تازہ تر ین

9 سال خاموشی کے بعد اچانک ضمیر کیوں جاگا ؟ ضیا شاہد مفاد پرست ہوتی تو ن لیگ میں جاتی : فردوس عاشق اعوان

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں فردوس عاشق اعوان کو زمانہ طالب علمی سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ ایک بہادر اور نڈر سٹوڈنٹ لیڈر تھی۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔ وہیں میری بیٹی بھی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ انہوں نے میڈیکل کالج میں سٹوڈنٹ کو منظم کر کے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا۔ ان کا کسی سیاسی اجارہ دار خاندان سے تعلق نہیں تھا اس کے باوجود اپنی محنت سے مقام پیدا کیا۔ سید مشاہد حسین ہمارے دوست تھے وہ پہلے صحافی ہوتے تھے۔ ”مسلم“ کے ایڈیٹر تھے۔ پھر نوازشریف دور میں سیکرٹری اطلاعات مقرر ہو گئے وہ ہمیشہ کہتے تھے جب ہماری حکومت آئے گی ہم سب سے پہلے وزارت اطلاعات کو ختم کریں گے کیونکہ اس کی ضرورت نہیں۔ جب یہ وزیر بن گئے تو ہم انہیں چھیڑتے تھے، کہاں گئے آپ کے وعدے۔ انہوں نے اس وزارت کو اور زیادہ ”ٹائٹ“ کر دیا۔ اشتہارات سے لے کر حکومتی احکامات کے ذریعے اخبارات کو اور زیادہ اپنا فرمانبردار بنا لیا۔ میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کا گرویدہ تھا لیکن میرا بخار جلدی اتر گیا لیکن فردوس عاشق کا بخار دیر سے اترا۔ میں نے بھٹو کو قریب سے دیکھا۔ وہ تقاریر میں کچھ اور تھے اور اصل میں بدترین فاشسٹ سیاستدان تھے۔ بھٹو دور میں دو مرتبہ اخبار بند کروایا۔ 21 بار جیلیں دیکھیں 14دن قلعہ میں ٹارچر برداشت کیا۔ 7 ماہ آخری دور میں جیل گیا۔ مس یوز آف جرنلزم کے تحت میرا اور شامی صاحب کا اخبار بھٹو نے آرڈر کر کے بند کروا دیا۔ بھٹو صاحب کی اندرونی سیاست سے اچھی طرح واقف ہو چکا تھا۔ جمہوریت کے دعوے دار اندر سے جمہوریت کے خلاف ہوتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان پچھلے پیپلزپارٹی دور میں وزیر رہیں۔ آصف زرداری کے سامنے ایک مرتبہ کراچی میں رو بھی پڑیں تھیں لیکن ان پر پیپلزپارٹی کے رموز بہت دیر سے آشکار ہوئے نوازشریف دور میں بھی انہوں نے پونے چار سال پیپلزپارٹی کے ساتھ گزار دیئے۔ پیپلزپارٹی کے تمام تر راز جاننے کے باوجود انہوں نے آصف زرداری کو کرپٹ ترین شخص کیوں نہیں کہا اور کیوں نہیں کہا کہ ان کی بہن نقد پیسے وصول کرتی تھیں۔ جے آئی ٹی 12 عدد بن چکی ہیں جس میں ہر کسی نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم نے قبول کیا ہے کہ ہم اتنے پیسے بلاول ہاﺅس میں دیا کرتے تھے۔ اس وقت یہ خاموش رہیں۔ فردوس عاشق اعوان اگر عوام کی خاطر، عوام کے مسائل حل کرنے کی سیاست کرتی ہیں تو کیوں یہ میاں نوازشریف کے ساتھ نہیں جڑ جاتیں جو دن رات عوامی کام کر رہے ہیں۔ عوام کے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر آپ نے تحریک انصاف کو جوائن کر لیا ہے۔ آپ کی ہر بات آپ کی گفتگو کی نفی کر رہی ہے۔ آپ عوام کا کام کروانے کے لئے اقتدار میں موجود پارٹی کو جوائن کرنے کی بجائے ایک مخالف پارٹی کو جوائن کر بیٹھی ہیں۔ اگر آپ نے عوام کے لئے سیاست کرنی تھی تو شہبازشریف بہترین متبادل تھے۔ عمران خان نے اسی عمارت میں سیاست میں آنے کا اعلان کیا، ہم نے اس کی تقریر کمپوز کروائی اور پہلی مرتبہ لگوائی۔ عمران خان بھی جس نقطہ پر پھنس جاتا ہے وہ کہتا ہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے میں اس سے ہلنے والا نہیں۔ آپ بھی اسی طرح کی سوچ رکھتی ہیں۔ عمران خان جب بھی مجھ سے ملتا ہے میں اس سے کہتا ہوں فلاں شخص تیرے ساتھ نہیں ہے تو میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ میں اکیلا ہی کھڑا رہوں گا۔ اعتماد، ضد اور ایک نقطے پر جمے رہنے میں آپ دونوں میٹر ہو۔ آپ کی ایک پیش گوئی تو سچ ثابت ہوئی کہ پیپلزپارٹی کے لوگ پارٹی سے مایوس ہو کر تحریک انصاف میں جا رہے ہیں۔ دوسری پیش گوئی سچ ثابت نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور شہباز شریف جب سعودی عرب میں تھے۔ پرویز مشرف نے خود مجھ سے کہا کہ ہماری فوج میں بہت سے افسر اور لوگ شہباز شریف کے بارے سافٹ کارنر رکھتے ہیں اور ہم اس بارے سوچنے کو تیار ہیں کہ اگر شہباز شریف خود کو نوازشریف سے الگ کر لیں تو ہم تمام مسلم لیگوں کو آرگنائز کر لیں گے۔ ہم اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں میں نے یہ پیغام ان تک جدے بھی پہنچایا لیکن دونوں بھائی اکٹھے چلنا چاہتے تھے۔ مشرف جو این آر او، شہباز شریف کے ساتھ کرنا چاہتے تھے وہی انہوں نے بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا۔ یہ تاریخی سچ ہے۔ مسلم لیگ (ن) مرکز کے مقابلے میں پنجاب میں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ تحریک انصاف کو جوائن کر کے پنجاب میں میاں شہبازشریف کو ہرا سکتی ہیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو تحریک انصاف میں آنے کا عوام کو کیا فائدہ پہنچا۔ تحریک انصاف کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گراس روٹ لیول کی سیاست کرنا بہت مشکل ہے۔ خصوصاً خواتین کی سیاست کرنا مشکل ہے۔ مخصوص نشست پر کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں جانا بہت آسان ہے۔ مردوں کے معاشرے میں اورسیاسی حلقے میں مقابلہ کرنا خواتین کیلئے بہت مشکل کام ہے۔پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لئے ایک لمبا سفر طے کیا۔ اس کے دوران تربیت حاصل کی۔ سیاست میں آنے کے لئے کچھ کر گزرنے کا عزم ہونا ضروری ہے۔ سماجی کارکن خاتون اور یوتھ لیڈر کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا۔ ورلڈ اسمبلی اؑٓف یوتھ سے سیاست کا آغاز کیا جب پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو تھے۔ مجھے ڈاکٹر ہونے کے باوجود کیبنٹ ڈویژن میں لگا دیا گیا یہ کام میرے پیشے کے لحاظ سے مختلف تھا۔ (ق) لیگ کے دور میں مجھے گاڑی دفتر، سب کچھ مل گیا۔ میں پیپلزپارٹی کی شکر گزار ہوں جنہوں نے 42 ہزار کے ووٹوں کی لیڈ سے اسمبلی میں پہنچایا۔ بینظیر بھٹو کے بعد پارٹی یتیم ہو گئی۔ پارٹی میں واضح تبدیلی آ گئی پیپلزپارٹی کا منشور عوام کی خدمت تھی۔ جسے وہ طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ اب میری قیادت چوروں کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور بھٹو کا نظریہ دفن کر دیا۔ پیپلزپارٹی کا ورکر اصل اثاثہ تھا لیکن قیادت نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ کارکن کو میرٹ کے خلاف نظرانداز کر دیا گیا۔ سٹوڈنٹ لیڈر کے دور میں نوازشریف کو للکارا تو میرے خلاف پرچے کٹے اس کے باوجود میں نے جلسے جلوس کئے۔ ایسی بہادر خاتون اگر اپنی ہی وزارت میں رو پڑے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کتنی بے بس ہو گی اور اسے کتنا روکا جا رہا ہو گا۔ مجھے پارٹی میں اپوزیشن لیڈر کا خطاب مل چکا تھا جس سسٹم میں میں سیاست کر رہی ہوں وہ اقتدار لیس سسٹم ہے۔ اس کے اندر لوگوں کو میرے نظریے، کام اور جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر وزارت کے پہلے دن اگر میں اسے چھوڑ دیتی تو حلقے میں چلنا میرے لئے مشکل ہو جاتا۔ عوام کی دلچسپی ہوتی ہے کہ ان کا کام ہونا چاہئے۔ اگر آپ حکومت سے علیحدگی اپنے نظریات پر کرتے ہو تو عوام بھی آپ کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنے عوام کے لئے تاریخی اقدامات اٹھائے۔ یہی میرا فرض تھا۔ میں نے تین دفعہ استعفیٰ دیا۔ ایک مرتبہ چوہدری شجاعت نے مجھ سے استعفیٰ واپس کروایا۔ دوسری مرتبہ زرداری نے اور تیسری مرتبہ یوسف رضا گیلانی نے۔ میں نے لولی لنگڑی وزارت قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ پارٹی سے بغاوت بھی کی لیکن عوام نے مجبورکیا اور پارٹی سے جڑی رہی۔ 2013ءمیں مختلف پارٹیوں کے ساتھ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے مجھے دعوت دی اور ٹکٹ آفر کیا لیکن میں نے پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھائی کیونکہ اس کا قرض مجھ پر تھا۔ وزارت کا قرض چار سال تک ادا کرتی رہی اور پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔ سیاست دو قسم کی ہوتی ہے ایک عوامی سیاست دوسری اپنے ضمیر کی سیاست۔ مسلم لیگ ن کے دور میں عوام تو پسے ہوئے ہیں جبکہ ن لیگ کا مفاد پرست ٹولہ مزے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمران خان کو اس کے نظریات، آئیڈیالوجی، اس کی مستقل مزاجی کی وجہ سے جوائن کیا ہے۔ پاکستان کے پارلیمانی نظام حکومت میں ہر تبدیلی پارلیمنٹ سے آتی ہے اس کے لئے حلقے سے جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچنا ضروری ہے۔ عمران خان کہاں سے فرشتے لے کر آ جاتے جن کے دامن صاف ہوں اور وہ بلا روک ٹوک کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں چلے جائیں۔ پاکستان میں لانگ ٹرم سیاست کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک مستقل سوچ والے شخص کا ساتھ دیا جائے۔ عمران خان کا لوگوں میں جانا، ان کو اٹھانا، کرپٹ لوگوں کو عدالت کے سامنے لا کر کھڑا کر نا اور تمام چیلنج قبول کرنا، سب لیڈروںسے منفردہے۔ میں مسلم لیگ ن میں جاتی تو بہت غلط ہو سکتا تھا کیونکہ میں نے آنے والی نسلوں کا فائدہ سوچنا ہے اور میں نے ملک کی عوامی سیاست کرنی ہے۔ میرا پیپلزپارٹی سے نکل جانا اتنا بڑا نقصان نہیں جتنا نذر گوندل کا آنا۔ میرے نکلتے ہی پیپلزپارٹی کے دانے گرنا شروع ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کرنے کے لئے موجودہ حالات میںکوئی بھی پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کے ساتھ کھڑا رہ کر سیاست نہیں کر سکتا۔ لیڈروں کو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے بارے میں غلط امیج بنایا گیا ہے اور اس میں میڈیا کا بہت اہم رول ہے جس میں شہبازشریف کو بہتر لیڈر ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مجھے پتا ہے کہ کسان، انڈسٹری، گندم کے مسائل، ہیلتھ ریفارمز، یوتھ کے مسائل کے پیچھے شہبازشریف کا ہاتھ ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد اس کا تعین ہو جائے گا کہ اقتدار کے پیچھے ایک گینگ ہے۔ جس کے ساتھ چند مفاد پرست افراد ہیں یہ حکومت نہیں، شہنشاہیت ہے۔ آئندہ انتخابات کے بعد یہ کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ حکمرانوں نے ڈرا، دھمکا کر لوگوں کو ساتھ ملایا ہوا ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان کا یہ خوف ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاد پرست جبکہ عمران خان کے ساتھ عوام کھڑے ہیں، ہمیں اس فرق کو سمجھنا ہو گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv