تازہ تر ین

کلبھوشن ”را“ کا حاضر سروس افسر،اعتراف جرم بھی کرچکا،ہرصورت سزاملنی چاہیے نامور تجزیہ کار ضیاشاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل سے ایک بھارتی قیدی کو جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کیا گیا تو بارڈر پار کرتے ہی اس قیدی کا رویہ یکسر تبدیل ہوگیا اور وہ کہتا رہا کہ اس نے پاکستان میں کیا‘ کیا وارداتیں کیں۔ کلبھوشن یادیو ایک حاضر سروس افسر تھا جو پاکستان میں جاسوسی کرتے پکڑا گیا اور اس نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ پاکستان نے دنیا بھر میں عالمی اداروں کو اس جاسوس بارے ڈوزیئر بھجوائے جن پر یو این سمیت کسی نے اعتراض نہ کیا جس سے ظاہر ہوگیا کہ شواہد مضبوط تھے اور انہیں قبول کرلیا گیا۔ اس کے بعد بھارتی جاسوس کے ٹرائل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ پاکستان کے قانون کے تحت ہی بھارتی جاسوس کا ٹرائل ہوا۔ کلبھوشن اپنی سزا کیخلاف فوجی عدالت میں اپیل کا حق رکھتا ہے۔ صدر سے بھی رحم کی اپیل کرسکتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ بھارت سے تعلقات خراب ہوجائیں گے تاہم میرے نزدیک بھارت سے تعلقات کا انحصار صرف کلبھوشن پر نہیں ہے مودی حکومت آنے کے بعد بھارت نے پاکستان اور مسلمانوں کے حوالے سے ایک مستقل رویہ اختیار کررکھا ہے۔ کلبھوشن کو عام ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ ایک حاضر سروس افسر تھا جس نے اعتراف جرم کیا اور ”را“ سے تعلق کو قبول کیا۔ اس کا ٹرائل ضروری تھا۔ نیپال میںپراسرار طور پر غائب ہونے والے پاکستانی ریٹائرڈ آرمی افسر کا کیس تو کسی صورت کلبھوشن کے کیس سے نہیں ملتا۔ نیپال ایک خالص ہندو سٹیٹ ہے جس کا سرکاری مذہب ہندومت ہے۔ میرے خیال میں کلبھوشن کو سزا ملے گی اور ملنی بھی چاہئے کیونکہ اگر اسے سزا نہیں ملتی تو پھر کسی کو بھی نہیں ملے گی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ماضی میں الیکشن ہوتے رہے جن کا حریت رہنماﺅں سمیت مختلف جماعتیں احتجاجی طور پر بائیکاٹ کرتی رہی ہیں۔ تاہم اس بار جس شدت سے بائیکاٹ کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ الیکشن کمیشن کو ناکامی تسلیم کرنا پڑی صرف 7 فیصد ٹرن آﺅٹ رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں یہ ایک طرح سے عوامی ریفرنڈم ہوگیا ہے جس میں وہاں کے لوگوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کسی صورت نہیں رہ سکتے۔ بھارت کو مانتے ہیں نہ اس کے انتخابات کو تسلیم کرتے ہیں۔ کشمیریوں کا جذبہ حریت اس وقت اپنی بلندی پر ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ میں کشمیر کی حمایت جذباتی طور پر نہیں بلکہ عقلی بنیادوں پر کرتا ہوں۔ سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ پہلی بار بھارت لیکر گیا جس پر یہ قرارداد پاس ہوئی کہ فوج کو وادی سے نکال کر کشمیر کے دونوں حصوں میں رائے شماری کرائی جائے اور کشمیریوں کو حق حاصل ہو کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہیں یا بھارت کے ساتھ مستقبل وابستہ کرلیں اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو متنازعہ مسئلہ سمجھا۔ 1971ءکی جنگ کے بعد پاکستان اور بھارت میں براہ راست مذاکرات میں طے پایا کہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر اس پر بات چیت کریں گے۔ ان مذاکرات میں بھی اسے متنازعہ مسئلہ ہی سمجھا گیا۔ آج دنیا کے ہر بڑے فورم پر کشمیر کو متنازعہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس متنازعہ مسئلہ پر اگر بھارت 70 سال سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہا ہے اور مذاکرات کی جانب نہیں آتا تو کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ کشمیری خود میدان میں اتر چکے ہیں اور اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر آزادی کے چراغ کو روشن کردیا ہے۔ کشمیریوں کو اس موجودہ تحریک آزادی میں پاکستان یا آزاد کشمیر کی کوئی مدد حاصل نہیں ہے۔ سینئر دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کے بارے میں ڈوزیئر پیش کئے جاتے رہے لیکن دنیا نے کوئی پروا نہ کی اب ایک سخت پیغام گیا ہے۔ اب دنیا پاکستان سے اس بارے بات کرے گی اور پاکستان کو سچ دنیا کے سامنے لانے کا موقع میسر ہوگا۔ بھارت اور اس کے حواری واویلا کرتے رہیں گے۔ دنیا کے اہم ممالک کے بھارت کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں اس لئے سب یہ جاننے کے باوجود کہ کشمیر میں کیا ظلم و ستم ہورہا ہے آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ اب ان ممالک کو بھارت کی تکلیف کا پتہ چلے گا تو سفارتی سطح پر بات چیت شروع ہوجائے گی اور ہمیں موقع ہوگا کہ سچ کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت کیا کررہا ہے۔ کلبھوشن کیس کے علاوہ بھی بھارت پاکستان میں جو مذموم کارروائیاں کرتا رہا ہے سب کے ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو غیرملکوں سے پیسہ لیکر یہاں احتجاج کرتے ہیں کہ فوجی عدالتیں نہ بنائی جائیں۔ سزائے موت نہ دی جائے۔ اب کلبھوشن کیس کے بعد بعض مغربی ممالک کے چہرے بھی سامنے آئیں گے جو پہلے درپردہ تھے۔ اگر کوئی حاضر سروس جاسوس پکڑا جائے تو اس کے ٹرائل کے قوانین عام ملزم سے مختلف ہوتے ہیں۔ کلبھوشن چاہے تو فوج کے اپیلٹ کورٹ میں اپیل کرسکتا ہے۔ ثبوت موجود ہیں کہ صفورا گوٹھ واقعہ‘ کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ اور وکلاءپر حملہ میں کلبھوشن اور اس کے بندے اور ان کی پشت پر ”را“ موجود تھی۔ معروف قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ کلبھوشن کا ٹرائل فوجی عدالت کرے گی تو اپیل بھی اسی عدالت میں کی جائے گی۔ تاہم فوجی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ کسی خاص کیس کے متعلق اگر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ انصاف ہوتا محسوس نہیں ہورہا تو پھر عام طور پر سپریم کورٹ اس کی اپیل سننے کی منظوری دے دیتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ ریاست اس حوالے سے کیا سوچ رہی ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv