تازہ تر ین

جسٹس جاوید اقبال صاحب کیا آپ کے ادارے میں سابقہ حکومتوں کے ایجنٹ تو موجود نہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کہنہ مشق صحافی اور معروف تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے گزشتہ دو روز سے بحث جاری ہے۔ دو دن قبل جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایک انکوائری کا رڈر دیا وہ انکوائی ایک نیوز آئٹم پر تھی جس پر لکھا ہوا تھا کہ نواز شریف نے 4.9 ارب ڈالر کی رقم پاکستان سے دبئی کے راستے انڈیا بھجوائی اس پر شور مچا۔ سب سے پہلے شاہد خاقان نے قومی اسمبلی میں تقریر کی یہ خبر بے بنیاد خبر ہے کیونکہ 2016ءکی جس ورلڈ بینک کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا اس میں نوازشریف کا نام ہی نہیں ہے۔ چیئرمین نیب کو اس جھوٹ کو پھیلانے کی پاداش میں قومی اسمبلی میں طلب کیا جائے جس کی پی ٹی آئی نے فوراً مخالفت کی البتہ پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم سوچ کر جواب دیں گے۔ کل ہی شام شہباز شریف نے بھی اس پر کڑی تنقید کی کہ یہ غلط خبر ہے۔ آج نوازشریف صاحب نے پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور مطالبہ کیا کہ اس غلط اور بے بنیاد خبر پر چیئرمین نیب 24 گھنٹے میں معافی مانگیں اور معافی نہ مانگیں گے تو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں۔ اس کے جواب میں چیئرمین نیب نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب نے ہرگزمحمد نوازشریف پر کوئی الزام نہیں لگایا اور نہ یہ کہا کہ انہوں نے یہ رقم بھیجی۔ ایک نیوز آئٹم اسلام آباد کے اخبار اوصاف میں اور پھر کالم لکھا اس کی تفصیل بھی میں نے آج اسلام آباد آفس سے کہا کہ معلوم کریں اور جب میں نے اوصاف کے دفتر سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ 2016ءکی ایک رپورٹ تھی اور 2016ءہی میں اوصاف میں خبر شائع ہوئی تھی جس رپورٹر نے خبر دی تھی اب اوصاف چھوڑ کر جا چکا ہے۔ چیئرمین نیب نے جس انکوائری کا آرڈر کیا وہ دراصل ایک کالم کی شکل میں ہے یہ ایک کالم تھا جس کو ایک غیر معروف کالم نویس نے لکھا تھا اوراس میں حوالہ دیا گیا ہے اس خبر کا اور کہا گیا تھا کہ جناب نوازشریف نے یہ 4.9 ارب ڈالر رقم انڈیا بھجوائی ہے۔ نوازشریف کو حق حاصل ہے کہ اگر ان پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے اپنا دفاع کریں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ مطالبہ کہ ان کے خلاف جھوٹ پھیلایا گیا ہے۔ میں اس بات سے متفق ہوں کے چیئرمین نیب نے ہر گز نہیں کہا کہ نواز شریف صاحب نے یہ رقم بھجوائی انہوں نے یہ کہا میں نے دوبارہ ان کی پریس ریلیز پہلے دن شائع ہوئی تھی اس میں لکھا وہا ہے کہ میڈیا پر ایک حصے میں جو الزام لگایا گیا ہے اس کی انکوائری کا آرڈر کیا گیا ہے۔ آج بھی چیئرمین نیب نے جو پشاور ایک دورے پر گئے ہوئے تھے انہوں نے کہا ہے کہ میں چیئرمین نیب کی حیثیت سے میرا اختیار ہے کہ اگر میڈیا میں کوئی رپورٹ آئے تو میں اس پر انکوائری کا حکم جاری کروں میں نے انکوائری کا حکم جاری کیا ہے۔ انکوائری کے نتیجے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ خبر غلط ہے یا جناب نوازشریف صاحب نے کوئی رقم نہیں بھجوائی تو وہ بات سامنے آ جائے گی۔ اور اگرفرض کیجئے کہ بات صحیح ہے الزام صحیح ہے تو بھی سامنے آ جائے گا۔ خیال ہے اس پراتنا ردعمل کا اظہار کرنا کہ چیئرمین نیب استعفیٰ دے۔ ایک تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوازشریف فیملی اس وقت جوابدہ ہے اختساب عدالتوں کے سامنے اور نیب ہی کے تحت ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مختلف کیسوں کی منی ٹریل نہ ہونے کی بنیاد پر لندن کے فلیٹس کے سلسلے میں پاکستان کے باہر پیسہ بھجوانے کی اور اس قسم کے دیگر الزامات ہیں اگر بالفرض ایک عدالت میرے خیال میں آپ کے خلاف انکوائری آرڈر کرتی ہے تو آپ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں ایک انکوائری آرڈر کرنے پر ان کو استعفیٰ دے دینا چاہئے میرا خیال ہے نوازشریف کا بڑا مقام ہے پاکستان کی سیاست میں ان کو ذرا صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے انہوں نے اپنی طرف سے وضاحت کروا دی جس کا ان کو پورا حق حاصل ہے میں اپنے طور پر جتنی تحقیق کر چکا ہوں۔ 2016ءمیں رپورٹ آئی تھی اس رپورٹ کے مندرجات انٹرنیٹ پر موجود ہیں اس میں واقعی محمد نوازشریف کا کہیں ذکر نہیں معلوم ہوتا ہے کوئی نہ کوئی غلط فہمی ضرور ہوئی ہے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ نیب کے سربراہ کے طور پر انہیں چاہئے کہ آئندہ کسی انکوائری آرڈر کرنے سے بھی پہلے ذرا اچھی طرح تحقیق کر لیں کیونکہ مسئلہ اس میں یہ نہیں ہے کہ انکوائری کیوں آرڈر کی گئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس رپورٹ کی بنیاد پر کالم لکھا گیا اور جس کالم کی بنیاد پر انکوائری کا آرڈر کیا گیا وہ بات ورلڈ بینک کی رپورٹ میں موجود ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی میں سمجھتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی سقم، کوئی نہ کوئی کوتاہی نیب کے ان افسران کی بھی ہے جب انہوں نے ایک میڈیا رپورٹ کی بنیاد پر آرڈر کروایا چیئرمین نیب سے تو کم از کم انہیں دیکھ تو لینا چاہئے میں ایک ہی بات کہوں گا۔ نوازشریف صاحب یہ ابتلا کا دور ہے۔ ان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے جو بھی عدالت اور نیب کو ایک احتساب کا ادارہ ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی حیثیت سے نہیں بلکہ سی ای او ایئر بلیو کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ نے تمام ایئرلائنز کے سسی ای او کو طلب کیا ہے۔ ایک زمانے میں نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو پی آئی اے کا چیئرمین بنایا تھا پھر بعد میں انہوں نے پتہ نہیں کیسے اپنی ایئرلائن بنا لی۔
معروف صحافی کالم نگار عبدالودود قریشی نے کہا کہ 2016ءمیں جب یہ خبر چھپی تو اس خبر کی بنیاد پر نیب نے ایک تحقیقات کے لئے فائل تیار کی اور ورلڈ بینک اور جو پیسے دوبئی سے انڈیا ٹرانسفر ہوتے ہیں کتنے ٹرانسفر ہوئے ہیں۔ پاکستان سے کتنے گئے۔ یہ رپورٹ تیار کر کے انہوں نے فائل بنا کر نیب بیٹھ گیا۔ 2016ءکے بعد اس وقت سے نیب نے وہ فائل دبائے رکھی اور اس کو آگے نہیں چلایا۔ اب ایک کالم کی بنیاد پر وہی فائل چلا کر چیئرمین نیب کے خلاف کوئی سازش کی گئی ہے اور یہ چیز سامنے لائی گئی ہے جس کی بنیاد پر ان سے دوبارہ آرڈر کروایا گیا کہ اس کی تحقیقات کی اجازت دی ہے جس کی تحقیقات کی اجازت دے کر انہوں نے پریس ریلیز جاری کر دی۔ پریس ریلیز بھی ان کو جاری نہیں کرنی چاہئے تھی۔ آج کی میاں نواز شریف کی پریس کانفرنس میں ضیا صاحب سے اہم بات کی وہ یہ کہ میں معافی نہیں مانگوں کا نواز شریف نے جو تین صفحے کی تحریر پڑھی ہے وہ اوریجنل بھی میرے پاس ہے میں پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ اس میں بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں دو دنوں سے گردش کر رہی تھی کہ یہاں نوازشریف کے کیس کو وکلاءطویل کر رہے ہیں ایک نیب اور کورٹ نے وقت مانگا ہے وہ چاہتے ہیں کہ 8 ستمبر تک صدر مملکت ممنون حسین رہیں گے اور نوازشریف کو اگر سزا ہو جاتی ہے تو پارڈن دے کر معاف کر دیں گے اس بات پر نوازشریف نے کہا ہے کہ میں معافی نہیں مانگوں گا لیکن قانون کے ماہرین کہتے ہیں کہ نواز شریف اگر معافی نہ بھی مانگیں، درخواست نہ ہی دیں، سزا ہو جاتی ہے تو صدر مملکت انہیں باعزت طور پر اس مقدمے سے یا سزا ہو تو بالکل بری کر سکتے ہیں۔ ایک لگتا ہے میاں نوازشریف یہ پیغام دینا چاہتے تھے۔ چیئرمین نیب کو نکالنے کا آئینی طریقے چیئرمین جوڈیشل کونسل ہے جس میں چیف جسٹس صاحب بیٹھیں چاروں سینئر جج ہوں گے وہ بھی ممکن نہیں ہے منتخب اسمبلی سے قرارداد اس لئے پاس نہیں ہو سکتی کہ پی ٹی آئی اور پی پی ان کا ساتھ نہیں دے سکتے ان کے خلاف عدالتی نوٹس یا کارروائی نہیں ہو سکتی۔ نیب کے قانون میں اس بات کا اختیار ہے کہ کسی خبر پر کسی کالم، کسی ادارے کی بنیاد پر چیئرمین نیب تحقیقات کا حکم دے سکتا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اتنی دیر سے بحث چل رہی تھی نوازشریف کو اگر سزا ہو جاتی ہے تو کہا جاتا تھا کہ قانونی ماہرین کا تو یہی کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل فلاں فلاں کے تحت صدر مملکت ہر قسم کی سزا معاف کر سکتے ہیں اگر آج نوازشریف نے کہا کہ میں معافی مانگوں کا یہ تو ایک اچھا راستہ تھا اگر ان کو سزا ہوتی تو صدر معاف کر دیتے۔ یہ بات انہوں نے کسی تناظر میں کہی۔ کسی سوال کے جواب میں کہی۔ کہ میں معافی نہیں مانگوں گا۔ عبدالودود قریشی نے ازحود یہ بات کہی ہے سوال کوئی نہیں تھا۔ بنیادی طور پر اسلام آباد میں بات چل رہی تھی جب سپریم کورٹ میں کیس پیش کیا گیا جج کے سامنے جو جج ہیں کہ ان کو (نوازشریف صاحب نے کہا کہ ہمیں چھ ماہ کی مزید وقت دیا جائے لیکن نیب والوں نے کہا کہ ایک مہینے کا وقت دیا جائے۔ جس پر 6 مہینے کی درخواست مسترد کر دی ایک مہینے کا مزید وقت دیا ہے کہ ایک مہینے میں تینوں ریفرنسوں کو مکمل کیا جائے۔ اب نوازشریف کو سمجھایا گیا ہے کہ سزا کو موخر کیا جا رہا ہے کہ 6 ستمبر کو ممنون حسین ریٹائر ہو جائے گا اور نیا صدر نہ آ جائے گا تا کہ آپ کو کوئی معافی نہ دے سکے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ نیب پر زیادہ ہی دباﺅ لگتا ہے کافی دیر پہلے دیکھ چکا ہوں کہ نیب لاہور صوبائی دفتر ہے اس کے بارے میں ایک ایم این اے اور ایم پی اے جن کا تعلق رائے ونڈ کے علاقے سے ہے جو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے تھے ان کے حوالے سے خبریں آئیں کہ کوئی حملہ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں نیب کے دفتر پر اور یہ کہا گیا کہ تمام ضروری کاغذات جو نوازشریف، شہباز شریف، کیپٹن (ر) صفدر کے بارے میں مریم نواز، اسحاق ڈار کے بارے میں حسن اور حسین نواز شریف کے بارے میں جو ضروری شواہد، کاغذات اور مختلف قسم کی دستاویزات جو نیب کے دفتر میں ہیں صوبائی دفتر میں ہنگامے اور بلوے کے بعد ان کو ضائع کرنے کا پروگرام تھا اس وقت خبریں آئی تھیں کہ آگ لگانے اور تمام ریکارڈ جلانے کا پروگرام تھا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے پر دو دن پہلے یہ خبر آئی ہے کہ اسلام آباد میں جو ریکارڈ تھا وہ ریکارڈ بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کے اردگرد جتنے لوگ تھے ان کے خلاف مختلف قسم کے ثبوتوں پر مبنی تھا اس کو باہر لے جانے کی کوشش کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جاویددد اقبال صاحب ہمارے سپرد کر دیتے ہم زیادہ پیسے جمع کر دیتے لیکن چیئرمین نے 10 ہزار روپے جیب خاص سے انعام دیا۔ گزارش ہے کہ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اگر یہ خبر درست ہے تو لاہور کے بعد اسلام آباد میں بھی ضروری فائلیں اور کاغذات اور دستاویزات جو ہیں مسلم لیگ ن کی قیادت سے متعلق باہر لے جانے کا الزام بہت بڑا الزام ہے آپ کو یاد ہو گا کہ لاہور میں متوقع حملے کے پیش نظر فوری طور پر پنجاب پولیس کو تبدیل کر کے نیب کے دفتر کی حفاظت کے لئے اور سکیورٹی کے لئے رینجرز طلب کر لی گئی تھی۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی آ چکی تھی کہ نیب کے سربراہ کو آفر کی گئی تھی کہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں پاکستان سے باہر علاج کے بہانے باہر چلے جائیں تو ان سے وعدہ لیا جا سکتا ہے حلف اٹھایا جا سکتا ہے آئندہ حکومت میں ان کو صدر بنا دیا جائے گا۔ نیب پر اتنی یلغار کیوں ہے۔ اس لئے کہ ریکارڈ جلانا چاہتے کہ فائلیں اٹھانا چاہتے ہیں اب ایک بڑا معقول عذر آ گیا سامنے تو اس پر چڑھائی کی جا رہی ہے کہ اس کو استعفیٰ دینے کا کہا جا رہا ہے جبکہ زندگی بھر دیکھا ہے کہ صوبائی حکومتیں اور فیڈرل حکومتوں کے جو اطلاعات کے شعبے ہیں میڈیا سیل ہے وہ اکثر بے ضرر قسم کے حکومتی پالیسیوں کے لئے جو مختلف مضامین اور کالم بھیجتے رہے ہیں ان کو ہم عرف عام میں سرکاری مضامین کہتے ہیں یہ کالم بھی جس شخص نے لکھا 2 سال قبل اوصاف میں خبر شائع ہوئی۔ جس کی اس وقت تردید ہو گئی تھی۔ دو سال بعد میں اصاف میں اس خبر کی بنیاد پر کالم لکھھا گیا اور وہ کالم کسی غیر معروف آدمی کا ہے چند روز کے اندر جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب کو اپنی منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنی چاہئے کہ کسی قسم کے لوگ انہوں نے ادارے میں جمع کئے ہوئے ہیں جنہوں نے اس کیس کو ان رکھا کہ اس پر انکوائری کر دیں، میری معلومات کے مطابق اس پر تقریباً آٹھ دس دن لگے اور بالآخر یہ آرڈر مل گیا اور ساتھ ہی خبریں کالم لکھوایا، چھپوایا پھر اس پر آرڈر کروایا میرا خیال ہے کہ چیئرمین نیب کے خلاف ایک خوبصورت سازش تھی اور یہ سامنے آ گئی ہے اگر اس کی کڑیاں ملائیں تو آپ کے خیال میں سابقہ حکومت کے خیر خواہ موجود ہیں۔ نیب اسلام آباد ہیڈکوارٹر نئی بلڈنگ میں شفٹ ہوا ہے بڑا وسیع ہے یہ ایک ایسا دفتر ہے جس میں تمام لوگوںکا کچا چھٹا موجود ہے آپ دیکھیں کہ سیف الرحمن نے بے نظیر، آصف زرداری کے خلاف جتنی مصدقہ دستاویزات موجود ہیں۔ جنرل امجد نے فوجیوں اور سابق نیول چیف کے سب کاغذات وہاں موجود ہیں اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے تمام کاغذات جنرل امجد کے ذریعے نوازشریف کے بارے میں اکٹھے کئے۔ نیب میں ایسے افراد بھرتی ہیں جو کرپٹ لوگوں کے مفادات کو دیکھتے ہیں۔
اینکر پرسن و تجزیہ کار مبشر لقمان نے کہا ہے کہ پی آئی اے اور ایئربلیو دونوں میں بہت سارے جعلی ڈگریوں والے پائلٹس موجود ہیں۔ ایئربلیو میں 24 جعلی ڈگری والے پائلٹس ہیں اور بہت سارے انجینئر و ٹیکنشینز بھی جعلی ڈگری والے ہیں۔ پاکستان میں ایوی ایشن خستہ حال انڈسٹری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاہد خاقان عباسی کے ایئربلیو میں جعلی ڈگری والے عملے کے علاوہ بھی بہت سارے سپیڈ بریکر ہیں۔ جب یہ معاملہ کھلے گا تو پنڈی میں کرپشن ہونے والے ایئربلیو کے طیارے کے حوالے سے بھی بہت کچھ سامنے آئے گا۔ ابھی تک حادثے کا شکار ہونے والوں کے بہت سارے لواحققین کو انشورنس کے پیسے بھی نہیں ملے۔ انہوں نے کہا کہ چترال حادثے میں جو مذکورہ طیارہ کریش ہوا تھا اس میں خرابی کی نشاندہی ہم نے پہلے ہی کر دی تھی لیکن سول ایوی ایشن نے چیک کیا نہ ہی اے ٹی آر حادثے کا شکار ہوا۔ پروگرام میں کہا تھا کہ یہ جہاز کریش ہو گا اور وہ ہوا۔ اگر سٹاف ٹیم کو پکڑا جاتا ہے تو بہت سارے راز افشا ہوں گے کہ انہوں نے جس طرح ایئرپورٹس پر کنٹریکٹ دیئے اور قابل افسروں کو پیچھے کر دیا؟ چودھری منیر کو کسی طرح 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا یہ تمام حقائق سامنے آ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کو ہیڈ کرتے رہے ہیں، اس وقت وہ پی آئی اے و ایئرپورٹس سے متعدد لوگوں کو ایئربلیو لے گئے۔ ان کی پوری سرمایہ کاری بھی نہیں تھی دوسرے لوگوں کا سرمایہ تھا جن کو وہ لے کر آئے۔ اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، ظاہر ہے جب بھی ایئرلائن فائدہ دے گی تو قومی ایئر لائن نقصان کرے گی، ایئربلیو طیارہ حادثہ کی رپورٹ میں تاحال منظرعام پر نہیں آئی۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv