تازہ تر ین

فاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی براہ راست کوریج کی ‏مخالفت کردی۔

فاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی براہ راست کوریج کی ‏مخالفت کردی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل 6 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر دیے گئے عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس عیسیٰ، ان کی اہلیہ و دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ کمرہ عدالت میں آئے۔

دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ عدالتی کارروائی تکنیکی نوعیت کی ‏ہوتی ہے اور ججز کے سوالات سے عام آدمی سمجھنے کی بجائے کنفوژ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‏ججز کے کنڈکٹ پر پارلیمنٹ میں بھی بحث نہیں ہوسکتی اس لیے براہ راست کوریج سے ‏عدالتی وقار میں بھی کمی آئے گی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بھارتی سپریم کورٹ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی عوام تک پہنچانے کے لیے میڈیا موجود ہے اور میڈیا نمائندگان آسان زبان میں عدالتی کارروائی عوام تک پہنچاتے ہیں، اس لیے میڈیا کے ہوتے ہوئے براہ راست کارروائی دکھانے کا کوئی جواز نہیں۔

عامر رحمٰن نے کہا کہ ججز کو کمرہ عدالت میں خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، کیس کی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے براہ راست کوریج سے فیصلے قانون نہیں ‏مقبولیت پر مبنی ہوں گے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل ‏مضبوط ہیں، ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

اہلیہ جسٹس عیسیٰ کی وزیر اعظم، وزیر قانون، شہزاد اکبر پر تنقید

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیر اعظم، وزیر قانون اور معاون خصوصی شہزاد ‏اکبر پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔

سرینا عیسیٰ نے دلائل میں کہا کہ میرے شوہر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو ان کی مدد کرتی تھی اور پہلے کبھی تصویر نہیں بنی، لیکن اب عدالت آتے جاتے میری ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر جاتی تھی تب بھی میری ویڈیوز بنائی جاتی تھی۔

سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر قانون نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور جسٹس قاضی فائز عیسی کو راستے سے ہٹانے کے لیے غیر قانونی اقدامات کیے جبکہ میرے ساتھ حکومتی عہدیداروں کا رویہ تضحیک آمیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنی رقم سے خریدی جائیداد راتوں رات میرے شوہر کی بنادی گئی جبکہ میں وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہوں۔

علاوہ ازیں سرینا عیسیٰ نے کہا کہ فروغ نسیم نے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عہدے کا نا جائز استعمال کیا جس کی مثال ان کے کردار سے ملتی ہے وہ کبھی وزیر ہوتے ہیں کبھی وکیل، دراصل فروغ نسیم عدالت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس وقت سماعت کی براہ راست نشریات کی درخواست پر سماعت ہو رہی ہے۔

سرینا عیسیٰ نے عدالت میں مزید کہا کہ جون 2020 تک کے میرے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی گئی۔

انہوں نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے نوکری شروع کی تو ان کی تنخواہ 35 ہزار تھی جبکہ میں 22 سال پہلے سے نوکری کر رہی ہوں لیکن شہزاد اکبر نے کبھی اثاثے ظاہر نہیں کیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شہزاد اکبر کے معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟ اور جب آغا افتخار نے سپریم کورٹ کے جج کو قتل کرنے کی دھمکی دی تو آغا افتخار کیس میں شہزاد اکبر کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا۔

جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کی اہلیہ نے عدالت میں کہا کہ عدالت حکم دے تو براہ راست کوریج کا بندوبست کر سکتی ہوں۔

8 ہزار روپے پر نیب کا ملازم شہزاد اکبر عدلیہ کو لیکچر دیتا ہے، جسٹس قاضی عیسیٰ

علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی جبکہ یہ وار دشمن کے خلاف نہیں ہورہی جبکہ سوشل میڈیا برگیڈ منہ چھپا کر حملے کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بوتھم نے عمران خان پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگایا تھا اور بدلے میں عمران خان نے بوتھم پر مقدمہ کیا، وہ جیت گئے لیکن موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لے کر جارہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وحید ڈوگر کی شناخت کیا ہے؟ کوئی نہیں بتاتا اور پاکستان میں اس وقت ڈوگر جیسے ٹاؤٹ بھرے پڑے ہیں جبکہ 8 ہزار روپے پر نیب کا ملازم شہزاد اکبر عدلیہ کو لیکچر دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم احمقوں کی جنت میں نہیں رہ سکتے اور عدالت خود دیکھ سکتی ہے کارروائی کتنی رپورٹ ہوتی ہے جبکہ تاثر ہمیشہ حقیقت سے مختلف ہوتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیے کہ چاہتا ہوں لوگ میری بات براہ راست سنیں کیونکہ میری گفتگو کا مکمل حصہ میڈیا رپورٹ نہیں کرتا۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران انہوں نے کہا کہ امریکا کو عالمی لیڈر مان کر لوگ فالو کرتے ہیں۔

دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے تحریری دلائل کا جائزہ لیا ہے، تمام دلائل اوپن کورٹ میں سماعت کے تھے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv