تازہ تر ین

”کراچی میں بلاول بھٹو جلسہ جلوس نکالتے تو کیا سندھ حکومت انہیں روک سکتی تھی“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ ہمارے علما کرام انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشتگردی کےخلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں تاہم کہیں نہ کہیں ان کی جانب سے کمی ضرور ہے کیونکہ انتہا پسند انہی کے اداروں سے نکلنے والے طلبہ ہی بنتے ہیں۔ سنی و شیعہ طبقہ فکر دونوں کے علما پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو یہ تعلیم و شعور دینے میں ناکام رہتے ہیں کہ مسلمان کا خون بہانا حرام ہے اور خدا کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں کمی آئی تھی لیکن بھارت بھی اس آگ کو بڑھکانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ بھارتی ”را“ پاکستان میں دہشتگردی کراتی ہے اور اس کےلئے بھاری فنڈز فراہم کرتی ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تحقیقات بھی اس سطح کی نہیں کی جاتی کہ دہشتگردی میں ملوث اصل عناصر تک پہنچا جا سکے۔ دہشتگردی کے سہولت کاروں کی مکمل بیخ کنی کے بغیر اس پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ دہشتگردی کی تربیت و ترغیب دینے والے، پیسہ فراہم کرنے والے، پلاننگ کرنے والوں کو پکڑا جائے تو اس لعنت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ایک جانب تو ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں دعوے کرتی ہیں کہ جمہوریت میں احتجاج کرنا عوام کا حق ہے، دوسری جانب اگر عوام یا کوئی جماعت احتجاج کرے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی احتجاج ہی کیا تو ان کے قائدین کو حراست میں لے لیا گیا۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے بنیادی حقوق کےلئے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتی ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ دہرا معیار اختیار نہ کرے۔ شاہراہ فیصل پر اگر بلاول بھٹو اس سے بھی بڑا اجتماع کرتے اور پورے علاقے کی ٹریفک بھی بلاک ہو جاتی تو بھی قانون کو کوئی شکایت نہ ہوتی لیکن یہی کام دوسرا کرے تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔ یہی عدل و انصاف کا خون ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ایم کیو ایم نے جب کراچی کی سیاست پر قبضہ کیا تو باقی سیاسی جماعتیں وہاں سے رخصت ہو گئیں جن میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ اب متحدہ ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے تو اس کا خلا پورا کرنے کےلئے بھی سیاسی جماعتوں میں دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں ہی اس کوشش میں ہیں کہ وہ اس خلا کو پورا کریں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اگر کوئی کاروباری شخصیت یا ادارہ عوامی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے تو حکومت کو اسے سہولت فراہم کرنی چاہیے نہ کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے۔ ملک ریاض اگر کراچی کے پارک کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے وہ پارک پر قبضہ تو نہیں کر رہے۔ پوری دنیا میں عوامی فلاحی کام اسی طرح ادارے یا افراد کرتے ہیں اور ان کی حکومتیں اس کا اعتراف کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ماضی میں ایسی کئی درخشندہ مثالیں موجود ہیں، سیالکوٹ کے عالمی سطح کا کھیلوں کا سامان تیار کرنے والے ادارے کے سربراہ خورشید صاحب فلاحی کاموں کے حوالے سے مشہور شخصیت تھے، سیالکوٹ سٹیڈیم، پارکوں کی تعمیر نو اور گوجرانوالہ سیالکوٹ روڈ پر لائٹنگ ان کی نمایاں خدمات تھیں۔ ایسے ہی ہمارے ایک صنعتکار دوست ہیں جنہوں نے کئی سکولز کا ذمہ لے رکھا ہے اور ان سکولز کی حالت ہی بدل دی ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ عبدالستار ایدھی ایک بڑی شخصیت تھے ان کے نام کا سکہ جاری کرنا اچھی کاوش ہے تاہم اصل بات ان کے مقصد کی ترویج ہے اور ان کے اعلیٰ مقصد کو پھیلایا جانا ضروری ہے۔ ایدھی صاحب کے نام پر مزید فلاحی ادارے بننے چاہئیں یہی ان کے کام کو آگے بڑھانے کا حق ادا کرنا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv