لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان کی پہلی تقریر بھی سنی تھی اور 100 روز مکمل ہونے پر تقریر بھی سنی ہے اس بات کی بہت خوشی ہوئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ ملک میں عوام کو مشکلات ہیں غربت، مہنگائی کے سبب اس کی ذمہ داری انہوں نے پچھلی حکومت پر ڈالی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دیا بلکہ انہوں نے ذمہ داری قبول کی کہ ہاں اس وقت یہ مسائل ہیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ زور دیا کہ غریب آدمی کو کمزور آدمی کو کس طرح اٹھانا اور اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا ہے۔ ان کی تقریر زبردست قسم کی گائیڈ بک تھی میرے بس میں ہو تو میں اس میں سے نکات نکال کر اسے نئے طریقے سے اسے چھاپ کر اس کو جس طرح سے ایک زمانے میں مختلف لیڈروں نے مثال کے طور قذافی نے اپنی اپنی ایک بک بنائی تھی۔ قائداعظم کی تقریروں میں سے لے کر بھی ایک بک بنائی گئی تھی کہ کیا کام کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔ اسی طرح سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی گفتگو کی روشنی میں جو کام کرنے والے ہیں اس کے بارے میں پوائنٹس بنا کر ایک گائیڈ بک بنانی چاہئے وہ ہر وقت وہ شخص جو سوچنا چاہتا ہے اس کے پاس گیٹ تھرو گائیڈ جس طرح سے ہوتی ہے جب آدمی پورا پرچہ تیار نہیں کر سکتا تو وہ گیٹ تھرو گائیڈ لیتا ہے کہ ضروری ضروری سوال کم از کم تیار کر لے تا کہ امتحان میں پاس ہو جائے۔ اس امتحان میں جو اس ملک کو اور غریبوں کو درپیش ہے یا اس کے محتاجوں کو درپیش ہے۔ جو زندگی کی اس دور میں پس گئے ہیں بہت رہ گئے ہیں مسلے گئے ہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب وہ بات کر رہے تھے تو میری آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے کہ جب خاص طور پر کہ جو بچے ہیں پہلے 3,4 برس میں ان کی خوراک وہ اتنی غیر مناسب ہوتی ہے کہ ان کی جسمانی اور دہنی نشوونما نہیں پاتی اور کتنے بچے جو ہیں پیدائش کے ساتھ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کتنے بچے بڑے ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ میس سوچ رہا تھا کہ کتنے بڑے ہسپتال دانش سکول بنائے گئے، پڑھا لکھا پنجاب کے ڈھنڈورے پیٹے گئے۔کیسے کیا کیا اصلاحات آ رہی ہیں میں سمجھتا ہو ںکہ ہمیں کسی بڑی ٹرین کی ضرورت نہیں کسی ہوائی سروس کی ضرورت نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غریب اور کمزور بندوں کو، جس طرح سے یہ صرف دعوے نہیں ہیں۔ میں نے خود فیچر چھاپے ہیں میں نے خود اپنے اخبار میں 2,2 صفحات کے رنگین فیچر شائع کئے ہیں کہ لاہور میں یہ جو سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹ پر راتوں کو کتنے مزدور سوتے ہیں اور اب جبکہ سردی آ رہی ہے تو کتنے ایسے لوگ ہیں وہاں باہر جب سوتے ہیں تو دکانوں کے باہر پھٹوں کے نیچے گھس کر سوتے ہیں کہ سردی سے بچ سکیں۔ ان لوگوں کے لئے لاہور میں بہت تھوڑے ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ شاید بہت زیادہ کی ضرورت ہے لیکن جو رپورٹر بھیجے تھے ان لوگوں نے آ کر کہا کہ لوگ بہت سہولت میں ہیں اتنا گرم کمبل ہے کہ بڑی آسانی سے گزارا ہو سکتا ہے۔
ضیا شاہد نے کہا وزیراعظم اگر 25 فیصد باتوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ملک میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ بلوچ صاحب نے کہا ہے کہ ہر حکومت جب آتی ہے تو اس قسم کی باتیں کرتی ہے۔ حالانکہ میں نے بڑے تقریریں سنی ہیں میں نے نوازشریف کو اپنی پہلی تقریر میں ایسی باتیں کرتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے غریب آدمی کی حالت بدلنے کی کبھی بات نہیں کی۔ انہوں نے کبھی ایک سے زیادہ نظام ہائے تعلیم بدلنے کی، ایک نظام تعلیم لانے کی بات نہیں کی۔ کبھی یوسف رضا گیلانی نے اس قسم کی بات نہیں کی۔ کبھی مشرف نے بھی کبھی ایسی باتیں نہیں کی تھیں۔ کم از کم 100 دنوں کے بعد اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے وقت عمران خان نے کچھ ایشوز کو چھیڑا بھی ہے تو وہ اس میں سو فیصد نہیں کامیاب ہوتے 25 فیصد بھی کامیاب ہو گئے تو بڑی بات ہو گی۔ ہمارے ہاں سیاستدان دوقسم کے ہیں ایک وہ ہیں جو کسی وجہ سے حکومت میں پہنچ سکے ان کی رائے اور ہو گی اور جو اس قسم کے ساتھ ان کی رائے او ہو گی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے کتنے مہینوں میں قیصر امین بٹ نے طے کیا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور وہ اقبالی بیان دیں گے۔ کم از کم پیراگون نام سنتے ایک عرصہ گزر گیا اس طرح سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ نیب کو چاہئے کہ ٹھیک فیصلہ دینا ہے کہ آپ چاہے نامکمل چالان پیش کریں چالان تو پیش کریں جن لوگوں کے وعدہ معاف گواہ بنا لئے ہیں جس نے معلومات دے دی ہیں۔
قائرہ صاحب! آصف زرداری صاحب جتنا مرضی کہہ رہے ہیں اومنی گروپ سے ان کا کوئی تعلق نہیں مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہو گا۔
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے کہا کہ بھٹو دور میں جو نیشنلائزیشن ہوئی وہ اس وقتکی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل تھی۔ مسلم لیگ، عوامی لیگ، نیپ، جماعت اسلامی کے منشور میں بھی شامل تھی۔ اس دور میں دنیا بھر میں ادارے قومیائے جا رہے تھے بھٹو صاحب نے بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہوئے وہی کام کیا۔ اسی دور میں یہ اقدام اٹھانے کا مقصد تھا کہ سرمایہ کاروں کے رویے کو درست رکھنے کیلئے اس پر مانیٹر مقرر کیا جائے تا کہ وہ غریب مزدور کا استحصالنہ کر سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مزدور طبقے کو تحفظ فراہم کر کے اس وقت کے معاشرے کی ہئیت ہی بدل دی تھی غریب کو روزگار فراہم کیا، بیرون ممالک میں روزگار کے مواقع، زراعت ترقی، لینڈ ریفارمز سب انقلابی کام تھے جن سے عوام کو روزگار اور عزت نفس ملی جو روٹی کپڑا اور مکان سے بھی بڑھ کر تھی۔ عمران خان آج بھی وہی تقریر کی جو انہوں نے کنٹینر، قومی اسمبلی، عوام سے خطاب، سعودی عرب، ملائیشیا، چین میں کی۔ وزیراعظم کو بتانا تو یہ چاہئے تھا کہ 100 دن میں ہم نے یہ کام کیا، مستقبل کے صیغے میں ”کر دیں گے، ہو گا“ میں بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ نظام تعلیم میں بڑا تیر یہ مارا کہ 100 دن میں دس بارہ بندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ اب خارجہ پالیسی میں بھی یو ٹرن لینے لگے کہتے ہیں کہ گلگلی چلا دی یعنی بھارت کی نیت پر شک کر رہے ہیں ایک جانب ان سے تعاون بڑھا رہے ہیں دوسری جانب یہ دفاع میں کہہ رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سینئر رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ وزیراعظم نے جو تقریر کی اس کے کئی پہلو ہیں، حکومت نے 100 دن کے حوالے سے بڑے بڑے عزائم کا دعویٰ کیا، عوام کی توقعات برھا دیں جو مسائل کا باعث بن رہی ہیں کچھ اچھے کام بھی کئے گئے تاہم مہنگائی بڑھی عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا جو حقیقت ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ حکومت ان 100 دن کے بعد سنبھل جائے گی۔ وزیراعظم نے جن عزائم کا اظہار کیا، ایگری کلچر، ڈیری فارم، برآمدات، پانی کی بچت تو یہ سب باتیں تو پہلے بھی حکمران کرتے آئے ہیں اصل بات تو یہ ہے کہ ان سب باتوں پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے کیسے حکومت عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو گی۔ 100 دن میں صوبائی اسمبلیوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عمران خان نے جن عزائم کا اظہار کیا ان پر عملدرآمد کرا سکے تو ملکی حالات میں بہتری آ سکتی ہے اگر یہ سب کچھ محض اعلانات تک محدود رہا تو عوام کے ساتھ ساتھ حکومت بھی مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔
معروف ماہر معیشت شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ وزیراعظم نے جو باتیں کی ہیں ان میں سے 25 فیصد یہ بھی عملدرآمد کرنے میں کامیاب رہے تو بڑی کامیابی ہو گی معیشت بہتر ہو گی روزگار کے مواقع بڑھیں گے غربت کم ہو جائے گی۔ ملک کو بیرونی وسائل پر انحصار کم کرنا ہو گا وزیراعلیٰ نے جن عزائم کا اظہار کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت بحیثیت مجموعی درست سمت میں ہے۔ حکومت نے 20 مئی کو 10 نکاتی ایجنڈا دیا جس میں کہا گیا کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے عدل پر مبنی ٹیکس نظام لایا جائے گا اگر حکومت ایسی پالیسی بنانے میں کامیاب رہتی ہے جس سے ٹیکس نظام میں بہتری آئے تو اس سے اسے 4 ہزار ارب کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے جسے تعلیم صحت روزگار کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم آج بھی وزیراعظم نے ایسی کسی پالیسی کا اعلان نہ کیا بلکہ پھر کہہ دیا کہ پالیسی لائیں گے۔ حکومت کا موقف ہے کہ جاری حسابات کا خسارہ سنگین ہے جسے کنٹرول کرنا ہے تاہم میرے نزدیک یہ سوچ غلط ہے اصل مسئلہ تجارتی خسارہ ہے، دوسرا برآمد میں فرق ہے بیرون ممالک سے آنے والے پیسے سے سرمایہ کاری کے بجائے تجارتی خسارہ پورا کیا جائے گا تو اس سے معیشت بہتر نہیں ہو گی۔ ایف اے ٹی ایف بھی پاکستان پر دباﺅ ڈال رہا ہے اگر امریکہ ہم سے ناراض ہو کر یو اے ای، سعودیہ پر پابندی لگا دے کہ منی لانڈرنگ ہو رہی ہے کہ ہم کہاں جائیں گے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ستمبر تک کا وقت دیا ہے یہ فیصلہ ہو گا کہ نام گرے لسٹ سے نکالا جائے یا نہیں۔
ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں اسلام آباد منظور ملک نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جس نے 100 دن کے بعد خود کو احتساب کیلئے پیش کر دیا۔ اسلام آباد میں منعقدہ تقریب بڑی متاثر کن تھی اس میں غیر ملکی سفراءسمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے بڑی حوصلہ افزا تقریر کی ان کی باتوں میں عزم نظر آتا تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اسے کر گزریں گے۔ کرپشن کے حوالے سے اعداد و شمار بتائے گئے جو حوصلہ افزا ہیں۔ قبضہ مافیا سے لاکھوں ایکڑ زمین واگزار کرانا بھی حکومت کا بڑا اقدام ہے۔ وزیراعظم اپنے عزائم کو پورا کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں وہ اداروں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے حوالے سے بھی پرعزم ہیں ہمیں اُمید کرنی چاہئے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔