تازہ تر ین
rehman-malik

”عالمی عدالت کسی دہشتگرد کا کیس نہیں سن سکتی“ رحمان ملک کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کلبھوشن کیس کے حوالے سے بہت سارے سوالات کے جوابات سامنے نہیں آئے، حکومت حسب معمول مکمل حقائق سامنے نہیں لانا چاہتی۔ ڈان لیکس رپورٹ کو بھی یہ کہہ کر چھپا لیا گیا کہ یہ قومی مفاد کے حق میں نہیں۔ ملک میں کوئی بھی انکوائری ہو اس کی رپورٹ کو اگلی نسلوں کے لئے بینک لاکر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ قومی مفاد میں یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی تحقیقات ہوں اس کی رپورٹ عوام کے سامنے رکھی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر چوری کے الزام کا کیس عالمی عدالت میں گیا تھا، یہ واحد کیس ہے جو پاکستان نے جیتا۔ لیکن اس کے بعد کوئی ایسا کیس نہیں جس کا فیصلہ ہمارے حق میں آیا ہو۔ عالمی عدالت میں دونوں فریقین کی مرضی کے بغیر سماعت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے اگر وہاں جا کر یہی کہنا تھا کہ ہم عالمی عدالت کو نہیں مانتے تو پھر بہتر تھا کہ جاتا ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جندال کی آمد ایک خاص مرحلے پر ہوئی، مریم نواز اور حکومتی بیانات نے اسے خود ہی متنازعہ بنا دیا۔ بی بی سی نے خبر نشر کی کہ جندال ایک خاص مقصد لے کر آیا، فوج کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔ شروع میں ہی جندال دورے کی سرکاری وضاحت کر دی جاتی تو بات وہیں ختم ہو جاتی لیکن اس حوالے سے ہر کوئی خاموش ہے لہٰذا جتنی مرضی قیاس آرائیاں کرتے جائیں۔ رحمان ملک کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ ان پڑھ سیاستدانوں کی طرح باتیں نہیں کرتے، خاص طور پر جب بات تفتیش و تحقیق کے حوالے سے ہو کیونکہ ان کی زیادہ عمر ایف آئی اے میں گزری وہ انویسٹی گیشن کا خاص تجربہ رکھتے ہیں۔ اس بیان پر کہ ”عالمی عدالت جانے سے پہلے سپریم کورٹ سے رائے لینا چاہئے تھی“ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے رائے لینا ایک طویل المدتی عمل ہے۔ تجزیہ کار نے کہا کہ سرحدیں جغرافیائی و نظریاتی دو طرح کی ہوتی ہیں۔ نظریاتی سرحدوں کی بنیاد پر ملک قائم رہتے ہیں جبکہ جغرافیائی سرحد میں یہ ہوتا ہے کہ ادھر دریا و سمندر ہیں اور ادھر پہاڑ وغیرہ ہیں۔ نظریاتی سرحد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی ملک کے دو حصے ہوئے ہیں۔ زمین پر لائن کھینچی کہیں نظر نہیں آئی یہ سب نقشے میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی صوبے کو توڑنے یا نیا صوبہ بنانے کے لئے آئینی و قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ اس کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ اچکزئی کہتے ہیں کہ نئے صوبے کا نام افغانیہ رکھیں گے جس میں بلوچستان و خیبر پختونخوا کے افغان علاقے ہوں گے، اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے چلنا پڑے گا۔ عبدالولی خان کے صاحبزادے اسفند یار ولی کہتے ہیں کہ افغان پیدا ہوا، افغان ہی مروں گا، ان کے والد عبدالولی خان بھی یہی کہتے کہتے مر گئے اور ان کے دادا عبدالغفار خان نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے پاکستان میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ میں پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا۔ اب ان کے پوتے بھی یہی کہتے ہیں کہ میں افغانستان کو مانتا ہوں۔ یہ دو قومی نظریے کو کم ہی مانتے ہیں، ایم کیو ایم کے بانی بھی یہی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سراج الحق کی اس بات کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ کسی کرپٹ شخصیت کو ٹکٹ نہیں دیں گے لیکن معذرت کے ساتھ ماضی میں جماعت اسلامی بھی پیسے لے کر ٹکٹیں دیتی رہی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ وزیراعظم نے آج تک وزارت خارجہ اپنے پاس رکھی ہوئی ہے، ان کی اپنی اتنی مصروفیات ہیں کہ وزارت خارجہ کی ذمہ داری سنبھالنا ممکن نہیں۔ سرتاج عزیز یو این او میں رہے ہیں لیکن وہاں ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن میں کام کرتے تھے، وہ ڈپلومیٹک تجربہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ میں بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں لیکن بطور وزیر خارجہ کوئی مناسب شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ ماضی میں ذوالفقار بھٹو اور خورشید قصوری اچھے وزیرخارجہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف اور عمران خان کی تقاریر میں بار بار پرانی باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ دونوں سے کہتا ہوں کہ کوئی نئی بات بھی کر لیا کرو۔ ہر تقریر میں پرانی باتیں دہرائی جاتی ہیں، کوئی اخبار نویس آپ کی ایک ہی بات کو کتنی بار شائع کر سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سنیٹررحمن ملک نے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، کسی دہشتگرد کا کیس اس عدالت میں نہیں سنا جا سکتا۔ یو این او کا فیصلہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف ہر ملک و حکومت تعاون کرے گی اور کسی قسم کا لحاظ نہیں برتا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کا دائرہ احتیار کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اگر چلے بھی گئے تھے تو وہاں مودی کے پاکستان کے توڑنے کے حوالے سے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت کو بے نقاب کرنا چاہئے تھا۔ مودی نے کہا کہ ہندوستان نے پاکستان کو توڑا، بلوچستان کی آزادی کے حق میں ہیں اور اس کے لئے مدد بھی فراہم کریں گے۔ عالمی عدالت میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے ایک نہیں مانی۔ کلبھوشن کے پکڑے جانے کے بعد وزیراعظم سے کہا تھا کہ یہ کیس یو این او میں لے جائیں۔ اگر چلے جاتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ پاکستان اگر عالمی عدالت میں نہ جاتا تو وہ فیصلہ نہیں سنا سکتی تھی، اس نے سیکرٹری جنرل یو این او کو لکھنا تھا کہ میں نے بلوایا تھا مگر وہ نہیں آئے۔ پاکستان نے اپنی داڑھی اپنے ہاتھ میں لے لی۔ یو این او کو بتانا چاہئے تھا کہ کسی دہشتگرد کا کیس عالمی عدالت میں نہیں جا سکتا، اس کو دور رکھا جائے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv