نارووال، شکرگڑھ (نمائندگان خبریں) وزیراعظم عمران خان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ خطہ میں امن کیلئے بھارت اگر ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا، ہم بھارت کے ساتھ دوستانہ، مضبوط اور مہذب تعلقات چاہتے ہیں، ماضی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا، دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازعہ کشمیر ہے اور دونوں ممالک کی قیادت کی قوت ارادی سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، امن کیلئے پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں، فوج اور تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں، کرتارپور کو دوربین سے دیکھنے والے گوردوارہ دربار صاحب کی یاترا کر سکیں گے، سکھ برادری کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے یہ باتیں بدھ کو یہاں کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ تقریب میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وفاقی کابینہ کے ارکان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، صوبائی وزرائ، بھارتی پنجاب کے وزیر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو، بھارت کی وزیر ہرسمرت کور بادل، سکھ برادری کے ارکان اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے تقریب میں شرکت کرنے والے افراد بالخصوص سکھ کمیونٹی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج وہ سکھ کمیونٹی کے ارکان کے چہروں پر جو خوشی دیکھ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسلمان مدینہ سے 4 کلومیٹر دور ہو مگر وہ مدینہ نہ جا سکے اور ان کو مدینہ جانے کا موقع ملے تو ان کو جو خوشی ہو گی وہ خوشی میں آج سکھ کمیونٹی کے ارکان کے چہروں پر دیکھ رہا ہوں۔ وزیراعظم نے سکھ برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت دربار صاحب کرتار پور کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرے گی اور یہاں یاترا کیلئے آنے والے لوگوں کو بہترین سہولیات دیں گے، آئندہ سال بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ تقریبات کے موقع پر جب آپ اس علاقہ کو دیکھیں گے تو آپ کو خوشی ہو گی کہ یہاں ہر قسم کی سہولیات میسر آئیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ میرے دوست نوجوت سنگھ سدھو نے جو باتیں کی ہیں وہ ان سے بہت متاثر ہوئے ہیں، مجھے سدھو کی کرکٹ کمنٹری اور کرکٹ کیریئر کا پتہ ہے لیکن صوفی کلام میں ان کی مہارت کا مجھے آج علم ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے 21 سال کرکٹ کھیلی ہے جبکہ وہ 22 سال سے سیاست کے میدان میں ہیں، کرکٹ کے دور میں دو طرح کے کھلاڑیوں سے میرا واسطہ پڑا۔ ایک طرح کے کھلاڑی وہ تھے جو میدان میں قدم رکھتے تو انہیں ہارنے کا خوف ہوتا تھا اور وہ ہر وقت سوچتے تھے کہ کہیں ہار نہ جاﺅں، ایسے کھلاڑی خطرہ مول لینے سے ڈرتے تھے کیونکہ انہیں ہارنے کا خوف ہوتا تھا۔ دوسرے طرح کے کھلاڑی جیتنے کا سوچتے ہوئے میدان میں اترتے تھے، وہ اپنے خوف پر قابو پاتے اور جیت کی تگ و دو کرتے، اس تگ و دو میں وہ رسک بھی لیتے اور وہ یہ سوچتے تھے کہ میں جیت جاﺅں تو کیا ہو گا، چیمپیئن ہمیشہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے کھلاڑی ہی بنتے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب وہ سیاست میں آئے تو بدقسمتی سے اس میدان میں بھی دو طرح کے سیاستدانوں سے ان کا واسطہ پڑا، ایک وہ سیاستدان تھے جو اپنی ذات کا سوچتے تھے، وہ کسی نظریہ کے ساتھ نہیں چلتے تھے بلکہ اپنی ذات کو ترجیح دیتے تھے، ایسے لوگ عوامی رائے کے ڈر سے مشکل فیصلے نہیں کر سکتے تھے اور نفرتیں بڑھا کر سیاست کرتے تھے۔ دوسرے طرح کے سیاستدان وہ تھے جو انسانوں کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے، وہ اس مقصد کیلئے بڑے فیصلے لیتے اور انسانوں کی بھلائی اس طرح کے سیاستدانوں کی ترجیح ہوتی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ گذشتہ 70 برسوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو معاملات چلے آ رہے تھے وہ سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر منیر نیازی کے اس شعر کا حوالہ دیا ”کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی“ اور کہا کہ ماضی میں غلطیاں دونوں اطراف سے ہوئی ہیں، جب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے اور ماضی کی زنجیریں نہیں توڑیں گے تو الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی رہنے کیلئے نہیں بلکہ سیکھنے کیلئے ہے، ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں ماضی کو پیچھے چھوڑنا ہو گا، پاکستان اور بھارت فرانس اور جرمنی کی طرح اچھے ہمسایوں کے طور پر رہ سکتے ہیں، فرانس اور جرمنی کے ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ جو تعلقات رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں لیکن آج ان کی سرحدیں کھلی ہیں اور ان کے مابین تجارت ہو رہی ہے، آج فرانس اور جرمنی جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسی طرح جرمنی اور جاپان کے مابین ماضی کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ آج دونوں ممالک کے مابین کوئی جنگ ہو سکے گی، یہ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ ان ممالک کی قیادت نے ماضی کی زنجیریں توڑنے کا فیصلہ کیا، اگر فرانس اور جرمنی ایک یونین بنا سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے، فرانس اور جرمنی کے مابین خونریزی کی جو تاریخ ہے پاکستان اور بھارت کی تاریخ ویسی نہیں ہے، ہم نے ان کی طرح قتل عام نہیں کیا تو پھر ہم ایک دوسرے کے قریب کیوں نہیں آ سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں جب وہ ہندوستان جاتے تھے تو وہاں یہ خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ پاکستان کے سیاستدان بھارت سے دوستی کے حوالہ سے ایک جیسا مو¿قف رکھتے ہیں لیکن فوج دوستی نہیں چاہتی۔ میں آج یہاں کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت، وزیراعظم، حکمران جماعت، تمام سیاسی جماعتیں، فوج اور تمام ادارے اس معاملہ میں ایک صفحہ پر ہیں، ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم بھارت کے ساتھ مہذب تعلقات چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے، دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو انسان حل نہ کر سکے، دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے، کیا ہم یہ ایک مسئلہ حل نہیں کر سکتے، یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اس کا ارادہ کریں اور اس کیلئے قوت ارادی کی حامل قیادت ہو، جب دونوں ممالک کی قیادت ارادہ کرے گی تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے شعبہ میں استعداد کار موجود ہے، ایک مرتبہ اگر تجارت شروع ہو جائے تو اس سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے گا، ہم بھارت کے ساتھ دوستی اور مضبوط تعلقات چاہتے ہیں اور اس کی ایک وجہ برصغیر میں غربت کی سب سے زیادہ شرح ہے، اگر سرحدیں کھل جائیں اور تجارت شروع ہو جائے تو غربت میں کمی آئے گی، چین کی مثال سب کے سامنے ہے، جس نے 30 برسوں میں اپنے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا، حالانکہ چین کے بھی اپنے ہمسایوں کے ساتھ مسائل موجود تھے لیکن چین کی قیادت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے غربت کے خاتمہ کو ترجیح دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ برصغیر میں غربت کے اشاریے ہمارے سامنے ہیں، دونوں ممالک کی اصل قیادت کو برصغیر کے غربت کی زنجیر میں جکڑے عوام کا سوچنا چاہئے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس خطہ میں امن ہو، پاکستان اور بھارت دونوں مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر اپنے اس مو¿قف کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہندوستان اگر ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ وزیراعظم نے تقریب میں موجود سکھ کمیونٹی کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے اور دوربین سے اس دربار کو دیکھنے والے یہاں آ کر یاترا اور یہاں رہ بھی سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تین ماہ قبل جب نوجوت سنگھ سدھو پاکستان سے واپس گئے تو ان پر بھارت میں بعض حلقوں کی طرف سے بہت تنقید ہوئی، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ان پر تنقید کیوں ہوئی، انہوں نے دوستی اور پیار کا پیغام دیا، یہ کونسا جرم ہے، نوجوت سنگھ سدھو دو ایسے ممالک کی دوستی کی بات کر رہا ہے جو جوہری طاقتیں ہیں اور جن کے مابین جنگ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین جنگ کا تصور ہی پاگل پن ہے۔ وزیراعظم نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کیلئے ہمیں وہاں سدھو کے وزیراعظم بننے کا انتظار کرنا پڑے، لیڈر شپ کو طاقت اور ارادہ کے وصف کا حامل ہونا چاہئے، انسانی تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔ تقریب کی نظامت کے فرائض سینیٹر فیصل جاوید نے انجام دیئے۔