لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ بہت خوشی ہوئی ہے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر اور کھل کر کشمیر کی بات کی ہے اور مجھے یاد ہے کہ سابق حکمران کشمیر کا نام لیتے ہوئے ڈرتے تھے یہاں تک ایک بار راجیو گاندھی یہاں آئے تھے تو بے نظیر بھٹو نے میرٹ ہوٹل کے سامنے سے گزر جانا تھا تو کشمیر ہاﺅس کے بورڈ وہاں سے ہٹوا دیئے تھے کہ بورڈ دیکھنے نہ پائیں کہ یہاں کشمیر ہاﺅس ہے۔ حالانکہ وہ تو سرکاری دفتر ہے جس طرح سے پنجاب ہاﺅس ہے بلوچستان ہاﺅس ہے سندھ ہاﺅس ہے اس طرح سے کشمیر کے لئے بھی ایک ریسٹ ہاﺅس ہے جس کو کشمیر ہاﺅس کہا جاتا ہے۔ سو گز رسہ اور سرے پر گانٹھ کے مصداق ایک بات اتنی واضح طور پر اور اتنی کھل کر اور سچائی کے ساتھ عمران خان نے کہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف ایک ہی بڑا مسئلہ ہے کشمیر اور اگر ہم بات چیت کر کے اس کو ختم کر لیں اور پھر انہوں نے یورپ کی ریاستوں کی مثال دی کہ جرمنی اور فرانس اتنے سالوں سے بلکہ صدیوں سے ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے لیکن ان کی صلح ہو گئی اور سارے ملکوں نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنی ترقی کی ہے۔ جنگ سے تباہ حال جرمنی کی اکنامک گروتھ دیکھیں۔ مشرقی اور مغربی جرمنی بھی تقسیم ہو چکا تھا۔ اور ان لوگوں نے فہم و فراست سے کام کیا اور گفت و شنید سے ان دونوں کے درمیان دیوار برلن ہوتی تھی۔ مشرقی جرمنی بہت پیچھے رہ گیا اور مغربی جرمنی یورپ سے تعلقات کی بنا پر بہت ترقی کر گیا تھا چنانچہ کہا جاتا تھا کہ ایک طرف غربت ناچتی ہے اور دوسری طرف دولت اور صنعت کی کرشمہ سازی ہو رہی ہے۔
ضیا شاہد نے کہا وہ کرتار پورکوریڈور سنگ بنیاد کی تقریب میں نہیں آئیں مگر اس پر بہت سخت بیان دے دیا اور خود نہ آنے کے باوجود کہہ دیا کہ سارک کانفرنس ہونے والی اس میں مودی شامل نہیں ہوں گے اور پاکستان سے کوئی مذاکرات اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک ہندوستان میں حملے بند نہ کریں۔ یہاں جس طرح سے سکھ لیڈر گوپال کا استقبال کیا گیا اور پاکستان آرمی چیف نے سب سے ہاتھ ملا رہے تھے ان سے بھی ہاتھ ملایا تو اس کو جس طرح سے انڈین میڈیا نے نمایاں کیا ہے اور جس طرح انڈیا نے الزامات لگائے ہیں آپ کیا سمجھتی ہیں کہ پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے لیکن ہمیں تو انڈیا کی طرف سے دور دور تک مصالحانہ رویہ نظر نہیں آ رہا۔ میں آپ سے پوچھنا چا ہتاہوں کہ آپ وزڈم کے اعتبار سے یہ بتایئے کہ جب تک کشمیر کا بنیادی مسئلہ درمیان میں ہے ہم آج راستہ کھول رہے ہیں اور وہاں سکھوں کے متبرک مقام بھی ہے تو یہ خوشی کا موقع ہونا چاہئے تھا دونوں ملکوں کے درمیان کہ بڑی بات چیت کے بعد اس راستے کا اجراءہوا لیکن جس طرح سے انڈیا نے ٹیک اپ کیا ہے۔ جس طرح سے ری ایکشن کا اظہار کیا ہے ناراضگی کا اظہار کیا ہے مجھے تو ممبئی حملوں کے بعد یا ایک آدھ چھوٹے موٹے واقعات کے بعد پچھلے 10,8 برس سے وہاں کوئی حملہ بھی ایسا نہیں ہوا جس میں پاکستان کو براہ راست ملوث دکھایا گیا ہو یا الزام بھی لگایا گیا ہو بھارت کون سے حملوں کی بات کر رہا ہے جو ہم ان پر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مودی سارک ممالک کی کانفرنس میں بھی شریک نہیں ہو سکتے اور مذاکرات کا دروازہ بھی نہیں کھول سکتے۔
سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین نے کہا ہے کہ جب تک بھارت میں نریندرا مودی اقتدار میں ہے ہندوستان پاک تعلقات میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہو گی۔ وہ پاکستان کو بڑی میلی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور ان کو قطعی طور پر پاکستان سے مذاکرات کرنے میں دلچسپی نہیں ہے تو ہم کتنی بھی کوشش کریں وہ اس معاملے میں قطعی طور پر ہمارے معاون ثابت نہیں ہوں گے اور وہ کسی قسم کی گفتگو کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
ضیا شاہد نے کہا ممبئی حملے اور ایک آدھ واقعہ جیسے ٹرین پر حملہ ہوا تو اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا تھا پچھلے 10,8 سال سے وہ کون سے حملے ہیں جو عام شہریوں پر کئے گئے ہیں جس کا الزام آج سشما سوراج نے آج اپنی پریس کانفرنس میں لگایا ہے کچھ آپ بتا سکتی ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین نے کہا ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ سشما سوراج کے الزام میں کسی قسم کی حقیقت نہیں ہے ایسے ہی الزام برائے الزام والی بات ہے کوئی ایسا وقوعہ نہیں ہوا اور نہ کسی قسم کی وہاں پر ہماری جانب سے کچھ نہیں ہوا بلکہ وہ ہمارے ہاں دہشتگردی کراتے رہے ہیں اور کلبھوشن یادیو کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔
ضیا شاہد نے پوچھا کہ پچھلے دنوں اجمل قصاب والا قصہ سامنے آیا جس کا پاکستان پر الزام لگا اور بہت شور بھی مچا کہ ہم نے ایک بندہ ٹرینڈ کر کے بھیجا۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ انڈیا کا رہنے والا تھا وہاں اس کا پاسپورٹ تھا وہاں اس کا شناختی کارڈ تھا وہاں اس کے بجلی کے بل تھے اس کی رہائش کو مستقلاً انڈین علاقے میں تھی۔ جس طرح آپ نے شروع ہی میں تشخیص کر دی کہ جب تک مودی ہے ہمیں اچھے مذاکرات کی طرف جاتا راستہ نظر نہیں آتا۔ انڈیا میں الیکشن ہونے والے ہیں آپ کا کیا تجزیہ ہے کہ مودی کے اس دعوے کے باوجود کہ مجھے مسلمانونں کو ووٹ نہیں چاہئیں۔ کیا نریندر مودی اس بار پھرالیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔
سیدہ عابدہ حسین نے کہا کہ راہول گاندھی کی قیادت ابھی کوئی موثر ثابت نہیں ہو رہی لگتا ہے مودی ایک اور ٹرم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہندوستان چونکہ ہمارے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتا وہ الزام برائے الزام لگاتا ہے وہ دہشتگردی کی گردان کرتے رہیں۔ ہم نے دہشتگردی اپنے ملک سے جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینک دی ہے اور اب ایسے وقوع شاذو نادر ہی ہوتے ہیں تو ہندوستان کے الزام میں کوئی وزن نہیں ہے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ چینی سفارتخانے پر حملے کے تانے بانے بھی بھارت سے مل رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی کرانے میں ملوث ہے جس کی زندہ مثال کلبھوشن یادیو ہے جو اپنے تمام جرائم کو تسلیم بھی کر چکا ہے۔ کرتار پور بارڈر کھولنے کی تقریب میں وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف بھی موجود تھے۔ آرمی چیف کی وزیراعظم کے ساتھ موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں جو پاکستان کے استحکام کی نشانی ہے۔ بھارت کا یہ پروپیگنڈا بھی آج غلط ثابت ہو گیا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت تو اچھے تعلقات چاہتی ہے تاہم فوج مداخلت کرتی ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری کے گرد گھیرا تیزی سے تنگ ہو رہا ہے۔ اومنی گروپ کے فنانشل افسر اسلم مسعود بارے خبر ہے کہ وہ زرداری کے خلاف وعدہ معاف بننے جا رہے ہیں۔ جے آئی ٹی نے آصف زرداری اور فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی ہے شنید ہے کہ بلاول بھٹو سے بھی تحقیقات کی جا سکتی ہے۔ لگ رہا ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سب حقائق واضح ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس لندن میں کہہ چکے ہیں کہ لانچوں کے ذریعے بھاری پیمانے پر منی لانڈرنگ کی جاتی رہی وقت آ گیا ہے کہ ملوث افراد کیخلاف کارروائی کی جائے۔ سابق ایم این اے مرحوم میاں عثمان کے بھانجے میاں نعمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے ان پر پارکنگ ٹھیکوں میں بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں یہ بڑے سنجیدہ الزامات ہیں جن کا جواب لیگی ترجمان کو دینا چاہئے۔
شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف این آر او مانگ رہے ہیں۔ شیخ صاحب پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ نوازشریف نہیں اصل کرپشن تو شہباز شریف کرتے رہے ہیں۔ بہت کسی حکومتی اور اپوزیشن شخصیات کے پاس اقامے ہیں جو چھپا کر رکھے گئے ہیں اقامہ رکھنے کا مقصد آنے جانے کی سہولت سے زیادہ بینک اکاﺅنٹ کھولنے میں آسانی تھی۔ شہباز شریف خاندان میں بھی کافی افراد کے پاس اقامے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دبئی کے ایک سرکاری افسر بتاتے نظر آتے ہیں کہ مریم نواز کو انہوں نے اقامہ جاری کیا جو گھریلو ملازمہ کا تھا۔ دولت کی ہوس انسان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے۔ شیخ رشید نے جو دعویٰ کیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ ابھی بہت سے اقامے مزید منظر عام پر آئیں گے۔
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کے کیسز کافی دیر سے چل رہے ہیں۔ آصف زرداری کا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے انور مجید اس کے مالک ہیں جو زرداری سے بہت پہلے سے کاروبار کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کے خلاف کیسز ہیں تو وہ خود ان کا جواب دیں گے۔ تعلقات تو ہر کاروباری کے دوسرے افراد سے ہوتے ہیں کیا صرف تعلقات کی بنا پر بھی کسی کو جرم میں شامل قرار دیا جا سکتا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا جب میڈیا پر ”عجب کرپشن کی غضب کہانیاں“ دن رات سنائی جاتی تھیں تو ان میں سے کیا نکلا کچھ بھی نہیں، کہاں گئے وہ سارے سو موٹو جو ہمارے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار چودھری لیتے رہے۔ آصف زرداری کے خلاف جو خبریں چلائی جا رہی ہیں وہ صرف قیافوں پر مشتمل ہیں ان میں کوئی ایسی خبر یا رپورٹ نہیں ہے جو کسی تحقیقاتی ادارے نے جاری کی ہو۔ اگر سارے الزامات جو آج زرداری پر لگائے جا رہے ہیں کل غلط ثابت ہو جاتے ہیں تو آج جو آصف زرداری کی شخصیت کا منفی تاثر پیش کیا جا رہا ہے جو سیاسی طور پر بہت بڑا نقصان ہے اس کا ازالہ کون کرے گا۔ یہاں تو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کو نہیں بخشا گیا ان کے خلاف کیا کیا نہ کہا گیا تھا۔ محترمہ بینظیر کے خلاف کیسے پروپیگنڈے کئے جاتے رہے، جسٹس قیوم سے ان کے خلاف غلط فیصلے کرائے جاتے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی والوں کے ساتھ جو زیادتی کی جاتی رہی ہیں ان کا ازالہ کون کرے گا۔