تازہ تر ین

بھٹو کو ملک کا متفقہ آئین بنانے ایٹمی پروگرام پر کام شروع کرنے کا کریڈٹ جاتا ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”صیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قائداعظم کے بعد دوسرے بڑے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔ قائداعظم کے بعد وہ پہلے لیڈر تھے جنہوں نے عام آدمی کے اندر ہمت پیدا کی اور بہادری کے ساتھ جینا سکھایا۔ بھٹو نے 70ءکے انتخابات میں پنجاب سے زبردست کامیابی حاصل کی۔ ان کا نعرہ ”سوشلزم ہماری معیشت، جمہوریت ہماری سیاست، اسلام ہمارا دین اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں“ تھا۔ جس پر عوام نے والہانہ انداز میں بھٹو کو ووٹ دیئے، باقی پارٹیو ںکی تقریباً چھٹی ہو گئی تھی۔ بدقسمتی یہ رہی کہ بھٹو نے مشرقی پاکستان اور مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا، نتیجے میں عملاً ملک 2 حصوں میں تقسیم ہو گیا اور رہی سہی کسر بھٹو کے اس نعرے نے پوری کر دی کہ ”جو کوئی شیخ مجیب الرحمان کے بلائے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جائے گا، ٹانگیں توڑ دیں گے“ اس پر مذاکرات ہوئے، پھر بھٹو نے اعلان کیا کہ مجیب الرحمان کے 6 نکات میں سے ساڑھے 5 نکات مان لئے ہیں جبکہ اس آدھے نکتے کا راز کبھی نہیں کھل سکا۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو جیسا وزیرخارجہ پاکستان کی تاریخ میں نہیں گزرا لیکن 65ءکی جنگ میں جب رشیا کی مداخلت سے تاشقند میں معاہدہ طے پایا۔ اس وقت بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ تاشقند کے راز بتاﺅں گا لیکن انہوں نے نہیں بتائے۔ البتہ بھٹو کو ملک کے پہلے آئین، سینٹ و قومی اسمبلی کی بنیاد رکھنے کا کریڈٹ جاتا ہے۔ ان کے دور میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو نوکریاں ملیں، پھر بعد میں کراچی میں ایم کیو ایم نے بھی بھٹو کا یہی نسخہ اپنایا اور سیاست کی بنیاد پر اپنے لوگوں کو نوازتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر بھٹو کے دور کو سیاسی آمریت کا دور سمجھتا ہوں۔ ان میں بہت ساری خوبیاں تھیں، انہوں نے اسلامی کانفرنس بنا کر شاہ فیصل شہید کے ساتھ مل کر اسلامی ممالک کو اکٹھا کیا، زبردست وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک بلاک بنایا، ایٹمی اثاثوں پر توجہ مرکوز کی جس کے بارے میں آج بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں کہ ”پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا“ لیکن ان ساری خوبیوں کے ساتھ ایک خاص تھی کہ پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر 70ءکے انتخابات میں ان کی پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگا، مفتی محمود کی قیادت میں 9 سیاسی جماعتوں نے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی، جس پر مذاکرات ہوئے جو کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے تھے لیکن اچانک ڈرامائی طور پر بھٹو بیرون ملک چلے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو ضیاءالحق نے انہیں معزول کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا اور ان پر پرانے قتل کا مقدمہ شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو دور میں میرے 2 اخبار بند ہوئے، 14 دن شاہی قلعہ اور 7 ماہ جیل میں رہا لیکن ان ساری زیادتیوں کے باوجود اس وقت ایڈیٹر کی حیثیت سے ایک آڈیٹوریل لکھا تھا کہ ”بھٹو کو پھانسی، خدارا یہ غلطی نہ کریں۔“ سپریم کورٹ کے جج نسیم حسن شاہ نے بھی بعد میں کہا تھا کہ ”ان پر بہت دباﺅ تھا، اگر برداشت کر لیتے اور پھانسی کے حق میں فیصلہ نہ دیتے تو ایک شریف آدمی بچ جاتا۔“ تجزیہ کار نے کہا کہ سیاستدان کو جسمانی سزا دینے کے اثرات ملکی سیاست پر پڑتے ہیں، پھر وہی ہوا کہ بھٹو کی پھانسی سے لے کر آج تک سندھ و پنجاب کے درمیان مستقل نفرت پائی جاتی ہے کیونکہ اندرون سندھ کے عوام آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پھانسی کا حکم پنجاب کے ججوں و جرنیلوں نے دیا۔ سیاستدان کی سیاست کا خاتمہ کبھی بھی اسے جسمانی طور پر ختم کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ بھٹو نے بہادری کے ساتھ پھانسی کو گلے لگایا۔ اس وقت بھی بھٹو کو پیشکش کی گئی تھی کہ 6,5 سال کے لئے اگر سیاست چھوڑ دیں تو سعودی عرب آپ کو باہر لے جائے گا لیکن انہوں نے ان کی پیش کش ٹھکرا دی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے کسی وزیراعظم کو بچانے کی کوشش کی ہو۔ مجھے چودھری ظہورالٰہی جو اس وقت وفاقی وزیر تھے، انہوں نے مجید نظامی مرحوم کے دفتر میں مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے ضیاءالحق اور بھٹو کو منانے کے لئے ایک وفد بھیجا تھا لیکن ذوالفقار بھٹو نہیں مانے۔ بھٹو نے معراج محمد خان اور مصطفی کھر کو اپنا جانشین قرار دیا تھا لیکن جب انہوں نے بغاوت کی تو ان دونوں کے علاوہ بہت بڑے پیمانے پر بڑے برے طریقے سے لوگوں کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو پڑھا لکھا نوجوان ہے اور اس میں اپنے نانا اور والدہ کے کچھ رنگ بھی ہیں، اس سے امیدیں وابستہ ہیں لیکن جب تک پارٹی میں زرداری کی مداخلت ختم نہیں ہو گی اس وقت تک بلاول کا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا۔ زرداری دور کوئی بہت اچھا نہیں گزرا، ان کے دو وزرائے اعظم آج بھی کرپشن کے کیسز بھگت رہے ہیں۔ آصف زرداری بھی فوج کو آنکھیں دکھا کر باہر بھاگ گئے تھے، اب کچھ سننے میں آ رہا ہے کہ ان کی سٹیبلشمنٹ سے صلح ہو گئی ہے، پہلے وہ جو دھمکیاں وغیرہ دیتے تھے اب ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ زرداری نے 3 دفعہ نوازشریف کی حکومت کو گرتے گرتے بچایا۔ انتخابات قریب آنے کی وجہ سے اب ان کے لہجے میں تبدیلی آئی ہے۔ انتخابات جب بھی ہوں میرے نزدیک ملک کی جغرافیائی صورتحال میں ماضی جیسے نتائج ہی نظر آتے ہیں۔ پنجاب میں پی پی زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی، نون لیگ کو ہی برتری حاصل رہے گی۔ سپریم کورٹ نے سخت ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت ”سرزمین بے آئین“ ہے۔ 9 سالوں میں پی پی کراچی سے کچرا نہیں صاف کر سکی۔ کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ کچرا اٹھانے کے نام پر پیسہ کھا لیا جاتا ہے۔ چودھری نثار کا سیکرٹری کو ہٹانے کے سوال پر تجزیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا تقریباً ہر وزارت میں ہوتا ہے۔ جو تگڑا ہوتا ہے وہ اپنی بات منوا لیتا ہے۔ امریکہ میں الطاف خانانی کو منی لانڈرنگ کیس میں 68 ماہ قید کی سزا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا نظام بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نہیں۔ ملک میں عدل و انصاف کے نظام میں بہت سارے چور دروازے، نقائص موجود ہیں۔ ضیا شاہد نے ماضی میں خود کے جیل کاٹنے کا ایک واقعہ سنارے ہوئے کہا کہ اخبار نویس ہونے کی وجہ سے حقیقت لکھنے پر بہت بار جیل کاٹی لیکن ایک بار ان کی جیل میں سیٹھ عابد کے کچھ لوگ آ گئے، رات کو ہمیں ایک کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا جبکہ سیٹھ عابد کے لوگ ایک شاندار کمرے میں رہتے تھے، جہاں کارپٹ، ٹی وی سمیت ہر سہولت موجود تھی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv