تازہ تر ین

اسٹیبلشمنٹ حکومت کیساتھ کھڑی ہے،ہٹانا آسان نہیں ،سلیم بخاری

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف صحافی، اینکر پرسن، تجزیہ کار و انگریزی اخبار دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری کے ساتھ مکالمے میں ہونےالی گفتگو قارئین کی دلچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے:
ضیا شاہد:آزادی مارچ میں دوباتیں نئی آئیں ایک تو مولانا نے واضح طور پر کہا کہ عمران خان ان کے نزدیک ایک مہرہ ہیں ان کے پیچھے جو اصل قوت ہے وہ اس قوت کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت کر رہے ہیں اور مطالبہ کیا کہ آئندہ الیکشن میں کسی بھی قیمت پر فوج کو دخل انداز نہیں ہونا چاہئے۔ مستقبل میں اگر فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لئے بلایا بھی جائے تو کیا فوج کو یہ کہہ دینا چاہئے کہ مولانا پسند نہیں کرتے بلکہ صرف مولانا ہی نہیں بلاول بھٹو زرداری نے بہاولپور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس بات کے خلاف ہیں کہ فوج جو ہے انتخابات میں مداخلت کرے۔
سلیم بخاری: میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں آپ کے پروگرام میں ہوں۔جو ہم نے مولانا کا 13 روز کا دھرنا دیکھا۔ ایک تاثر تو یہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن کبھی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس میں ان کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ نہ ہو۔ میں ان لوگوں میں سے جو یہ سمجھتے تھے کہ مولانا بغیر کسی مقصد، بغیر کسی اشارے کے، کسی سپورٹ کے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کا جو احتجاج تھا اس میں ان کی ذاتی ناراضگی زیادہ ہے سیاسی اختلاف کم ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب کچھ قوتوں کے ساتھ ان کی شہ پر ان کو الیکٹورل پراسیس سے بالکل باہر کر دیا۔ اور ان کی سالہا سال کی کئی دہائیوں کا خاتمہ کر دیا۔ یہ ان کا ذاتی گرج ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ جس بل بوتے پر آزادی مارچ لے کر آئے اسی بل بوتے پر وہ انتہائی شرافت سے بغیر کوئی پتھر پھینکے واپس چلے گئے۔ اس کے بعد پلان بی پر چند شہروں میں ٹریفک بلاک کر کے اس سے تہی راضی کر لی۔ اب انہوں نے ضلعی سطح پر اپنا پروگرام دیا ہے۔ کل رہبر کمیٹی الیکشن کمشن کے سامنے گئی تھی ان کا مطالبہ تھا کہ خان فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے۔ مولانا کوئی انقلاب لانے کے لئے نہیں آئے تھے نہ اس سے پہلے کبھی انہوں نے کوئی اقدام اٹھایا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو۔ لہٰذا چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی جو بہت زیرک سیاستدان ہیں انہوں نے جس طریقے سے درمیان معاملے کو جس خوش اسلوبی سے ختم کیا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ جہاں تک فوج کی مداخلت کے حوالہ سے سوال ہے آپ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ فوج کا کردار ہمیشہ سے آئینی رہا ہے کیونکہ 1973ءکا جو اصل آئین اس کے دیباچے میں یہ لکھا تھا کہ جب بھی ملک کی سالمیت کو، یا اس کی نظریاتی سرحدوں وک کوئی خطرہ ہو گا تو افواج پاکستان جو اس دونوں چیزوں کی کسٹوڈین ہیں لةٰذا وہ اس کا دفاع کریں گی۔ میرے نزدیک تو فوج کا آئینی کردار تو ہمیشہ سے رہا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ سابقہ جماعتیں تھیں وہ خود سے مطالبہ کرتی تھیں کہ اگر فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوں گے تو ہی ہم اس کو غیر جانبدار مانیں گے۔ اور اس کی ایک مثال 1970ءکا وہ الیکشن بھٹو اِدھر اور شیخ مجیب الرحمان اُدھر منتخب ہوئے تھے تو اس کو پاکستان کی تاریخ شفاف ترین الیکشن کہا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی یہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے فوج نے یہ ذمہ داری لی تھی۔ فوج کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بالکل درست کہا کہ فوج اس وقت پاکستان کے سول انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی جب تک منتخب قیادت اس کے لئے مدعو نہ کرے۔ میرے خیال میں فوج پر ملبہ ڈالنے کی بجائے ماری سیاسی جماعتیں وہ خود اپنے لئے کوئی ضابطہ اخلاق بھی طے کریں۔ الیکشن پروسیس میں اپنے اعتماد کو بحال کریں غلطیاں سیاسی جماعتوں کی اور وہ جان بوجھ کر الیکشن کمپینز میں اس طرح کا جلد فوج پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔
سوال: عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ماضی میں تو ہمیشہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے اب الٹ مطالبہ ہونے لگا ہے اس کے باوجود کہ فوج کو تو کرنا پڑے گا کہ اگر اس کو آئین کی رو سے سول انتظامیہ کی طرف سے بلایا گیا لیکن ہماری سیاسی جماعتوں میں جز بز ہو رہی ہے اور جس طرح سے فوج کی نگرانی میں ہونے والے الیکشن کو سلیکٹڈ الیکشن کہا جا رہا ہے اس سے بڑی دقتیں پیدا ہو جائیں گی۔
جواب: اگر ان کے اپنے لوگوں نے اسمبلیوں میں حلف اٹھا کر رول ادا نہ کیا ہوتا تو میں ان کی سلیکٹڈ ہونے کی بات مان لیتا۔ آپ پیپلزپارٹی کو لے لیں جو اس وقت سب سے زیادہ نعرے مار رہی ہے۔ ن کو لے لیں جو اس الیکٹرول پروسس کو کہتی ہے کہ یہ سلیکٹڈ تھے تو ان کو اسمبلیوں میں جا کر حلف نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔ اس وقت تو ان لوگوں نے حکومتیں بنا لیں مثال کے طور پر سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی پھر پنجاب میں کوشش کی گئی کہ بزدار صاحب نہ بن سکیں باقاعدہ انتخاب میں مقابلہ کیا گیا۔ اس طرح وزیراعظم اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن اس سارے پراسیس کا حصہ رہے ہیں۔ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سلیکٹڈ ہے۔ ایک وقت میں مولانا فضل الرحمن نے خود بھی صدارتی انتخاب لڑا تھا۔ مولانا فصل الرحمان کا بیٹا خود اسمبلی کے اندر ہے۔ اس موقف میں زیادہ جان نہیں ہے۔
سوال: فضل الرحمان مجمع اکٹھا کر کے وزیراعظم کا استعفیٰ طلب کرنے گئے۔ الیکشن کے سوال وزیراعظم کی تبدیلی آراستہ نظر نہیں آتا۔ کیا اس طرح مجھے اکٹھا کر کے جانا اور منتخب حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا درست ہے یا آئینی طور پر درست راستہ ہے۔
جواب: اس طرح کے دھرنوں سے کبھی حکومتیں نہیں بدلتیں۔ آج تک کبھی چوک میں بیٹھ کر مجمع لے کر بیٹھ کر نہ کبھی کسی نے استعفیٰ دیا نہ حکومت بدلی ہے نہ میرا خیال ہے کہ کبھی بدلے گی۔ مولانا فصل الرحمان اس سفر پر ایک طرح سے تنہا ہی نکلے تھے ن لیگ پیپلزپارٹی نے عملی طور پر ان کا ساتھ نہیں دیا۔ جب ان کا جلوس پنجاب سے گزرا مسلم لیگ ن کی کوئی نمائندگی نہیں تھی یہی حال سندھ میں ہوا۔ پورا سندھ گزر کر آئے پیپلزپارٹی نے سوائے کنٹینر پر چڑھ کر تقریر کرنے کے علاوہ کوئی حصہ نہیں ڈالا۔ مولانا کی جماعت بلوچستان تک محدود ہے یا ان کا کچھ اثر کے پی کے میں ہے وہ ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی جب تک کہ ایک ایسی بھرپور تحریک جس میں تمام سیاسی جماعتیں وہ کلیم کرتے ہیں کہ 9 سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ ہیں وہ 9 سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ان کے دھرنے میں نظر نہیں آئی ہے دھرنوں کے نتیجے میں حکومتیں جانے لگیں گی تو پھر جتھے آتے رہیں گے اور ہر مہینے تو ہر دو تین مہینے کے بعد حکومتیں بدلتی رہیں گی۔
سوال: اب اکرم درانی صاحب نے پلان بی کا بھی خاتمہ کر دیا لیکن اب کہا کہ اب اصلاع میں اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔ یہ جو دوسرا مرحلہ تھا۔ یہ کوئی آئینی اقدام ہے۔
جواب: کسی بھی ملک میں سڑکوں کو بند کرنے کا کوئی جواز موجود ہے اس میں بھی مولانا اکیلے تھے۔ صرف جے یو آئی کے لوگوں نے ہی تھوڑی تھوڑی تعداد میں ٹریفک بند کی جس سے مشکلات پیدا ہوئیں اس میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی شامل نہیں تھیں اسی لئے ان کو بہت جلد پر لپیٹ کر پلان سی پر بھی ضیا صاحب! بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دوسری پارٹیوں خاص طور پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ ساتھ نہیں دے گی تو یہ فیز بھی خاموشی سے گزر جائے گا۔ مولانا کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملک کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ جو قابل عمل ہو اور جو آئینی ہو کیونکہ احتجاج کر کے کس حکومت کو اور خاص طور پر ایسی حکومت کو جس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ اپنی کنوکشن کی وجہ سے کھڑی ہو کہ ہم منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اس کو ٹاپل کرنا میرا نہیں خیال کہ اتنا آسان کام ہے۔
سوال: اپوزیشن جماعتیں نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہیں، پہلے ادوار میں عموماً ایسا مطالبہ تین چار سال بعد ہوتا تھا، حکومت سے شکایات اپنی جگہ تاہم کیا سوا سال بعد میں نئے الیکشن کا مطالبہ درست ہے؟
جواب: عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے پہلے 3 ماہ میںہی بات کی تھی کہ ہم نے نئے الیکشن کی طرف جا سکتے ہیں، حکومت اپنے وعدے پورے نہ کر سکے، مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے تو سیاسی جماعتوں کو حق حاصل ہے کہ اس کے خلاف کمپئن کریں سڑکوں پر نکلیں یا عدلیہ کے پاس جائیں، آئینی و قانونی راستے موجود ہیں۔ حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہی عوام کی مشکلات میں اصافہ ہوا مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور حکمران طبقہ صرف پرانے ادوار کے ہی نوحے پڑھنے میں مصروف ہے، ایسے حالات میں عوام تنگ آ جاتے ہیں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں، چلی، ارجنٹائن اوور لبنان میں کیا ہوا، حکومت حالات کا ادراک کرے عوامی مسائل حل کرے اس میں اس کی بھی بہتری ہے۔
سوال: اقتدار سے پہلے تحریک انصاف ایک کروڑ نوکریاں 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے کے خواب دکھائے جبکہ عوام کے مسائل پہلے سے بڑھ گئے کیا کہتے ہیں؟
جواب: عمران خان نے پہلے 100 دن کی بات کی یہ 6 ماہ پھر 1 سال کا وقت مانگا جبکہ مسائل آج بھی وہیںکھڑے ہیں، یو ٹرن لینے پر فخر کا اظہار اور وزرا کی وضاحتیں اور تعریفیں سن کر رونا آتا ہے۔ عمران خان کا مسئلہ ہے کہ انہیں اپنی تعریف کے علاوہ کچھ سنائی یا دکھائی نہیں دے رہا۔ چیف جسٹس نے جو باتیں کی ہیں ان کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: حکومت ٹارگٹ پورا نہیںکر سکی، عوام پریشان اور مایوس ہیں، حکومتت کی معاشی ٹیم کمزور ہے یا اس کی ترجیحات درست نہیں ہیں؟
جواب: عمران خان نے 2011ءمیں بڑا عوامی جلسہ کیا تو ہم نے کہا کہ شاید کوئی انقلاب آنے والا ہے اس کے بعد انہوں نے فصلی بٹیرے اکٹھے کئے اور اہم عہدوں پر بٹھا دیا۔ اس وقت آدھی کابینہ مشرف کی اور باقی آدھی پیپلزپارٹی ن لیگ کی ہے، کیا انقلاب ایسے آتے ہیں عمران پر مشکل وقت آیا تو یہ فصلی بٹیرے غائب ہو جائیں گے۔ مہنگائی اور مسائل میں گری عوام اٹھ کھڑی ہوئی تو کوئی طاقت اس کے آگے نہیں ٹھہر سکے گی۔ عمران خان کی موجودہ ٹیم ناکام ہو چکی اسے پرانے انقلابی ایجنڈے کے تحت نئی ٹیم کا چناﺅ کرنا ہو گا، نوازشریف پر الزام لگاتے تھے کہ 35 اہم عہدوں پر رشتہ دار لگا دیئے، اب 70 عہدوں پر اپنے دوست لگا دیئے ہیں۔
سوال: یو این اجلاس میں عمران خان کی تقریر کو ہر جگہ سراہا گیا، امریکی سینٹ میں بازگشت سنائی دی ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کا کہہ دیا، مسئلہ کشمیر عالمی فورمز پر زیر بحث آیا دنیا مظالم کی بات کرنے لگی، حکومت نے ہر جمعہ کو یوم یکجہتی کشمیر کا سلسلہ شروع کیا اب وہ سارا کچھ ایک دم سے رک گیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے، حکومت تو سارا الزام دھرنے والوں پر لگا رہی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: عمران خان نے اچھی تقریر کی جس کی دوست دشمن سب نے تعریف کی، سعودی عرب اور یو اے ای کے حکمرانوں نے جب مودی کو اعلیٰ ایوارڈ دیئے تو اس وقت کشمیر کاز کہاں تھی عمران خان کیوں خاموش رہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ دھرنے سے کشمیر کاز کو فرق پڑا تو راہداری کھولنے سے کیوں فرق نہ پڑا، ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ تقسیم کے وقت مسلمانوں کی قتل و غارت اور عصمت دری کس طبقہ نے کی تھی، کیا کشمیر میں سکھ بھارتی فوجی ظلم نہیں کر رہے۔
سوال: نوازشریف کی صحت کے مسئلہ نے طول کھینچا، آخر عدالت کے فیصلے پر وہ باہر چلے گئے اب تلخ گفتگو شروع ہو گئی، عدلیہ بارے جو گفتگو ہو رہی ہے اچھا رجحان نہیں ہے، جو نیا بیانیہ شروع ہوا ہے، دو وزیروں پر توہین عدالت کے کیس پڑے ہیں، اس وقت ایسا کیا ہونا چاہئے کہ عدلیہ کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے؟
جواب: نوازشریف کیس کے بعد عدلیہ بارے جو بیان بازی شروع ہوئی اس کا کافی حد تک جواب چیف جسٹس نے دے دیا ہے اور وزیراعظم کو یاد دلایا ہے کہ نواز کے جانے کی اجازت عدلیہ نے نہیں آپ نے دی۔ عمران خان الجھے نظر آتے ہیں چیف جسٹس کے بیان کے بعد حکومتی وزراءاب عدلیہ کا بورڈ لگا کر اس کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔ عدلیہ کی آزادی سے کام کرنے دینا چاہئے وہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرے چاہے وہ کسی کے بھی خلاف ہوں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv