تازہ تر ین

امریکہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا

غزہ، یروشلم، واشنگٹن، انقرہ، قاہرہ (نیٹ نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) اسرائیل کا ‘غیر منقسم دارالحکومت’ رہے گا جبکہ فلسطین کا ‘دارالحکومت مشرقی یروشلم میں ہوگا۔واضح رہے کہ یروشلم کے مغربی حصے پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔امریکا نے اپنے امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرتے ہوئے مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی لگادی۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘اس طرح فلسطینیوں کے زیر کنٹرول علاقہ دگنا ہوجائے گا’۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطی کے لیے امن منصوبہ 80 صفحات پر مشتمل ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ امریکا فلسطینیوں کے نئے دارالحکومت میں ‘فخر سے’ اپنا سفارت خانہ کھولے گا۔انہوں نے دعوی کیا کہ اس منصوبے سے فلسطین میں 50 ارب ڈالر کی نئی تجارتی سرمایہ کاری ہوگی اور اگرسب کچھ اچھی طرح انجام پایاتو اس سے 10 لاکھ فلسطینیوں کی ملازمتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی اور انتہائی نمایاں پیشرفت ہے امریکی صدر نے دوران پریس کانفرنس قریب کھڑے اسرائیلی وزیر اعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ جناب وزیر اعظم ، اس منصوبے کو تسلیم کرنے کی جانب اٹھائے گئے قدم کے لیے شکریہ۔دوسری جانب خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق فلسطینی رہنماں نے وائٹ ہاﺅس کے ساتھ مذکورہ منصوبے کے اعلان کے بعد کسی بھی مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور توقع کی جارہی ہے کہ وہ معاہدہ قبول نہیں کریں گے۔علاوہ ازیں اس منصوبے کے اجرا سے ہزاروں فلسطینیوں نے سڑکوں پر احتجاج شروع کردیا۔واضح رہے کہ سابق امریکی صدور کے مقابلے میں ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ زیادہ دوستانہ رہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس نومبر میں کئی دہائیوں پر مشتمل امریکی خارجہ پالیسی کو تبدیل کردیا تھا جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی آباد کاریوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں سمجھتا۔امریکا کی جانب سے مذکورہ امن منصوبے کے اعلان پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے منصوبے کوغیر معمولی اور پائیدار امن کے لئے حقیقت پسندانہ راستہ قرار دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین اور اسرائیل کے مابین امن کا پلان پیش کردیا۔ ان کے منصوبے کے مطابق فلسطین اور اسرائیل دو علیحدہ ریاستیں ہوں گی، فلسطین کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں ہوگا جبکہ اسرائیل کی یہودی بستیوں کو تحفظ حاصل ہوگا، اس پلان کے مطابق اگلے 4 سال کیلئے یہودیوں کی آباد کاری پر پابندی عائد ہوجائے گی اور فلسطین کا علاقہ ڈبل کردیا جائے گا۔واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو سے ملاقات کے موقع پر مشرق وسطی میں امن کا معاہدہ کے نام سے اپنا منصوبہ پیش کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ڈیل آف سنچری قرار دیا۔ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق مغربی کنارے میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو تحفظ حاصل ہوگا اور آئندہ 4 سال تک کوئی نئی یہودی بستی نہیں بسائی جائے گی ۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ فلسطین کے نئے دارالحکومت میں پورے فخر کے ساتھ سفارتخانہ کھولے گا، اس امن معاہدے کے تحت فلسطین کے اندر 50 ارب ڈالر کی کمرشل سرگرمیاں ہوں گی اور اگر اس پر ٹھیک سے عملدرآمد ہوا تو فلسطینیوں کیلئے 10 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی اور کوئی فلسطینی بے گھر نہیں رہے گا۔اسرائیلی وزیر اعظم کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ٹرمپ نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ نے امن منصوبے کو قبول کرکے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے۔دوسری جانب اسرائیلی رہنماں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے امن معاہدے کو مسترد کردیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی اسے قبول نہ کرے۔اس حوالے اسرائیلی عہدیداروں کو اطلاع دی گئی ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے 70 فیصد علاقے پر غیر خودمختار فلسطینی ریاست قائم ہوگی جس کا دارالحکومت بیت المقدس یروشلم کے پڑوس ہوگا۔یروشلم ، بشمول مسجد اقصی اور دیگر تمام مقدس مقامات ، اسرائیلی زیر اقتدار رہیں گے۔ تاہم ، مسلم اور عیسائی مقامات کا انتظام پی اے اور اسرائیل مشترکہ طور پر کریں گے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوتی ہے تو یہ پیش رفت فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرے گی۔فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ ان پر اس ڈیل کو قبول کرنے کا بڑا دبا تھا لیکن انہوں نے اسے مسترد کیا۔انہوں نے کہا ہے کہ ”مجھے خبردار کیا گیا ہے کہ مجھے اپنے اس موقف کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا، ”میری زندگی اب تھوڑی بچی ہے اور میں اپنی قوم سے غداری کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”آنے والے دن فلسطینیوں کے لیے مشکل ہوں گے لیکن ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو مزاحمت کے لیے آگے آنا ہوگا۔فلسطینی تنظیموں نے اس منصوبے کے خلاف مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے۔عرب لیگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل، فلسطین امن منصوبے پر غور کے لیے آیندہ ہفتے کے روز اپنا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔عرب لیگ کے ڈپٹی سیکریٹری حسام زکی نے منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔اس میں صدر ٹرمپ کی صدی کی ڈیل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔عرب لیگ کا یہ غیر معمولی اجلاس فلسطینی قیادت کی درخواست ہی پر طلب کیا گیا ہے۔دریں اثنا مصر کی تاریخی دانش گاہ جامعہ الازہر کے شیخ احمد الطیب نے قاہرہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے منصوبے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے مسلم اسکالر اور علما شریک تھے۔شیخ الازہر نے کہاہماری عرب اور مسلمان کے طور پر شناخت ختم ہوچکی ہے۔ میں ٹرمپ کے ساتھ اسرائیلی لیڈر کو دیکھتے ہوئے مکمل شرمساری محسوس کررہا ہوں۔انھوں نے کہاوہ (امریکی صدر) ہمارے مسائل کے بارے میں منصوبہ بندی کررہے ہیں،ان پر بات چیت کررہے ہیں، انھیں کنٹرول کررہے ہیں۔ہمارے لیے وہ مسائل حل کررہے ہیں لیکن وہاں کوئی عرب یا مسلمان موجود نہیں ہے۔صدر ٹرمپ نے اپنے مجوزہ امن منصوبے کے اعلان کے لیے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو وائٹ ہاس میں آنے کی دعوت دی تھی لیکن کسی فلسطینی لیڈر کو مدعو نہیں کیا ہے۔اس منصوبے کے اعلان سے قبل تجزیہ کاروں نے کہا کہ ٹرمپ کا اقدام ان کی انتظامیہ کی بہت سی پالیسیوں کی ہی تائید کرے گا۔انھوں نے پہلے ہی اسرائیل کے مفادات اور مقاصد کے مطابق اپنی پالیسیاں وضع کررکھی ہیں۔ حماس کے عہدیدار نے کہا کہ امن منصوبے پر ٹرمپ کے بیانات جارحانہ ہیں اور یروشلم کے لیے امریکی صدر کی تجاویز بکواس ہیں۔ غزہ کی پٹی میں حماس گروپ کی رہنمائی کرنے والے سمیع ابوزہری نے رائٹرز کو بتایا کہ ٹرمپ کا بیان جارحانہ ہے اور اس سے سخت غم وغصہ پیدا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یروشلم کے بار ے میں ٹرمپ کا بیان بکواس ہے اور یروشلم ہمیشہ فلسطینیوں کیلئے ایک سر زمین رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اس معاہدے کا مقابل کرینگے اور یروشلم فلسطینی سرزمین میں ہی رہے گا۔اردن کے وزیر خارجہ محمد الصفدی کا کہنا ہے کہ انہیں صدی ڈیل کے منصوبے کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔ معروف فلسطینی اور عربی تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے لکھا ہے صدی معاہدے کے ذریعے فلسطینی مقصد کو ختم کرنے کیلئے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے مشترکہ منصوبے کے برخلاف اس منصوبے پر کبھی عمل درآمد نہیں ہو سکے گا بلکہ یہ اوسلو معاہدوں کے خاتمے اور مزاحمتی محاذ کے استحکام کا باعث بنے گا۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv