لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ رانا ثناءاللہ کیس میں عدالت نے پر رہائی دی ہے۔ بیگناہ قرار نہیں دیا ابھی تو یہ مقدمہ چلنا ہے۔ میڈیا چینلز پر 90 فیصد اینکر پرسن صرف سنی سنائی بیان کر رہے ہیں جو جاہلیت کی نشانی ہے۔ کسی ملزم کی ضمانت ہونے اور بری ہونے میں واضح فرق ہوتا ہے۔ عدالت سے رانا ثنا کی ضمانت بھی اسی لئے ملی کہ تاریخ پہ تاریخ پڑ رہی تھی اور کیس کی سماعت کے لئے کوئی جج نہیں تھا۔ کیس چل ہی نہیں رہا تھا اسی بنا پر ضمانت دی گئی تاہم ضمانت سے کسی کے بیگناہ ہونے پر گنہ گار ہونے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ اے این ایف کا موقف بھی یہ ہے کہ کیس چلے گا تو وہ تمام ثبوت پیش کریں گے۔ پارلیمنٹ میں سارے فرشتے نہیں ہوتے شیخوپورہ کے رکن اسمبلی منور منج سے بھی ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔ ہمارے قانون دان دیگر تبصرے تو کرتے ہیںیہ کیوں نہیں کہتے کہ کیوں کوئی جج نہیں ہے جو کیس کو سنے۔ پاکستان میں یہ صورتحال ہے کہ عام آدمی پھنس جائے تو کیس سنوائی نہیں ہوتی ہمارے ایک دوست 14 سال جیل میں رہے کیونکہ کیس ایک وکیل کے قتل کا تھا اس لئے وکلا اس کیس کی سماعت ہی نہیں ہونے دیتے تھے۔ روزنامہ ”خبریں“ میں چیف جسٹس کے نام دو اشتہار دیئے گئے کہ کیس تو سنا جائے۔ عام آدمی سے عدالتوں اور تعاون میں جو کچھ سلوک ہوتا ہے بے انصافی ہوتی ہے اس کا شمار ہی نہیں ہے برطانیہ جہاں کی جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی مثال دی جاتی ہے وہاں بھی صورتحال یہ ہے کہ الطاف حسین کیخلاف بھارتی ایجنسی سے پیسے لینے اور منی لانڈرنگ کے تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ ایکشن نہیں ہوا۔رکن اسمبلی ہونا یا اپوزیشن میں ہونا اس بات کی قطعاً دلیل نہیں ہے کہ وہ شخص بیگناہ ہے کوئی قصور نہیں کر سکتا، رانا ثناءکیس کا اگلا فیصلہ بھی عدالت نے ہی کرنا ہے۔ اگر کیس میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو ذمہ دار حکومت اور استغاثہ ہے۔ بھارت کی 26 میں سے 15 ریاستوں میں ہنگامے جاری ہیں جو بڑھتے جا رہے ہیں اس صورتحال میں مودی سرکار کی کوشش ہے کہ پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی جائے اور کوئی ایسا بہانہ تراشا جائے جس سے جھڑپ کا جواز پیدا ہو سکے اس تناظر میںایل او سی اور عالمی سرحد پر مسلسل اشتعال انگیزی اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقت روکتے ہیں جنگ ہونے کی صورت میں معیار ایٹمی جنگ کی طرف جا سکتا ہے جس سے آدھی دنیا متاثر ہو گی۔ امریکہ بھارت کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا کہ اس کی پالیسی صرف اتنی ہے کہ دو تین منسٹر یا ارکان کانگریس صرف بھارت کیخلاف بیان دے دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ امریکہ میں امریکی تھنک ٹینک کی خاتون عہدیدار سے خود سن چکا ہو ںکہ پاکستان کو کبھی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ امریکہ بھارت کے مقابلے میں اس کی حمایت کرے گا۔ امریکہ بھارت کو دنیا کی بڑی جمہوریت سمجھتا ہے اس لئے وہ ہمیشہ اس کی طرف داری اور حمایت کرے گا۔