تازہ تر ین
Islamabad High Court

نبوت کا جھوٹا دعویدار …. اسلام آباد ہائیکورٹ نے بڑا حکم نامہ جاری کر دیا

اسلام آباد (کرائم رپورٹر‘بی بی سی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے نبوت کے جھوٹے دعویدار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم جاری کردیا،مارننگ شوز،ٹاک شوز، ٹی وی پروگرامز میں دکھائے جانےوالے مواد سے متعلق جائزہ کمیٹی بنانے اورایڈوکیٹ جنرل کو آئی ایس آئی کے اعلی افسران کو تفتیش کے عمل میں شامل کرنے کی ہدایت کر دی، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ پہلے زمانے میں خبرنامہ سے پہلے قرآن و حدیث سنائی جاتی تھی آج کل شیلا کی جوانی دکھائی جاتی ہے، سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کے نوجوانوں کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان میں رہ کر ناروے کا آئین چلانے کی کوشش نہ کی جائے۔تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی، عدالت نے ایف آئی اے کی کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اپنے کام کو سرانجام دینے میں ناکام ہو چکی ہے کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ پر اعتماد چھوڑ کر ہم عسکری اداروں سے مدد لیں،وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں موجود ایک شخص ناصر سلطان نبوت کا دعوی کیا ہے ، اسکا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور اس سے رپورٹ طلب کی جائے، عدالت نے ناصر سلطان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے چیرمین پیمرا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر چینل دیکھ سکتے ہیں، ماضی میں آپ بھی چینل سے وابستہ رہے ہیں، آپ چینلز کا لحاظ کر رہے ہیں، آرٹیکل 19 اگر آپ اپنے پیمرا کے قوانین میں ڈالیں تو چھ سے سات چینلز کا لائسنسز کینسل ہو جائے، چیرمین پیمرا ابصارر عالم نے عدالت کو بتایا کہ میری جو ماضی میں وابستگی رہی اسکا میں جوابدہ میں اللہ کے سامنے ہوں، ہم نے ایک سال دو مہینے میں بہت محنت کی ہے انڈین چینلز بند کیے ہیں، آپ کو نا امید نہیں کریں گے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فحاشی خواہ سعودی عرب سے آئے، ترکی سے آئے یا انڈیا سے آئے ہمیں اسکی ضرورت نہیں،اس کیس میں پیسہ نہیں ہے لیکن حضور پاک کی شان تو ہے، ضروری ہے کیا آپ وہی کیس کریں جس میں کوئی مفاد ہو ، پہلے خبرنامہ شروع ہونے سے پہلے احادیث چلتی تھیں اب شیلا کی جوانی کےاشتہارات چلتے ہیں،مارننگ شوز،ٹاک شوز، ٹی وی پروگرامز میں دکھائے جانےوالے مواد سے متعلق جائزہ کمیٹی بنائی جائے،آئندہ سماعت پر علماءسے بھی مشاورت ہو گی ، اللہ ہمیں وارننگ دے رہا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہو رہے ، ہم اپنے آخری نبی کی وجہ سے اب تک بچے ہوئے ہیں ،ہم انڈیا اور امریکہ کی پیروی کیوں کریں ، چیرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ہم نے پچھلے سال جرائم کے شو پر پابندی لگائی ، ہم جب پابندی لگاتے ہیں تو ہائی کورٹ سے کسی نہ کسی کو حکم امتناعی مل جاتا ہے ، عدالت نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ویلنٹائن ڈے کو رکوا سکتے ہیں تو ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں ، پاکستان میں رہتے ہوئے ناروے کا قانون نہیں چلنے دے سکتے،سماعت کے موقع پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے بتایا کہ متنازعہ پیجز چلانے والے ستر افراد کی نشاندہی کی گئی ہے کئی بیرون ملک مقیم ہے اس معاملے پر واشنگٹن میں ایک افسر کو بھی مقرر کردیا گیا ہے جبکہ انٹرپول کے سائبر ونگ سے بھی رابطہ کیا جاچکا ہیں متنازعہ مواد فیس بک کے زریعے اپ لوڈ ہونے پر فیس بک کی ہائی کمان سے بھی رابطہ کیا ہے اب ان کے حتمی جواب کا انتظار ہیں۔جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈائرآئی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہانیاں نہ سنائیں، حساس معاملہ ہے عدالت کو پیش رفت سے آگاہ کریں آپ یہ بتائیں کہ ملزمان کو پکڑنے کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ اس معاملے میں شامل افراد امریکہ ، ناروے اور سوئیڈن میں مقیم ہیں ان کی گرفتاری کے لئے انٹرپول کے سائبر ونگ سے رابطے میں ہیں جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے ایف آئی اے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو ٹریس کرنے کے حوالے سے ایف آئی اے کی کارکردگی متاثر کن نہیں آپ چاہتے ہیں کہ آپ پر اعتماد چھوڑ کر عسکری اداروں سے مدد لیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈائریکٹر ایف آئی اے مظہر الحق کاکاخیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ایک افسر نے عدالت کو گمراہ کیا تھا کہ ملزمان کے خلاف کارروائی اس لئے نہیں کی گئی کیونکہ ایف آئی اے کے قانون میں توہین رسالت کے خلاف دفعات موجود نہیں ، جس بندے نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی اسے آپ نے تحقیقاتی ٹیم میں شامل کیا ہوا ہے، جس نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اس پر کسی بھی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا ، ایسے شخص کو کسی بھی تحقیقاتی عمل میں شریک نہیں کیا جانا چاہیئے، یہ بہت حساس معاملہ ہے، برائے مہربانی اس کی حساسیت کو سمجھیں، یہ پاکستان ہے اور پاکستان میں پاکستان کا آئین ہی چلے گا ، ناروے، ڈنمارک یا ہالینڈ کا آئین یہاں نہ چلایا جائے، اس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ اس معاملے کے دو پہلو ہیں،ایک فیس بک کے متعلق ہے،فیس بک کے جواب کا ہمیں انتظار ہے، دوسرا یہ کہ ہم نے فیس بک کے جواب کا انتظار کئے بغیر ملزمان کے تعین کے لئے اپنی تحقیقات شروع کردی ہیں، اب تک 75افراد کی نشاندہی ہوئی ہے جو ان گستاخانہ پیجز تک رسائی کرتے تھے،ان کے انٹرویوز کیئے جارہے ہیں،اس کے علاوہ ہمارے اسلام آباد کے ایک وکیل فرخ کریم قریشی ہیں جنہیں ہم نے فیس بک کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کے لئے کہا ہے، وہ لندن میں اس حوالے سے مشاورت کررہے ہیں، اس کے علاوہ جو لوگ پاکستان سے باہر جاچکے ہیں ان کے متعلق ہم نے انٹرپول سے رابطہ کرلیا ہے اور انٹرپول سے ہم نے کہا ہے کہ ان افراد کی نقل و حرکت سے ہمیں آگاہ رکھا جائے، واشنگٹن میں اپنے سفارت خانے میں ہم نے ایک افسر تعینات کردیا ہے جو فیس بک سے اس حوالے سے رابطے میں رہے گا۔ فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر کیا کیا ہے ابھی تک آپ نے؟ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کوئی شواہد نہیں ہیں،جب تک فیس بک ہمیں معلومات نہیں دے گا اس وقت تک ہم کچھ نہیں کرسکتے،کوئی بھی ویب سائٹ پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے، ہمیں صرف فیس بک ہی بتا سکتا ہے۔فاضل جسٹس نے چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ ٹی وی چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز کو بھی ذرہ دیکھئے،جو کچھ ٹاک شوز میں ہورہا ہے وہ ثابت شدہ توہین عدالت ہے،عدالت کو گالیاں دے رہے ہیں ، اگر ہم توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو وہ لوگ یہاں سے سیدھے اڈیالہ جیل جائیں گے، مگر چونکہ یہ معاملہ بہت مقدس ہے اس لئے ہم اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کرنا چاہتے،اس لئے ایسے اینکرز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کریں گے اور نہ ہی عدالت آپ کو یہ کہتی ہے کہ آپ ان کے خلاف کاروائی کریں۔اس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہمیں آپ نے حکم نہیں دیا اور نہ ہی آپ حکم دے رہے ہیں مگر ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے، اگر کوئی ٹی وی چینل توہین عدالت کا مرتکب ہوا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔اس موقع حافظ مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایک ناصر سلطان نامی شخص نے نعوذباللہ نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنا کلمہ بھی بنایا ہے جواسلام آباد میں ہی موجود ہے،اسے پکڑنا کوئی مشکل نہیں، میری درخواست ہے کہ اس کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالنے اور اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کرنے کا حکم دیا جائے۔ اس پرفاضل جسٹس نے ڈائریکٹر ایف آئی اے اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو حکم دیا کہ ناصر سلطان نامی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالتے ہوئے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ دوران سماعت ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات نے عدالت میں عدالتی حکم پر پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں آئین کے آرٹیکل 19کی تشہیر کے متعلق رپورٹ بھی پیش کی۔بعدازاں فاضل جسٹس نے مذکورہ بالا حکم سناتے ہوئے سماعت 22مارچ تک ملتوی کر دی ۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv