تازہ تر ین

فوج نے اپنے افسروں کو عبرتناک سزا دے کر خود احتسابی کی بڑی مثال قائم کر دی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بہت ہی بڑی خبر ہے کہ عام طور پر فوج کے بارے میں تو اس قسم کی باتیں سوچی بھی نہیں جا سکتیں لیکن اس سے یہ لگتا ہے وہاں بھی یہ اثرات پہنچ سکتے ہیں لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ بڑا ایکشن لیا گیا ہے اور جو زیادہ سے زیادہ سزا دی گئی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی فوج نے اپنی سابقہ روایات برقرار رکھی ہیں اور اس قسم کے معاملات میں نہایت سخت ایکشن لیا گیا ہے یہ کافی دیر سے معاملہ چل رہا تھا اس کو بہت عرصہ لگ گیا ہے لیکن جو لوگ اس میں ملوث ہیں وہ غالباً ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو فوج میں ہو اکثر لوگ تو سابق ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود جو ایکشن لیا گیا ہے اس بات کی دلیل ہے کہ کتنی تندہی سے اس کا کھوج لگایا گیا ہو گا اور واقعی ایک صاحب جن کا تعلق فوج ہی سے ہے سابق سینئر پوزیشن میں ہیں وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ میرا بس چلے تو میں اپنے ہاتھ سے ان مجرموں کو سزائیں دوں۔ میں نے کہا کہ اب بھی آپ ہی کے ہاتھ سے ہے انہوں نے کہا کہ غصہ مجھے اتنا ہے کہ پاک فوج سے تعلق رکھتے ہوئے جن لوگوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وطن کے لئے جان تک قربان کر دیئے ہیں وہ اگر خود ان پر یہ الزام آئے کہ انہوں نے یہ حرکت کی یا ان کے کسی قول و فعل سے ملک و ملت کے مفادات کو نقصان پہنچا تو یہ واقعی بڑی تکلیف دہ بات ہے۔ ضیا شاہد نے کہا یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ہم جب پاک آرمی کی طرف دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی ان ٹییگریٹی ہو سکتی ہے اگر کوئی حب الوطنی ہو سکتی ہے یہ لوگ اس کی معراج پر ہیں۔ جو اپنی جان تک قربان کر کے ملک و ملت کا دفاع کرتے ہیں۔ پھر جب اس قسم کی کوئی بات سنائی دیتی ہے تو آدمی کے رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجود اگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہے تو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک بھی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس پر مضبوط ایکشن لے کر فوج نے اپنی سابقہ روایات کو بھی برقرار رکھا ہے اور یہ اداروں کے لئے ایک مثال بنے گی۔ جو بھی ایکشن لیا گیا ہے وہ ایکشن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایکشن لینے والوں کو خراج تحسین کیا جائے انہوں نے اپنی فورس کو گندی اور آلودگی سے جس طرح سے بال بال بچایا ہے اس پر ان کو خراجج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کا پہلو یہ بھی ہے اور یہی فرق ہے فوجی اور سول اداروں میں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حال ہی میں جس طرح سے یہ یاور صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے چونکہ اس کی قانون میں گنجائش موجود ہے ضروری نہیں ہے کہ فوجی مقدمات وہ صرف فوج ہی لوگوں پر عائد ہوں کسی سویلین پر بھی فوج کی عدالتوں میں کیس چلائے جا سکتے ہیں خاص طور پر جب وہ کیس ملک دشمنی کے ہوں۔ محسن داوڑ کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ فی الحال تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سول کورٹس میں ہی سزا دی جائے گی لیکن اگر حکومت اور فوج چاہے تو پھر اس پر فوجی عدالتوں میں گھسیٹا جا سکتاہے۔ معیشت کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا ہے کہ یہ صرف بینکاروں کا یا ماہرین معاشیات کا معاملہ ہے۔ بجٹ قریب آئے تو ارکان اسمبلی کا کام ہوتا ہے بلکہ پورا سال بجٹ کے حوالے سے کہ اخراجات کتنے کرنے ہیں کمائی کہاں سے ہونی ہے اور کس طرح سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں کھینچا جا سکتا ہے یہ وہ چیز ہے جو سال کے 12 مہینے اور 24 گھنٹے ان کے ہیں اس پر مسلسل کام ہونا چاہئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے پر مضبوط بنیادوں پر کام ہونا چاہئے کہ جنوبی پنجاب ہو یا کوئی اور علاقہ جس ضلع یا ڈویژن کے فنڈز ہیں وہ اس علاقے میں استعمال ہونے چاہئیں۔ ایسے راستے احتیار کرنے چاہئیں کہ جو چور دروازے ماضی میں رہے ہیں ان کو بند کیا جا سکے۔ خاص طور پر جب معاملات وائٹ کالر کرائمز کے بارے میں آئیں۔ دو قسم کے کرائم ہوتے ہیں۔ ایک کرائم ہے فوجداری کرائم اور دوسرا وائٹ کالر کرائم۔ وائٹ کالر کرائم جو آج کل بالکل عام ہو گیا ہے ہر بڑا آدمی وائٹ کالر کرائم میں مبتلا ہے۔ بڑے بڑے سیاستدان، ارکان اسمبلی ارکانٹ سینٹ اور سابق وزراءجس کو دیکھو وہ وائٹ کالر کرائم میں مبتلا ہے۔ جس طرح سے پہلے قرضہ لیا جاتا ہے پھر اس کو ایسے منصوبوں پر لگایا جاتا ہے جہاں سے پیسے آسانی سے نکالے جا سکیں اس کمائے ہوئے پیسے کو پاکستان سے باہر بھیج کر دنیا بھر کے ملکوں میں پراپرٹی خریدی جاتی ہیں اور اپنا کالا دھن باہر جمع کیا جاتا ہے۔ جب تک ان چیزوں پر قابو نہیں پایا جائے عام آدمی بیچارا کیا کر سکتا ہے۔ صرف سرکاری کاموں کا ٹھیکیدار جو ہے کس طرح سے بل بناتا ہے مجھے ایک آدمی نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ سب سے زیادہ جو دلچسپی لی جاتی ہے پیسوں کے سلسلے میں وہ عوامی منصوبوں میں لی جاتی ہے۔ بڑے بڑے میگا پراجیکٹس میں زمین کے نیچے چلنے والی گاڑی، زمین کے اوپر چلنے والی بس، کیونکہ پیسہ بہت خرچ ہوتا ہے جہاں خرچ ہو گا تو اس میں سے نکالا جا سکے گا اب اس میں عام آدمی کا بھی بیچارے کا شمار قطار تک نہیں ہے۔ سابق سربراہوں کو دیکھیں کس طریقے سے ان کی اولادیں پیسہ کما رہی ہیں اور پاکستان سے باہر بھیج رہی ہیں اور اب بھیجا ہوا پیسہ کبھی واپس منگواتی ہیں کبھی پھر باہر بھیج دیتی ہیں جن ناموں سے ٹرانزکشنز ہوتی ہیں ان کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیںہوتا ان میں کوئی چوکیدار ہے کوئی ڈرائیور کوئی معمولی کارکن ہے کسی جگہ پر جو یہ کہتا ہے کہ میں نے تو آج تک 50 لاکھ روپے اکٹھے دیکھے نہیں آپ کہتے ہیں کہ میں 50,50 لاکھ کے ساتھ چیک ایشو کئے ہیں۔ جس طرح سےع دالتیں جو ہیں ان کو ریلیف دیتی ہیں اور ان کو ہر قسم کی سہولت دیتی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ارادہ دور دراز تک سزائیں دینے والی اتھارٹیز ہیں ان کا ارادہ ان لوگوں کو پکڑنے کا ہے ہی نہیں۔ جو لوگ دشمن ملکوں کی ایجنسیوں سے پیسہ لے کر ریاست کے خلاف کام کر رہے ہوں ان کے بارے میں سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر بات کرنی یا حمایت کرنی چاہئے۔ ریاست کے خلاف کام کرنے والوں کو عام مجرم کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس بات کا بھی کوئی ضابطہ کار طے ہونا چاہئے کہ اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے تو وہ کسی ایسے شخص کی حمایت کیسے کر سکت ہے جس پر ریاست کے خلاف بغاوت کے الزامات ہوں آئی ایس پی آر نے واضح کہا ہے کہ یہ لوگ دشمن ملک سے پیسے لے کر کام کر رہے ہیں تو بلاول بھٹو اور خواجہ آصف کو ان کے بارے میں سوچ سمجھ کر رائے دینی چاہئے۔ اب تو سوشل میڈیا پر ویڈیوز چل رہی ہیں جن میں ایک خاتون جو بیرون ملک سے لئے پیسے آگے پہنچاتی ہیں محسن داوڑ کو کہہ رہی ہیں کہ پاک فوج کے خلاف کھلم کھلا رائے دو جواب میں وہ کہتتے ہیں کہ ایسا مشکل ہے تو کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے ورنہ ہمارا مقصد کیسے پورا ہو گا۔ ایسی فوٹیجز سامنے آنے کے بعد تو ایسے عناصر کی حمایت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ پاکستان میں کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ بیرون ملک سے پیسے لے کر پاک فوج کے خلاف دریدہ دہنی کرے۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv