لاہور(ملک مبارک سے) سابقہ دور حکومت کے حکمرانوںنے پاکستانی قوم کو اربوں ڈالر کا مقروض کردیا لیکن ان کی صیحت بارے کوئی بہتر انتظامات نہ کئے ۔22کروڑ عوام کےلئے 2لاکھ ڈاکٹر ،1لاکھ نر سزز،1لاکھ 19ہزار بیڈ اور 815وینٹی لیٹرنے موجودہ حکومت کو امتحان میں ڈال دیا ۔حکومت پاکستان کوکرونا جیسی موذی وبائیں سے مقابلہ کرنے کے لیے شعبہ صیحت میں مضبوط اقدامات کرنے ہونگے ۔موجودہ حالات سے مقابلہ کرنے کےلئے ہنگامی طور پر سٹاف ،وینٹی لیٹر ،بیڈ ز کی تعداد میں فوری طور پر اضافہ کے ساتھ ساتھ ر ریٹائرڈ ڈاکٹروں سے بھی استفادہ حاصل کرنا ہوگا ۔تفصیلات کے مطابق سابقہ دور حکومت کے حکمرانوںکی مہربانیاں ہیں کہ پاکستان کا ہیلتھ انفرااسٹرکچر کہیں سے بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرسکے۔موجودہ حکومت کو اس ہنگامی صورت میں فوری طور پر ٹیسٹنگ اور وینٹی لیٹرز میں اپنی استعداد کو بڑھا سکیں تو ایک قابلِ ستائش کام ہوگا۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی تعداد 2 لاکھ 10 ہزار ہے اور ان میں سے بھی کوئی 25 ہزار ملک سے باہر کام کررہے ہیں۔ آپ مکمل تعداد کو بھی دیکھیں تو قریباََ ہر ہزار پاکستانیوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ اب ظاہر ہے ہر ڈاکٹر وبا پر تو کام نہیں کر رہا ہوگا کوئی دل کا ڈاکٹر تو کوئی سماعت یا دماغ کا۔ اگر ہم دل کھول کر بھی بات کریں تو ہم بمشکل 20 ہزار ایسے ڈاکٹرز جمع کر پائیں گے جو کورونا کی وبا میں فرنٹ لائن کا کردار نبھا سکیں، یعنی ہر ایک لاکھ 20 ہزار پاکستانیوں پر ایک ڈاکٹر۔پاکستان میں نرسوں کی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار ہے یعنی ہر 2 ہزار پاکستانیوں پر ایک نرس۔ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد ایک لاکھ 19 ہزار ہے یعنی 2 ہزار پاکستانیوں پر ایک بیڈ، اور ہمارے ملک میں اس وبا سے نمنٹنے کے لیے سب سے ضروری مشین وینٹی لیٹر ہے جن کی تعداد 813 ہے جو قابلِ استعمال حالت میں ہیں یعنی 2 لاکھ 70 ہزار پاکستانیوں کے لیے ایک وینٹی لیٹر۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کل ملا کر صرف 20 وینٹی لیٹرز ہیں۔ ایسے ہی گرین وینٹی لیٹرز بھی ہونے چاہئیں۔ امریکا کے پاس ایک لاکھ 60 ہزار وینٹی لیٹرز ہیں، ہمیں بھی کم از کم ایک لاکھ 11 ہزار چاہئیں تاکہ ہر 2 ہزار بندوں پر ایک وینٹی لیٹر تو ہو۔ کوئی ملک آپ کا دوست ہے، کوئی این جی او آپ کی مدد کرنا چاہتی ہے، سیلانی ٹرسٹ ہو یا ایدھی، آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک، بل گیٹس ہو یا ملک ریاض، اقوامِ متحدہ ہو آپ صرف ایک بات کریں کہ وہ آپ کو وینٹی لیٹرز دے دیں اور ہم بحثیت قوم یہ احسان ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ حکومت ان ڈاکٹرز اور نرسزجو اپنے فائنل ائیر میں ہیں انہیں فاسٹ ٹریک پر ڈال کر گریجویٹ کردیںبرطانیہ نے ایسا ہی کیا ہے۔ اس طرح آپ کو مزید ڈاکٹرز اور نرسز مل جائیں گے۔ پاکستان میں جو ڈاکٹرز اور نرسز پاس آوٹ ہوچکے ہیں وہ بھی لائسنس کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ مزید یہ کہ ریٹائرڈ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو آن ڈیوٹی کال کرلیا جائے کہ بوجھ کچھ تو بٹے ڈینگی ہر سال آتا ہے، SARS اور MERS بھی، چکن گونیا اور برڈ فلو بھی تو اگر خدانخواستہ کورونا بھی اگلے سال لوٹ آیا تو ہم کیا کریں گے؟ اس لیے پہلے سے تیاری بہت ضروری ہے تاکہ ہر بار ہمیں قیمتی جانوں کا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔