اسلام آباد(ویب ڈیسک): افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی (اے پی اے پی پی ایس) کے تحت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ ملاقاتیں دوبارہ شروع ہوئیں تو دونوں فریقین نے تعلقات میں مسلسل خرابی پیدا کرنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
دفتر خارجہ کیا جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘دونوں فریقین نے اے پی اے پی پی ایس کے تمام اہم امور پر غور، مشترکہ چیلنجز کو مؤثر طریقے سے نمٹنے اور نئے مواقع کی تلاش کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا’۔
افغانستان حکومت کی دعوت پر سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے اے پی اے پی پی ایس کے دوسرے جائزہ اجلاس کے لیے سینئر افسران پر مشتمل پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے جبکہ افغانستان کی قیادت نائب وزیر خارجہ میرویس نب نے کی۔
دونوں فریقین نے اے پی اے پی پی ایس کے جائزہ اجلاسوں کی تعدا بڑھانے اور مختلف ورکنگ گروپس کے مابین باہمی تعاون کو بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
تعلقات کے حوالے سے فریم ورک 2018 میں دونوں ممالک کے اداروں کے مشغول ہونے کے لیے جامع اور اسٹرکچرڈ میکانزم تیار کیا گیا تھا۔
اس فری ورک میں 5 ورکنگ گروپس شامل ہیں جو سیاسی-سفارتی تبالے، فوج سے فوج کے تعلقات، انٹیلی جنس کا تبادلہ، معاشی تعاون اور پناہ گزینوں کے امور شامل ہیں۔
اس سے قبل جائزہ اجلاس جون 2019 میں ہوا تھا۔
اے پی اے پی پی ایس کے تحت اس کے بعد اجلاس کا انعقاد پہلے افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی وجہ سے نہیں ہوا تھا اور بعد میں انتخابات کے نتائج سے متعلق تنازع کی وجہ سے نہیں ہوسکا تھا جبکہ حال ہی میں کورونا وائرس کی وجہ سے بھی یہ موخر ہوا تھا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپریل میں اپنی نامزدگی کے فورا بعد ہی قائم مقام افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر کے ساتھ اپنی پہلی ٹیلی فوننک گفتگو میں غیر فعال ای پی اے پی پی ایس کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
دفتر خارجہ نے بتایا کہ ‘ملاقات کے دوران باہمی تعلقات کے تمام زاویوں کا جائزہ لیا گیا’۔
افغان میڈیا کے مطابق اس ملاقات کے بعد کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میرویس نب نے کہا کہ ‘ہم دونوں ممالک کے تعلقات کو نہ صرف باہمی سطح پر بلکہ سہ فریقی اور کثیرالجہتی میکانزم کے ساتھ بڑھانے پر اتفاق کیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ افغان وفد نے پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے، سرحد پر ہونے والے واقعات، پاکستان میں افغان مہاجرین کو درپیش مشکلات، تجارت اور راہداری کے امور اور وسیع مذاکرات میں امن عمل سے متعلق امور اٹھائے۔
متعلقہ ورکنگ گروپس کے اجلاسوں میں ان امور پر گہرائی سے بات چیت ہوئی۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیاسی-سفارتی ورکنگ گروپ میں پاکستانی فریق نے باضابطہ اعلیٰ سطح کے تبادلے کے ذریعے باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے، ادارہ رابطوں سمیت موجودہ میکانزم کے استعمال، معاشی شراکت میں اضافہ اور عوامی رو ابط تیز کرنے پر زور دیا۔
اقتصادی ورکنگ گروپ کے تحت، پاکستان نے سہولیات اور لبرلائزیشن کے اقدامات کے ذریعے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا اور افغانستان – پاکستان ٹرانزٹ تجارتی معاہدے (اے پی ٹی ٹی اے) پر بات چیت شروع کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
ملٹری ٹو ملٹری اور انٹلیجنس کوآپریشن ورکنگ گروپس کے تحت باقاعدہ تبادلے اور قریبی تعاون پر زور دیا گیا۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ مہاجر ورکنگ گروپ نے پاکستان میں افغان مہاجرین سے متعلق تمام پہلووؤں کا جائزہ لیا۔
پاکستان کی جانب سے اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ امن اور مفاہمت کے عمل سے افغان مہاجرین کی باوقار اور باعزت وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔
سیکرٹری خارجہ نے پاک افغان تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان تاریخی اور برادرانہ تعلقات کو علاقائی امن ، استحکام اور خوشحالی کی مشترکہ خواہش سے تقویت ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح پر دو طرفہ تبادلوں اور متعدد دو طرفہ میکانزم ، خاص طور پر اے پی اے پی پی ایس کے ذریعے تعلقات کو مزید تقویت ملی ہے۔
جائزہ اجلاس سے قبل سکریٹری خارجہ اور وفد کے اراکین نے افغان قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمر سے ملاقات کی تھی۔