تازہ تر ین

عمران خان نے ٹھیک کہا نواز شریف سے زیادہ سنگین بیمار قیدی جیلوں میں پڑے ہیں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اپوزیشن تو متحد ہو سکتی ہے میرا خیال ہے کہ ساری اپوزیشن کو مصیبت پڑی ہوئی ہے ہر ایک کو اپنے آپ کو بچانے کی پڑی ہوئی ہے۔ اپنے آپ کو بچانے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کسی نہ کسی ایشو کو سامنے کھڑا کر کے اس پر احتجاج کی سی کیفیت پیدا کرے کیونکہ وہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں باہر رہنے دیا جائے یا یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس بند کر دیئے جائیں لہٰذا کسی نہ کسی بہانے، کبھی وہ صدارتی نظام کا لفظ بولیں گے کبھی کہیں گے کہ 18 ویں ترمیم کو نقصان پہنچ رہا ہے کبھی اس کے علاوہ کوئی نہ کوئی اب پنجاب میں بلدیاتی نظام کے خاتمے کو لے لیں گے اب نئے الیکشن کی آمد پر جو بلدیاتی الیکشن ہے اس کی آمد سے پہلے کوئی شور شرابا مچانا چاہیں گے چنانچہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے او ریہ ایک اچھا موقع ہے مسلم لیگ ن کے لئے کہ یہاں پنجاب میں چونکہ ان کی اکثریت رہی ہے یہ تو شہباز شریف صاحب نے بھی بلدیاتی اداروں کو کوئی اختیارات نہیں دیئے تھے۔ اور سارے اختیارات اپنے پاس حکومت نے رکھے ہوئے تھے ورنہ اس سے بھی زیادہ بڑی تحریک چل سکتی تھی کیونکہ بلدیاتی اداروں کو ملا ہی کچھ نہیں ان کے پاس کوئی اختیارات تھا ہی نہیں نہ وہ کوئی کام کروا سکتے تھے نہ ان کے پاس بجٹ تھا میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید کوئی اتنی زیادہ عوام میں رسپانس پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا یہ مشکل کام ہے تاہم وہ کوشش ضرور کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات صحیح ہے کہ بلدیاتی اداروں میں نوجوانوں کو موقع دیا جائے گا کیونکہ تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر بے تحاشا لوگوں کو شکایات نہیں اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ ٹکٹ صحیح طور پر نہیں تقسیم ہوئے۔ اب ایک موقع ملے گا دوبارہ بلدیاتی الیکشن میں کیونکہ بلدیاتی اداروں کے پاس اگر اختیارات آ جائیں تو بہت حد تک وہ مقامی حکومت کے وہ پردھان بن سکتے ہیں۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے نوجوان خاص طور پر پسند کریں گے کہ وہ ایم پی اے یا ایم این اے نہیں بن سکے تو بلدیاتی اداروں میں اپنے شہر کا اقتدار حاصل کرنے والی مشینری ہے اس کے کل پرزے بن جائیں۔ یہ تو ضروری ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دیئے جائیں اور میری خواہش ہے کہ پچھلی حکومت نے غلط کیا تھا اور یہ حکومت بھی یہی کرے گی کہ نام کے اختیارات ہوں اصل میں ان کے پاس کچھ نہ ہو تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر اختیارات دے دیں تو مقامی سطح پر حکومتیں موثر نظام بنا سکتی ہیں اور شہروں، قصبات اور ڈویژن لیول پر ضلع لیول اور تحصیل لیول پر بہت اچھی سطح کی حکومتیں قائم ہو سکتی ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا مزدوروں کے ذکر پر حکومت نے بہت ذکر کیا پیپلزپارٹی نے تو بہت ہی شور مچایا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں کراچی کے مزدوروں پر گولی چلی اور کئی مزدور شہید بھی ہو گئے پھر معراج محمد خان نے جن کو بھٹو اپنا جانشین قرار دیتے تھے دو جانشین کیا کرتے تھے نمبر ایک غلام مصطفی کھر نمبر2 معراج محمد خان۔ مصطفی کھر نے بھی ان سے بغاوت کی اور الگ ہو گئے اور جو معراج محمد خان تھے انہوں نے تو الگ ہو کر قومی محاذ آزادی بنا لیا تھا ان کی سارا جھگڑا ہی مزدوروں کو نہ دینے پر تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے بے نظیر بھٹو کے دور میں مزدوروں کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا اور پھر آصف زرداری کے 5 سالہ دور میں بھی تو سرے سے کوئی کام نہیں ہوا۔ اب تو کافی دیر سے یہ بوگی بند پڑی ہے اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر اس حکومت نے عقل مندی سے کام لیا تو مزدوروں کو اپنے ساتھ ملا سکتی ہے کیونکہ واقعتاً مزدوروں کے لئے کسی نے بھی کام نہیں کیا، نوازشریف کی طرف سے علاج کے لئے باہر جانے کی اجازت کی درخواست کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے بہت شروع میں ہی کہا تھا کہ نوازشریف صاحب پوری کر رہے ہیں کہ وہ باہرجائیں اور اس وقت سب نے اس کا انکار کیا۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب تک نے کہا کہ باہر جانے کی تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی لیکن آپ یہ دیکھیں کہ تینوں درخواستیں زبان حال سے چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ مجھے باہر بھجوایا جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج عمران خان نے اس سلسلے میں ایک بڑے پتے کی بات کی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ میں عدالتوں کے معاملات میں داخل نہیں دینا چاہتا لیکن انہوں نے ایک سوال کیا، انہوں نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے پاکستان کی جیلوں میں بند کتنے قیدی ہیں جنہیں اس قسم کی یا اس سے بھی سنگین بیماریاں ہیں کیا ان سب کو باہر جانے دیا جائے اور انہوں نے کہا کہ یہ میں سوال پوچھتا ہوں کہ اگر ان کو اجازت دے دی جائے گی تو پھر ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو جیلوں میں بند ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ خاص طور پر عمران خان یہ بات کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیوں وہ خود بیمار بھی نہیں ہے اس کے باوجود اپنی والدہ کی بیماری کے حوالے سے انہوں نے شوکت خانم کے نام سے ایک معیاری ہسپتال قائم کیا جو پاکستان کے ممتاز ترین ہسپتالوں میں شامل ہے انہوں نے پشاور میں بھی اس کی ایک شاخ قائم کی اور اب کراچی میں بھی بنانے جا رہے ہیں اس لئے عمران خان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں کوئی ایک ہسپتال بھی ایسا کیوں نہیں بنایا جس میں خود آپ کا بھی علاج ہو سکے۔ یا وہاں علاج کروانے میں آپ کو کوئی ہچکچاہٹ نہ محسوس ہو۔
قانونی ماہر اور سابق جج خالد رانجھا کی بات میں وزن ہے کہ شاید نوازشریف کو باہر علاج کرانے کی اجازت نہ دی جائے۔ نوازشریف کی جس طرح سے مختلف افراد سے ملاقاتیں جاری ہیں ان کی حالت زیادہ تشویشناک نظر نہیں آتی۔
افغان سرحد پار سے دہشتگردوں نے حملہ کر کے ہمارے 3 فوجی جوان شہید کر دیئے سوال یہ ہے کہ افغان حکومت کہاں ہے۔ ان حملوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ افغان حکومت کا کنٹرول صرف کابل تک محدود ہے باقی پورے افغانستان میں ان کی کوئی رٹ نہیں ہے، افغانستان کے مختلف علاقوں میں مختلف گروپوں کا کنٹرول ہے۔ دہشتگرد گروہ افغان سرحد پرباڑ لگنے کے مخالف ہیں کیونکہ باڑ کا منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں ان کی در اندازی ممکن نہ رہے گی۔
افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے لانگ ٹرم مذاکرات ضروری ہیں تاہم جب بھی ایسا ہونے لگتا ہے تو افغان حکومت کسی نہ کسی بہانے مذاکرات سے نکل جاتی ہے۔ قطر کے مذاکرات میں بھی ایسا ہی کیا گیا اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ ہم فلاں فلاں بندے کے ہوتے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوتا اگر آپ نے بات کوئی ہوتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مخالف فریق کے ساتھ کون آیا ہے۔
500 ارب کے ٹیکس تو مان لئے گئے ہیں دیکھنا تو یہ ہے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ یہ بھاری ٹیکس کس سیکٹر سے لیتے ہیں کیا ان لوگوں پر ٹیکس لگاتے ہیں جنہوں نے آج تک ٹیکسی نہیں دیا یا پھر عوام پر ہی یہ بوجھ بھی ڈالتے ہیں جو پہلے میں جانکنی کی کیفیت میں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وکلا، ڈاکٹرز، انجینئرز اور کاروباری افراد جس کی بھاری آمدن ہوتی ہے ان سے یہ ٹیکس وصول کرے اور عام عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں مرے جا رہے ہیں ان پر مزید بوجھ نہ ڈالے۔



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv