پاکستان اور سعودی عرب نے دونوں ممالک کے باہمی فائدے کے لیے مضبوط شراکت داری قائم کرنے اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی وفد کا دورہ پاک سعودیہ اسٹرٹیجک اور تجارتی شراکت داری کے نئے دورکا آغاز ہے، جب کہ بقول وزیرخارجہ اسحاق ڈار، ایس آئی ایف سی کے ذریعے زراعت اور معدنیات کے شعبے میں موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، سرمایہ کاری کے لیے توانائی، ہائیڈرو، تعلیم، آئی ٹی، کان کنی، زراعت اور دیگر شعبوں میں اثاثوں کو اسٹریم لائن کر رہے ہیں۔
یہ خوش آیند بات ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک بار پھر ایک دوسرے کے اُتنے ہی قریب آ رہے ہیں، جتنے اکثر دیکھے جاتے ہیں لیکن چونکہ گزرے چند برسوں میں ان تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کے بعد اب ایک بار پھر بہتری آ رہی ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کا ہر برے وقت میں ساتھ دیا ہے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے ہیں۔
اس وقت ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ انھیں ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہوگا، اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے چھ سے آٹھ ارب ڈالرکا قرض پروگرام حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کررہے ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ یعنی نومبر 2021میں پاکستان کے گرتے ہوئے زر ِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالرکی رقم ایک سال کے لیے جمع کرائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکاؤنٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ماضی میں پاک سعودی عرب کے تعلقات میں کہیں گرم جوشی دیکھنے کو نہ ملی ہو۔
آپ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں، دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے۔
پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) سعودی عرب کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ پاکستانی اور سعودی تاجروں دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان موافقت اور تقابلی فائدے کے شعبوں کا تعین کریں۔ دونوں جانب کے چیمبرز آف کامرس کو زیادہ باقاعدگی سے بات چیت اور ضروری قانونی اصلاحات کے لیے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے، جو سرمایہ کاری پر موزوں منافع کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔