اسے موڑ لیتا ہے اور ترامیم کروا لیتا ہے۔ اسی طرح 63,62 میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ میں پی پی پی کو اختیارات کا مسئلہ تھا تو اس نے ترمیم کر دی اور کہا کہ نیب اور احتساب عدالتوں کی ہمیں ضرورت نہیں۔ ہمیں ایف آئی اے نہیں چاہئے۔ میرے خیال کے مطابق پاکستان کو چلانے کے لئے 18 ویں ترمیم کو واپس لینا پڑے گا۔ اس کے مطابق صوبوں کو جتنے اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں ملک چل نہیں سکتا۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر غضنفر علی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر دنیا میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہو رہی ہے لگتا ہے مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہونے جا رہی ہے یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ امریکہ کو معاشی طور پر یہودی چلاتے ہیں۔ یہودیوں نے پہلے ہی ایک نظریہ بنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو کارنر کیا جائے۔ عراق میں اس کی مثال نظر آئی۔ اسی طرح لیبیا، شام، یمن سب سب جگہ اسی کی مثالیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف امریکہ میں جلوس نکلے ہوئے ہیں۔ اس کے مواخذے کی تیاری کی جا رہی ہے جب اس نے الیکشن لڑا تو ”ہندو لابی“ اسے حرید چکی تھی۔ وہ اصل میں ڈالر کا بھوکا ہے۔ اسی لئے اس نے فیصلہ کیا اور سب سے پہلے پیسے کا ذکر کیا۔ پاکستان کو کولیشن فنڈ میں جو رقوم دی گئیں وہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مدد کے لئے دی گئی تھی۔ یہ فنڈ گیارہ دوسرے ممالک کو بھی دیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان پر کوئی احسان نہیں ہے۔ اس کے بدلے میں پاکستان نے خدمات دیں اپنے لوگوں کی شہادتیں دیں۔ مذہب کی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کے نظریے کو ٹرمپ اور مودی لیڈ کر رہے ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ ایک طرف صدر اس طرح کا بیان دیتا ہے اور ان کا آرمی چیف کہتا ہے کہ آپ نے افغانستان میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ ان کی اسی ”ریا کاری“ کی وجہ سے دنیا تباہ ہو رہی ہے۔ بھارتیوں کا باپ ٹرمپ اس کا سرغنہ ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو فلسطینیوں کو مارتا ہے اسی طرح بھارت کشمیریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ پاکستان کو گراﺅنڈ حقیقت کے مطابق ری ایکشن دینا چائے۔ ہم نے نیٹو کی سپلائی روکی تھی۔ انہوں نے لکھ کر لگا دیا تھا۔ سپلائی روک دی گئی ہے۔ پاکستان کے امریکہ پر بہت احسانات ہیں لین وہ احسان فراموش ہیں۔ ہم نے اسے چین تک رسائی فراہم کی تھی۔ امریکہ نے دنیا میں تباہی کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ افغانستان میں این ڈی ایس اور ”را“ کا گٹھ جوڑ سی آئی اے نے بنا رکھا ہے۔ اسے انڈیا مالی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے پارلیمنٹ کے پاس آئین کی ترامیم کا حق حاصل ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ 63,62 پر پی ٹی آئی، اور پی پی پی ساتھ نہیں دینا چاہتیں۔ اس طرح حکومت یہ ترامیم نہیں کروا پائے گی۔ 62/F کا اطلاق مسلمانوں سمیت تمام مذاہب پر ہوتا۔ جبکہ D,E کا تعلق صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا حق ہے۔ عدلیہ کی طرف سے اگر کوئی بیان آیا بھی ہے تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ کیونکہ عدالت نے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اتفاق سے ہماری پارلیمنٹ، سیاسی چپقلشوں کی وجہ سے کمزور ترین پارلیمنٹ بن گئی ہے اس کی وجہ سے عدالتیں طاقتور ہو گئی ہیں۔ جبکہ ان کے افراد حکومت کی دی ہوئی نوکری کے مرہون منت ہیں۔ ان کی بحالی کے لئے نوازشریف نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے انہوں نے نااہل لوگوں کو بحال کروایا تھا۔ سیاسی شطرنج میں مسلم لیگ ن بری طرح پھنس گئی ہے۔ افتخار چودھری کا کردار بھی قوم کے سامنے ہے۔ آنے والے دنوں میں پتا چلے گا کہ پارلیمنٹ مضبوط ہوئی ہے یا وہ چار پانچ لوگ جو عدالت میں بیٹھ کر حکم چلا رہے ہیں۔ نیب کے معاملے پر سپریم کورٹ کا امتحان ہے۔ پورے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا ٹرائل ہوا ہے۔ مانیٹرنگ ڈیسک بن چکا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ کس طرح نیب کی مانیٹرنگ کرتا ہے۔ ماضی میں بھی ایک مرتبہ این آر او کی پروسیڈنگ رک گئی تھی جب تک سپریم کورٹ نے اس کا ”ری ویو“ فائنل نہیں کیا تھا۔ نیب میں اسٹیل ملز کا کیس آنے پر مجھ سے چیئرمین نیب نے پوچھا تھا کہ کیا کیا جائے۔ میں نے نیب کو روک دیا تھا کہ ”ری ویو“ کا فیصلہ آنے سے پہلے اسے روک دیا جائے۔ گیلانی صاحب کے کیس میں بھی نظر ثانی کا فیصلہہ آنے تک اسے روک دیا گیا تھا۔ حالانکہ اپیل میں ایسے نہیں ہوا تھا۔ اب سپریم کورٹ کا ٹیسٹ ہے کہ وہ نیب کے معاملے کو کس طرح آگے لے جانا چاہتا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv